السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص کے پاس پچاس بیگھ زمین ہم کو رہن دخلی دے دو اس کی مالگذاری بھی ہم ادا کریں گے اور زمین آباد کریں گے جس سے امید ہے کہ سینکڑوں من غلہ پیدا ہو ا اور نفع ہوا اور یہ بھی احتمال ہوا کہ پیداوار کم ہو مالگذاری میں اور آبادی میں جو خرچ ہوا ہے اس سے بھی کم پیدا ہو اور نقصان ہو اس طرح روپیہ دےکر زمین رہن رکھنا جائز ہے یا نہیں ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت مرقومہ میں رہن اراضی بعض علماء کے نزدیک جائز ہے ان میں سے مولانا محمد حسین بٹالوی مرحوم بھی ہیں اور اصل قیاس ہے اس حدیث پر جس میں ذکر ہے کہ جو شخص گھوڑا یا گائے رہن رکھے وہ نفع کے بدلے میں دودھ اور سواری کا فائدہ لے سکتا ہے ، اللہ اعلم (اہلحدیث امرتسر ۱۳، ۲۸اپریل ۱۹۳۳ء)
دلیل مجوز عام کی عام نہیں خاص ہے عا م کو یا غیر مخصوص کو مخصوص پر قیاس کیا گیا ہے اور یہ بھی ایک قائد ہ ہے کی جو حکم خلاف قیاس ہو وہ مورولص پر منحصر رہتا ہے اس لئے وہ خلاف قیاس ہے اور بحکم باری تعالیٰ
لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ ﴿٢٩﴾سورة النساء... وقوله صلي الله عليه وسلم ان دمائكم واموالكم واعراضکم عليکم حرام الحديث متفق عليه، (مشکوۃ ص ۲۳۳ج ۶)
اصل اموال میں حرمت قطعی ہے جب اصل اموال میں حرامت ہے تو جب تک صحیح دلیل سے حلت کی تصریح نہ ہو قیاس سے خصوصاً جو حکم خلاف قیاس ہو کسی مال کے قیاس سےحلت ثابت نہ ہو گی اور دلیل مجوز انتفاع کی جو تمام اشیائے مرہونہ سے انتفاع کو جائز بتاتا ہے یہ ہے
قال النبی صلي الله عليه واله سلم الظهر يرکب بنفقة اذاکان موهونا ولبن الد ريشرب بنفقة اذاکان مرهونا و علی الذی يرکب و يشرب النفقة رواهالبخاری، (مشکوۃ ص ۶۵۰ ج ا) اور بنفقة میں باربدل اور عوض کی ہے کہا: يدل عليه اثرالذی رواہ البخاری فی ترجمة الباب قال باب الهن مرکوب و محلوب وقال المغيرۃ عن ابراهيم ترکب الضا لة بقد رعلفها تحلب بقدر علفها والهن مثله انتی، (ص۶۴۱ ج ا) هطبوعه مجتبائی دهلي.
امام بخاری نے حدیث کا معنی یہ بتایا ہے کہ سواری مرکوب کی اور شراب لین محلوب بقدر اجرت سواری و قیمت دودھ ہے اس سے زاید حرام ہے جیسے کہ اول مذکورہ سے اصل حرمت ثابت ہے اور چونکہ دونوں چیزیں ہی خلاف قیاس مخصوص ہیں لہذا ان پر کسی چیز کو قیاس کرنا جائز نہیں اور ویسے بھی یہ قیاس مع الفاروق ہے اس لئے کہ جانور مرہو ن بلاغذابلاک ہو جائے گا ، بخلاف زمین وغیرہ کے بلکہ زمین بلاجو تنے کے اور عمدہ ہو جائے گی اگر زمین جوتی بو ٹی نہ جائے تو بنجر ہو کر کلر ہو جانے کا خطرہ یقینی ہے جیسا کہ زراعت کرنے والوں پر مخفی نہیں اگر راہن مرتہن سے ۱۰، ۲۰سا ل تک بھی زمین واپس نہ لے سکا اور مرتہن نے اس کو یوں ہی پڑے رہنے دیا تو وہ یقیناً خراب ہو سکتی ہے لہذا اور اشیاء کا اس پر قیا س مع الفاروق ہے جو باطل ہے اگر اراضی کو ان پر قیاس بھی کیا جائے تو پھر بقدر نفقہ لیا جائےگا پس انتفاع اراضی مرہونہ باطل ہؤا اور اراضی مرہونہ کے بارے میں تو کنز العمال میں احادیث بھی وارد ہیں ان میں اس امر کی یعنی حساب بقدر نفقہ کی تشریح ہے گو ان میں کچھ کلام بھی ہے مگر ہیں اولہ قطعیہ کے موافق ملا حظہ ہو فتاوی نذیریہ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَٰلِكُمْ (پ۳ع۶) سے قطی طور پر ثابت ہے کہ قرض کو مرتہن ہو یا غیر مرتہن راس المال سےزاید ایک پیسہ وجہہ بھی لینا حرام ہے ریا ہے اس کی تصریح ایک حدیث اور اثر سے بھی وارد ہے ،
عن انس عن النبی صلي الله عليه واله سلم قال اذاقرض فلايا خذ هدية رواہ البخاری فی تاريخه وعن ابی موسی قال قدمت المدينة ملقيت عبدالله بن سلام فقال لی انک بارض فيها الريا فاش فاذاکان لک علی رجل حق نا هدي اليک حمل تين ارحمل قت فلا تا خذ نانه ربا رواہ البخاری فی صحيحه فی المناقب فی ترجمة عبدالله بن سلام ر ص ۵۳۸ ج امطبوعه مجتبائی دهلي.
اور حدیث لا يفلق الرهن الخ میں واقعی محدثین نے اختلاف کیا ہےمگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جس حدیث میں محدثین اختلاف کریں ، وہ قطعاً غلط ہو یہ جب ہے کہ ایک راجح اور بالکل صحیح ہو دوسری بالکل مرحوح غیر صحیح ورنہ بعض نے تو صحیحین کی بعض رواتیوں میں بھی اختلاف کیا ہے اعتراض کیا ہے مگر ان کا اعتراض یا اختلاف غلط ثابت ہؤا اور حدیث محبوث یہ کی بعض محدثین ابن عبد البراور عبدالحق نے متصل سند سے تصحیح کی ہے اور حافظ صاحب نے صرف وار قطنی اور بیہقی کی روایت کو کہا ہے کلهاای کل طرقها ضعيفة اور اسانید کو نہیں کہا، یہ مجیب کو مغالطہ ہواہے باقی رہا مدرج ہونے کا اعتراض تو اس کا جواب یہ ہے کہ اور راج کا علم چار طریق سے ہوتاہے يدرک الا دراج بورود رواية مفصلة للقدر المدرج ھمانيه او بالتنصيص علی ذلک من الراوی اومن بعض الا ئة المطلعين اوبا ستحالة کون النبی صلي الله عليه واله سلم يقول ذلک کذانی شرح نخبة الفکر۲۳
اور یہاں تیسری صورت ہو سکتی ہے جسکی بنا جہاد پر ہے جو قطعی نہیں اور رواۃ کا اس میں اختلاف ہے کہ آیا یہ لفظ مرفوع ہے یا موقوف مدرج پس ادراج کی تقدیم تر جیح بلا مرجحہے اور اصل حدیث مرفوع میں رفع ہی ہوتاہے جب تک کہ عدم رفع صحیح دلیل سے صراحہ ثابت نہ ہو جو یہاں ہے نہیں اور پھر یہاں روایت نہ بھی ہوتی تب بھی حدیث صحیح بخاری کا ہی مطلب حرمت کا تھا اس روایت سے اس کی شرح و تفصیل و تصریح تھی اور بس اصل مطلب خود حدیث بخاری کتاب اللہ ہی سے ثابت ہے بتایے لا يفلق الرهن الخ کامعنى عليه غرمه. کے سوا اور ہوہی کیا سکتاہے کہ جب وہ مال راہن کا ہے تو پھر نفع و نقصان کا وہی مالک ذمہ دار ہے اور یہ کتنا لغو قول ہےکہ اتصال والا بھی ارسال کی نفی کرتا ہے اور ارسال والاارسال کا اثبات پھر تو محدثین کا یہ اصول بیان کرنا ہی غلط ہو جاتا ہے جس سے معاذاللہ ان کی امر سے نا واقعی کی طرف اشارہ ہے یہ خبط الحواشی ہے اور دار قطنی پر تعارض کا اعتراض بھی صحیح نہیں ان کی سندیں کئی ہیں بعض کو متصل بتایا بعض کو ضعیف اور حاکم یا ترمذی کت متسائل ہونے سے یہ لازم نہیں آتا بلکہ ان ہر یقصحیح غلط ہو ہاں جب کوئی محدث با قاعدہ اس پر جرح کرے تو وہ قابل قبول ہے اور ابو داؤد کی اپنی کتاب میں ارسال کو ترجیح دینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اورکتب میں بھی ارسال ہی ہو اور مختارالصحاح میں ہے،
ربا المشئ زادوايضافيه اربيت اذا خذت مما اعطيت انتي.
پس وہ ذیادتی بلا معاوضہ ہی ہو گی اگر غير وعليه غرهه کو نظر انداز کیا جائےتو بتائیے گا ئے ، بھینس ، یا گھوڑی مرہونہ مرتہن کے پاس بچے دیں تو وہ کن کے اور اگر وہ خود ہی مر جائیں تو نقصان کس کازاذهم د تدبر
(ابو سعید شرف الدین دھلوی )
چیز مر ہو ن سے فائد ہ لینا مرتہن کو جائز نہیں کیو نکہ یہ سو رہے اور مسلمان بھائی کا مال حرام وجہ سے کھانا ہے،
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ ﴿٢٩﴾ سورة النساء ...
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ﴿٢٧٥﴾ سورة البقرة.... وقال رسول الله صلي الله عليه واله سلم ان دمائكم واموالكم واعرضكم حرام عليكم كحر مة يومكم هذا وبلد كم هذا و شهر كم هذا متفق عليه.
اگر مر تہن کھیتی کرے یامکان کرایہ پر دیوے یا حیوان کو کھلائے تو جو کچھ خرچ کرے اس کی آمدنی سے اتنا لےلے اور باقی اس کے پاس امانت ہے یہ تو رہن کے قرض میں شمار کرے جب اسکا قر ض پورا ہوجائے تو مرہون کو واپس کرےیہ وہ باقی فائدہ رہن کو دے دیوے اس کا مرتہن کو جائز نہیں اس واسطے وہ حرام اور سود ہے صحیح بخاری میں ہے،
قال رسول الله صلي الله عليه واله سلم الظهر يركب بنفقة اذاكان مرهونا ولبن الدريشرب يشرب بنفقة اذاكان مرهونا و علي الذي يركب و يشرب النفقة.
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جتنا خرچ کرے اسی قدر سواری کرے اور دودھ پیئے اس حدیث کے ہی سنے صحیح بخاری میں ہیں،
قال المغيره عن ابراهيم تركب الضالة بقدر علفها و تحلب بقدر علفها والرهن مئلهاورمجمع البحار میں ہے الظهريركب بنفقة اي الداية والظاهر ان المر هون لا يعطل منافعه ينتفع بها با لنفقة كمذهب احمد واسحٰق قالا ينتفع بجلب وركوب دون غير هما بقدرا النفقة واجيب فلا يمنع الرهن الراهن من الا نتفاع بالر هون ولا يسقط عنه الا نفاق انتهي
اور فاتح الباری میں بھی اسی طرح ہے بتفصیل تام مطوں کے دیکھنے والے متقی پر ہیزگار کو اس سے خوب شفاءہو جاتی ہے اور صحیح بخاری میں ہے،
عن سعيد بن ابي بردة عن ابيه قال اتيت المدينة فلقيت عبدالله بن سلام فقال الا تجئ فاطعمك سو يقا وتمر افد خل في بيت ثم قال انك بارض الوبابها تاش اذاكان لك علي رجل حق فاهدي اليك خمل تبن اوحمل خير اوحمل قت فلا تاخذه نانه ربا اتني، (جاص۵۳۸) اور ابن ماجه میں ہے عن يحي بن اني اسحٰق الهنائي قال سالتا انساالزجل منايقر ض اخاه المال فيهمدي له قال قال رسول صلي الله عليه واله سلم اذاقرض احد كم قرضا فاهدي له اوحمله علي الدابة فلا يركيها ولا يقبله الاان يكون جري بينه وبينه قبل ذلك۔
ان سب سے معلوم ہوا کہ جو کچھ خرچ کرنے کے بعد بچے وہ راہن کو دے دیوے یااس کے قرض میں حساب کرے خواہ مکان مرہون ہو یا زمین یا باغ یا حیوان اگر راہن خود خرچ کرے تو مرتہن کو کوئی چیز یعنی جائز نہیں نہ دودھ پینا نہ سواری کرنا نہ مکان کے کرایہ کی آمدنی سے لینا اور نہ زمین کی زراعت اور باغ کے پھل سے لینا جائز ہے اس واسطے کے یہ حرام ہے اور سود ہے والله اعلم. ، (عبدالرحمٰن عفی عنہ مدرس مدرسہ حاجی علی جان مرحوم دہلی )
(۲۳جمادی الشانی ۳۹ء)
انتفاع بالمر ہون کے بارے میں جمہور علماء ہر شئے مرہون میں حرمت کے قائل ہیں اور بعض علماء ظہر اور لہن الدیں جواز اتنفاع اور اس کے اسوا میں مثل جمہور علماء حرمت کے قائل ہیں ۔ فتح الباری میں ہے ۔
مع قول احمد واسحٰق وطائقه قالو اينتقع المرتهن من الرهن بالو كوب والحلب بقد ر النفقة ولا ينفقع بغير هما انتي، (۶۸ج۶)
سبل اسلام میں ہے ذهب احمد واسحٰق الي العمل بظاهر الحديث و خصواذلك بالوكوب والدرنقالو اينتفع بهما بقدر قيمة النفقة ولا يقاس فير هما عليها انتی۔
غرض ماسوائے ظہر دلہن الدرمیں سب علماء حرمت کے قائل ہیں اور خاص ارض مرہوز کے بارے میں و وحد یتیں بھی آچکی ہیں جن کا احصل یہ ہے کہ بعد وضع خرچ اخراجات کے باقی بچے وہ قرضہ میں محسوب ہونا چاہیے ۔
یہ مانا کہ ہر دو حدیث اعلی لبقہ کی نہیں ہیں اولی کی ہیں لیکن بعض علماء کےقول سے تو ان کی حثییت کم نہیں ہے پس اہلحدیث ۶مارچ ۱۹۳۵ءکے جواب نمبر ۱۰۱میں میرے خیال میں دواندیشی اور غور سے کام نہیں لیاگیا جو ربوا جیسے نازک معاملے میں ایسا کھلم کھلا فتوی جواز کا دےدیا گیا ہے۔
گذارش ہے کہ اخبار اہلحدیث مورخہ ۲۰مارچ ۳۵ءکے صحفہ نمبر۱۰کالم نمبر۱سوال نمبر۱۰۱نظر سے گذار جو کہ اراضی مرہونہ سے نفع اٹھانے کے متعلق تھا آپ نے اس کے جواب میں فرمایا ہے کہ“زمین کی مالگذاری اگر مرتہن کے ذمے ہے تو زمین کی پیداوار حاصل کرسکتاہے ”
اس پر مولوی محمد یوسف صاحب ساکن زیرہ فیروز پور نے عدم جواز کا تعاقب فرمایا ہے جو اخبار یکم مئی ۲۵ء نمبر ۱۰پر درج ہے میں اس کے متعلق تین اکابر علمائے کرامکا فتوی پیش کرتا ہوں امید ہے کہ آپ اس سے بھی شائع فرمائیں گے، مولانا مولوی محمد حسین صاحب مرحوم فرماتے ہیں اراضی مرہونہ سے مرتہن کو نفع اٹھانا جائز نہیں بلکہ اس سے نفع لینا راہن اس وقت نفع اٹھا سکتا ہے جب کہ وہ تمامالگذاری ادا کرے اور راہن اجازت دے مجز اعن النفقه علي للهون بموجب حدیث الظهر ہر کب (الحدیث ) گھوڑاوغیرہ جانور افر گرد ہوں تو ان کی خوراک کے عوض مرتہن ان پر سوار ہو سکتاہے اور دودھ پی سکتا ہے یہ دونوں روایتیں مشکوۃ ہیں ،
(ابو سعید محمد حسین ) ، (مولانا محمد صاحب دھلوی)
(مولانا اب طاہر بھادی مدرسہ احمد یہ ارہ رحال مدرسہ رحمانیہ دہلی )
ان حضرات کی دلیل بھی یہی حدیث ہے مولوی صاحب کے الفاظ یہ ہیں اگر اراضی مرہونہ پر کل اخراجات مرتہن خود کرے اور راہن کے ذمے حالت رہن میں کوئی خرچ نہ ہو تو اغلب مرتہن کونفع بعوض اپنے نفقہ کے جائز ہو گا جمہور کا مذہب اس کے خلاف ہے مولو ی ابو طاہر کے مختصر الفاظ ہیں یہ ہیں :
كلام في الا نتفاع بالا رض امرهونة اذاكان المئون عليه من نفقة وغيرها مما تد عواليه الحاجة الخ.
(محمد امين ازامرت ممركثئره بهائی )
مولوی محمد امین صاحب نامہ نگار ہذا نے یہ تینوں فتوے قلمی مجھے دکھائے ہیں واقعی ان تینوں صاحبوں کے دستخطی ہیں ، (۲۲مئی ۲۵ء)
جناب مولانا صاحب مہربانی کر کے بغرض فائدہ عام فتوی ہذاشائع فرما دیں
(عین الدین دلب پوری)
شئےمرہون کے ساتھ نفع لینے میں اجازت راہن کو کچھ دخل نہیں بلکہ سود ہے مگر چند اشیاءمرہونہ سے نفع لیناجائز ہے
قال رسول الله صلي الله عليه واله سلم الظهر يركب بنفقه اذاكان مرهونا ولين الدريشرب بنفقه اذاكان مرهونا رواه البخاري
وغیرہ اس حدیث میں سبب نفقہ کے مرتہن کو اشیاء مرہونہ سے فائدہ درست کہا گیاہے ان اشیائے مرہونہ کے ساتھ اور بھی بقیاس لاحق ہو سکتی ہی بعلت نفقہ اور کسب بھی مثل نفقہ ہے اگر زمین رہن رکھ کر خود آباد کی اپنے نفقہ و کسب میں جواز نکلتا ہے
قال اشوكافي في النيل فتكون الغو ائد المنصوص عليها في الحديث للمر تهن ديلحق غيرها من الفوائد بها با لقياس لعد مر الفارق والكسب من جملتها فلا وجه للفرق بينه وبينها فتكون كلها للمر تهن والمئون وعليه من نفقه وغيرها مما تدعو به الحاجة المرتهن انتي
اور اگر علت نفقہ و کسب اپنا نہ ہو تو شئے مرہوں سے فائدہ لینا سود و نا جائز ہی لگان و مالگذاری مرتہن اداکے نہ راہن ، والله اعلم وعلم.حورہ
(احمد سلمہ الصمد رمدرس مدرسہ حاجی علی جان دھلی)
حضرت شیخ الحدیث مولانا احمداللہ پر تاب گڈھی ژم الدہلوی رحمۃاللہ علیہ یکے ازمشاہیر کا پر اہلحدیث ہند کثر اللہ سولوہم
وقال في الفتح وفيه حجة لمن قال يجوزللم تهن الا نتقاع بالهرهن اذا قام بمصلهة ولم لم ياذن المالک
ہاںاگرمرتہن لگان اور ماگذاری اس زمین پر ادا نہ کرے تو البتہ سود ہوگا۔
حيريره طاهر البهاري عفي عنه الباري المدرس الاول في المدرسة احمد ية الكائنة في البدةاره. (۲۴محرم الحرام ۳۹ء)
اخبار اہلحدیث مورخہ ۲۶جولائی۱۹۱۸ء میں کسی صاحب سے طرف سے یہ مضمون نکلاہے کہ اشیائے مرہونہ کت ساتھ مرتہن کو فائدہ اٹھانا درست ہے یا نہیں ؟ جو ابا گذارش ہے کہ جائز دورست ہے،
اخرج البخاري بلغظ الظهر يركب بنفقة اذاكان مرهونا ولين الدريشرب بنفقه واخرجه ابن مانة عن ابي هريرة مرهونا وابوداؤد عنه لبن ادلدريحلب بنفقة اذاكان مرهونا والظهر يركب بنفقة اذاكان مرهانا وعلي الذي يحلب ويركب النفقة قال ابوداؤد وهوعندنا صحيح انتي داخرج الترمذي عنه مرفوعا الظهر يركب اذاكان مرهانا ولبن الدريشرب اذاكان مرهونا وعلي الذي يركب ويشرب نفقة قال الترمذي هذا احديث حسن صحيح واخراج الحاكم و الدارقطني من حديث ابي هريرة مرفوعاً الرهن مركوب ومحلوب ۔
خلاصہ ان تمام روایات کا یہ ہے کہ اشیاء مرہونا سے فائدہ اٹھانا جائز ہے مگر بعض عالم یرکب ویشرب کا فاعل راہن کو بتاتے ہیں اور بعض مرتہن کو فریق ثانی کا قول حق ہے اس لئے کے بعض روایات میں لفظ مرتہن آ چکا ہے چناچہ وہ روایت ہے،
حدثنا احمد بن داؤد حدثنا اسمٰعيل بن ابراهيم المصاتع حدثنا هشيم عن زكريا عن اشبي عن ابي هريرة مرفوعاًاذاكانت الدارنة مرهونة نعلي امرتهن علفها ولبن الدريشرب وعلي الذي يشرب نفقها.
ا س حدیث سے ثابت ہؤاکہ مرتہن یرکب ویشرب کا فاعل ہے باقی جو احادیث میں مرتہن کو اشیا ء مرہونا کے ساتھ اور کسی قسم کی شرط جو جرمنفعت میں ہو اس سے روکا گیا ہے جیسا کہ صاحب سبل السلام وغیرہ نے کہا ہے صاحب اعلام الموقین نے اس بحث کو بسط کے ساتھ لکھاہے،
(عبدالستار گلانوری ، نزیل دہلی ) ، (۸ذی قعدہ۳۶ء)
اس مضمون پر اہلحدیث میں علماء نے خامہ فرسائی کی ہے مولوی عبدالستارصاحب و مولوی عبدالجبار صاحب جواز کے قائل ہیں اور مولوی عبدالوہاب صاحب عدم جواز کے قائل ہیں ناچیز کچھ تفصیل سے دونوں حضرات کے دلائل بیان کرکے اپنا خیال ظاہر کرتاہے مولوی عبدالوہاب صاحب یا وہ حضرت جو عدم جواز کے قائل ہیں ان کی دلیل یہ روایت ہے لايفلق الرهن من راهنه له غنمه وعليه غرصه ابن حبان.
مولوی عبدالجبار صاحب کا یہ فرمانا کہ روایت ایسی کتابوں کی ہے جن میں سب قسم کی حدیثیں ضعیف ، موضوع ، مقلوب، منطقع، مرسل بھری ہوئی ہے میرے خیال میں یہ الفاظ مناسب نہیں کیونکہ وہ علاوہ صحیحین ، سسنن اربع میں بھی ضعیف ، مقلوب ، منقطع ، مرسل سے لازم آتاہےسکہ سسنن اربع کی روایت نا قابل قبول ہیں اہل بن سے لازمی ہے کہ وہ کسی طبقہ کی کتاب کیوں نہ ہو سب کی روایات پر غور کریں ان کی روایت دیکھیں علمائےمحدثین کے کلام پر غور کریں کہ انہوں نے کیا خیال فرمایا ہے بہت ممکن ہے کہ ایسی کتابوں میں صحیح روایات اکثر موجود ہوں اور جب کہ حافظ ابن حجر علیہ الرحمۃ علامہ ابن جوزی ، حافظ ذہبی ایسے حضرات سے اکثر ایسی موضوع اور ضعیف روایتوں کی تخریج فرمادی ہے اس لئے ان کی کتب سے ایسی کتابوں،
( ۱۔ حضرت العلام مولانا عبدالوہاب صاحب آروی کا مضمون بہ سرخی اشیا کے مرہونہ سے نفع اٹھانا جائز نہیں بلکہ سود ہے ۳ستمبر ۱۹۱۸ءصفحہ نمبر ۵ اخبار اہلحدیث امر تسر میں ہے اس کا جواب حضرت العلام مولانا عبدالجبار صاحب کنڈیلوی کے قلم سے یہ سرخی" اشیاء مرہونہ سے نفع اٹھانا جائز ہے سود نہیں "۱اکتوبر ۱۹۱۸ءکے اہلحدیث نمبر۹ پر شائع ہوا ہے پھر اس کا جواب مولانا آروی صاحب نے ۶دسمبر ۱۸ء کے اہلحدیث نمبر ۷پر شائع کر دیا ہے فریقین کے مضامین نہایت قیمتی معلومات سے پر ہیں ان ہی کی طرف جناب مولانا خالد صاحب بھوپالی نے اشارہ فرمایا ہے افسوس کہ فتاوی کی محدود ضمانت کے پیش نظر ہم ان علمی مقالات کو مکمل طور پر شائع نہ کر سکے شائقین مذکورہ بالاپر چہ جات میں ان تفصیلی مقامات کوملا خطہ فرماسکتے ہیں، (مولف) )
کے رواۃ کے حالات معلوم ہو سکتے ہیں حافظ ابن حجر رحمۃاللہ علیہ حدیث متذکرہ بالا کے متعلق تحریرفرماتے ہیں کہ:۔
لا يفلق الرهن من راهنه له غنمه وعليه غرمه واه ابن حبان في صحيحه الدارقطني راالحكم والبيهقي من طريق زباد بن سعد عن ازهري عن سعيد بن المسيب عن ابي هريرة مرفوعاًلا يفلق الرهن له غنمه و عليه غرمه واخرجه ابن ماجة من طريق اسحاق بن راشد عن الزهري عن سعيد بن المسيب عن ابي هريرة مرفوعاواخرجه الهاكم من طرق الزهري موصوله ايضاورواه الا ديزاعي و يونس و ابن ابي ذئب عن الزهري عن سعيد مرسلا وراواه المشافعي عن ابن ابي فديك وابن ابي شيعبة عن وكيع و عبدالرزاق عن المشوري كلهم من ابن ابي ذئب كذلك و لفظه لا يغلق الرهن من صاحبه الذي رهنه له غنه وعليه غرهه قال اشافعي غنه بزيادة دينه د غرمه هلا كه و صحح ابوداؤد البزاروالدارقطني وابن المقطان ارساله وله طرق في الدارقطني والبيهقي كلها ضيفة و صحح ابن عبد البرد عبدالحق وصله، (تلخيص الحبير نمبر۶۴۲)
حافظ صاحب رحمۃاللہ علیہ نے بحوالہ ابن خرم ایک روایت اور نقل فرمائی ہےجو یہ ہے
وروي ابن خرم من طريق تاسم بن اصبغ نا محمد بن ابراهيم نا يحي بن ابي طالب الانطاكي وغيره من اهل الثقة نانصربن عاصم الا نطاكي ناشهابة عن ورقاء عن ابي ذئب عن الذهري عن سعيد بن المسيب وابي مينة بن عبدالحمٰن عن ابي هريرة قال قال رسول صلي الله عليه واله سلم لا يغلق الرهن الخ قال ابن خرم هذا استاد حسن قلت اخرجه الدارقطني من طريق عبدالله بن نصر الاصم الانطاكي عن شهابةبه و صحها عبدالحق و عبدالله بن عاصم تصحيف وا نما هو عبد بن نصرا لا صم سقط عبدالله و صرف الاصم المعاصم، (تلخیص الخبیرنمبر۶۴۲)
غرض اس روایت کا مدار حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ پر ہے اور کسی صحابی سے روایت معلوم نہیں ہوتی اور اس پر محدثین کا اتفاق ہے کہ اس کے اکثر طرق ضعیف ہیں اور ساتھ ہی مرسل بھی ہے البتہ اگر اور طریقوں سے بصحت مروی ہوتی اور اس کے خلاف کوئی اصح روایت نہ ہوتی تو ضرور قابل عمل ہو سکتی تھی لیکن اس کے مخالف صحیح روایت موجود ہے
عن ابي هريرة عن النبي صلي الله عليه واله سلم انه كان يقول الظهر يركب بنفقة اذاكان مرهونا ولبن الدريشرب بنفقة اذاكان مرهونا وعلي الذي يركب ويضرب النفقة.
(نيل الاوطارص ۱۰۲ ابحوالہ ترمذي ابن ماجۂ ابوداؤد )
پہلا مذہب امام ابو حنفیہ ، امام شافعی رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے اور دوسرا مذہب امام احمد رضی اللہ تعالی عنہ کاہے امام احمد کےموافق ایک اور حدیث بھی ہے،
اذاكان الدابة مرهونة نعلي امرتهن علفها ولبن الدريشرب وعلي الذي يشرب نفقة رواه احمد.
اس روایت کے متعلق علامہ شوکانی فرماتے ہیں:
الحديث له الفاظ منها ماذ كره المصنف رمنها بلفظ الرهن مركوب ومحلوب رواه الدارقطني والحكم وصحيحه من طريق الاعمش عن صالح عن ابي هريرةرضي الله تعالي عنه مرفوعاً قال الحاكم لم يخرجاه لان سفيان وغيره وقفو اعلي الا عش وقد ذكر الدارقطني الاختلاف فيه علي الاعش وغيره درجح الموقوف و به خرم الترمذي وقال ابن ابي حاتم قال ابي رفعه يعني ابا معاوية مرة ثم ترك الرفع بعد ورجح ابيهقي ايضاالواقف رنيل الاوطارص ۱۰۳)
غرض اس پر اتفاق ہے کہ جس میں لفظ مرتہن کی ذیادتی ہے وہ روایت موقو ف ہے مرفوع نہیں علامہ شوکانی نے اس قول کی تائید میں ایک حوالہ حماد بن سلمہ کی روایت کا اور دیا ہے
ديويده ماوقع عنه حماد بن سلمة في جامعه اذا ارتهن شاة شرب المرتهن من لنتها بقدر علفها فان استفضل من اللبن بعد ثمن العلف فهور با نفيه دليل علي انه يجوز للمرتهن الا نتفاع بالرهن رنيل الا وطار نمبر۱۰۲)
لیکن اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرتہن بقدر مصارف نفع اٹھا سکتا ہے مگر یہ روایت حافظ ابن حجر علیہ الرحمۃ و علامہ شوکانی رحمۃاللہ نے استشہاد اپیش کی ہے اور اس میں کہیں نفط مرفوعاًنہیں قطع نظر اس کے علامہ ذہبی رحمۃاللہ کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ حماد بن سلمہ سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ احترام کیا ہے اور امام مسلم نے بطور شواہد ان کی روایت لی ہے حافظ صاحب علیہ الرحمۃ نے فرمایا ہے کہ :۔
تركب الضالة بقدر علفها تحلب و تحلب بقدر علفها وهذه الا تروصله سعيد بن منصور عن شيم عن مغيرةنه.
“یعنی جیسا کہ امام بخاری نے فرمایا! وقال مغيره عن ابراهيم النخعي”تو مغیرہ تک سعید بن منصور نے وصل کیا ہے اور اسی روایت کی حماد بن سلمہ نے تو صبح کی ہے،
حافظ صاحب علیہ الرحمۃ اس حدیث مرفوع الظہر یرکب کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں،
وفيه حجة لمن قال يجوزللمرتهن الانتفاع بالرهن اذا قام بمصلحة ولولم يا ذن به المالك وهو قول احمد و اسحاق و طائقه قالواينفع المرتهن هن من الرهن بالركوب والحلب بقدر النفقه ولا تنتفع بغير هما للفهوم.
(فتح الباري نمبر۱۰۱)
اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ شارع علیہ السلام نے کسی صحیح روایت میں انتفاع کو محدود نہیں فرمایا اور نہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے علاوہ سواری دودھ کے جانوورں کے انتفاع کو ناجائز قرار دیا ہو بلکہ یہ حکم عام ہے اور مرتہن کو اختیا ر ہے کہ وہ جس قدر چاہئے اس سے نفع اٹھائے اور ہر شئے مر ہونہ سے وہ متمتع ہو سکتا ہے علامہ وقت شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ نے اس مسئلہ پر نئی روشنی ڈالی ہے فرماتے ہیں :۔
میرے نزدیک ان دونوں حدیثون میں اختلاف نہیں ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ پہلی حدیث میں حکم عام ہے مگر جس وقت راہن کو شئے مرہونہ کت تلف یا ہلاک کا خوف ہو اور مرتہن اس کا خرچ اٹھائے تو ایسی صورت میں لوگ جس قدر انصاف کردیں اس لئے سے مرتہن نفع اٹھا سکتاہے گو حضرت شاہ صاحبنے دونوں روایتوں میں تطبیق دینے کی کوشش فرمائی ہے مگر پھر بھی اغراض متذکرہ بالا کا جواب نہیں ہو سکتا چناچہ علامہ ابن قیم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :۔
امثال الرابع والسبعو ن وردالسة الثابته الصحيحة بجوازركوب المرتهن الدرابة امرهونة و شربة لبنها بنفقة عليها كماروي البخاري في صحيحه ثنا محمد بن مقاتل انا عبدالله انازكويا عن الشعبي عن ابي هريرة قال قال رسول الله صلي الله عليه واله سلم الرهن يركب بنفقة اذاكان مرهونا ولبن الدريشرب بنفقة ولهذا الحكم من احسن الا حكام و اعدلها ولا اصلح للراهن منه وماعداه نفا ئدته ظاهر فان الراهن قد يغيب و تيعدرعلي المرتهن مطالبته بالنفقة التي تحفظ الرهن ويشق الرهن ويشق عليه او يتعذر رفعه الي الحاكم واثبات الرهن و اثبات غيبة الراهن واثبات ان قدر نفقة عليه هي قدر حلبه وركوبه و طلبه منه الحاكم له بذلك وفي هذا من العسر والجهد والمشقة مانيا في الحنيفة المسحةفشرع الشارع الحكيم اقيم بمصالح العباد للمرتهن ان يشرب لبن الرهن و يركب ظهره وعليه نفقة و هذا محض القياس وهو يخرج علي اصلين احد هما انه اذا نفق علي الرهن صارت النفقة دينا علي الراهن لا نه واجب الادا ء عليه ويتعر عليه الا شهاد علي ذلك كل وقت واستيذان الحاكم فجوز له الشارع استيفاء دينه من ظهر الرهن ودره را علام الموقعين نمبر ۱۰ج۶)
علامہ موصوف نے اس بحث کو نہایت وضاحت سے تحریر فرمادیا، تحریر بالا سے تین مذاہب معلوم ہوتے ہیں ایک مذہب امام ابو حنفیہ رحمۃاللہ وغیرہ کا کہ انتفاع نا جائز ہے، ایک مذہب امام احمد رحمۃاللہ وغیرہ کاکہ شئے مرہو نہ پر جتنا خرچ کیا ہو اسی قدرانتفاع جائز ہےتیسرا مذہب جو ظاہر حدیث سے ثابت ہوتاہے کہ انتفاع شئے مر ہونہ سے جائز ہے اور اس میں یہ شرط فضول ہے کہ جس قدر خرچ کرے اتنا ہی لے کیونکہ انتفاع کے معنی نطع حاصل کرنا ہے جب مرتہن نے اس پر صرف کیا تواول تو اس کو اس کا حساب کتاب کرنا دشوار ہے دوسرے وہ اس کی حفاظت بھی کے گا تیسرے اگر وہ اسی قدر شئے مرہونہ سے وصول کرے جس قدر اس نے صرف کیا ہےتو یہ انتقاع کہاں ہؤا یہ خواہ مخواہ کی دوسری ہے پس بقول امام ابن القیم و حضرت سید اسمٰعیل امیریمانی وغیرہ علیہم الرحمۃ شئے مرہونہ سے نفع اٹھانا جائزہے اور جب ان دو کا ثبوت برواقت صحیح ثابت ہے تو اور چیزوں کا بھی اس پر قیاس کر لینا چاہیےناچیز کی تحقیق اس مسئلہ میں یہ ہےاور علماء اس پر روشنی ڈالیں گے ممکن ہے کہ انشاءاللہ مفصل اس مسئلہ پر لکھنے کی مجھے ضرورت ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب