السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا علاج کی غرض سے انسانی جسم کو آگ کے ساتھ داغنا جائز ہے۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!جی ہاں علاج کی غرض سے انسانی جسم کو آگ کے ساتھ داغا جا سکتا ہے۔ اور منع پر دلالت کرنے والی روایات بلا علاج اس کی کراہت پر دلالت کرتی ہیں۔ سیدنا جابر فرماتے ہیں۔: «بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى أبي بن كعب طبيباً فقطع منه عرقاً ثم كواه عليه»[مسلم:۲۲۰۷]نبی کریم نے ابی بن کعب کے پاس ایک طبیب بھیجا ،جس نے ان کی ایک رگ کو کاٹ کر اسے آگ سے داغ دیا۔ اسی طرح جب سیدنا سعد بن معاذ کو تیر لگا تو نبی کریم نے ان کی رگ کو چھری کے ساتھ آگ سے داغا۔ [مسلم :۲۲۰۸] بخاری مسلم کی روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا: «الشفاء في ثلاثة : شربة عسل ، وشرطة محجم ، وكية نار ، وأنهى أمتي عن الكي»رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شفاء تین چیزوں میں ہے، شہد پینا، پچھنے (حجامہ) لگوانا اور آگ سے داغنا اور میں اپنی امت کو داغنے سے منع کرتا ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی جسم کو بلا ضرورت (ٹیٹوا وغیرہ بنانے کے لئے) آگ سے داغنا مکروہ ہے ،جبکہ علاج کی غرض سے جائز ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتاویٰ ثنائیہجلد 2 |