حدیث میں وارد ہے کہ جبرئیل ؑ نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا«يا محمّداخبرنی عن الاسلام»۔یعنی یارسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھےبتاؤکہ اسلام کیاشے ہے؟آپ نےجواب میں فرمایا:
کہ توگواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کےسوا عبادت کےکوئی لائق نہیں۔ اور محمّد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کےرسول ہیں۔ اورنماز پڑھے اور زکوۃ دے اور ماہ رمضان کےروزے رکھ اور بیت اللہ کا حج کراگرتجھےتوفیق ہو۔
ووسری حدیث میں ہے۔«بنی الاسلام علیٰ خمسٍ »کہ اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پرہے۔ ان ہر دواحادیث سےمعلوم ہوا کہ ایمان متجزی شے ہےجو پانچ اشیا سےمرکب ہے نہ کلی جس کی وجہ سےہرایک کوجدا جدا فرد مانا جائے اورجوشے مرکب ہو اوراس میں کسی جزکی کمی پائی جائےتویہ نہیں کہا جاسکتا کہ کل ہی نہیں ۔ہا ں اتنا کہا جائے گاکہ اس میں نقص ہے۔باقی رہا کہ خدا تعالیٰ نماز کوہی عین ایمان بتا رہا ہےچنانچہ ارشاد ہے ﴿وماکا ن الله ليضع ايمانکم﴾ ۔تواس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شےکا اہتمام بیان کرنا مقصود ہوتو اس کوکل کے اسم سےتعبیر کرتے ہیں یہاں نماز کواہتمام کیوجہ سے لفظ ایمان سےتعبیر کیا ہے سورہ فاتحہ کوبھی اہتمام کی وجہ سے نماز قرار دیا ہے حالانکہ رکوع سجود بھی سورہ فاتحہ کی طرح فرض ہیں۔ اور جس حدیث میں ہے «من ترک الصلوۃ متعمداً فقد کفر»سویہ محض تہدید ہے جیسا کہ بخاری ومسلم میں حدیث ہے۔
«ليسمن رجل ادعی لغير ابيه وهو يعلم فقد کفر»۔یعنی جو آدمی اپنے باپ کےغیر کی طرف اپنے آپ کومنسوب کرے اس نے کفر کیا۔
بخاری ومسلم کی حدیث بحوالہ مشکوۃ اس طرح ہے «من ادعی الی غير ابيه وهويعلم فالجنةحرام» جس حدیث میں «فقد کفر» کا لفظ ہےوہ اس طرح ہے«لاترغبواعن ابائکم فمن رغب عن ابيه فقد کفر»
دوسری حدیث میں ہے« سباب المسلم فسوق ٌ وقتاله کفرٌ»
مسلمان کوگالی دینا فسق ہے اور قتل کرنا کفرہے۔ تیسری حدیث میں ہے۔
«ايما عبد ابق من مواليه فقد کفر»۔جوعبد اپنے آقا سےدوڈ جائے وہ کافرہے۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جوکفر حدیث من ترک میں ہے اس سےمراد کفران نعمت ہے۔ اگر کفر مان بھی لیں توپھر کفر کےمراتب ہیں جیسا قتالہ کفر والی حدیث اور دوسری حدیث «بين الرجل وبين الکفر ترک الصلوۃ»کی مثال بالکل اسی طرح ہے جس طرح ترمذی کی حدیث میں ہے کہ «قال رکانة سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول انّ فرق ما بيننا وبين المشرکين العمائم علی القلانس»یعنی آپ ﷺ نےفرمایا ہمارے اور مشرکین کےدرمیان اتنا فرق ہے کہ ہم ٹوپیوں پرپگڑی باندھتےہیں اورو ہ ایسا نہیں کرتے باقی بے نماز کی دو قسمیں ہیں ۔اول وہ شخص جونماز کو حقارت کی وجہ سے ترک کرتا ہے وہ تو بالاتفاق جهنّم میں رہےگا۔ اور جوشخص تکا سلاوتساہلاچھوڑتا ہے۔ اگرخدا چاہےتواس کو رہائی دے دے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔﴿انَّ الله لايغفر ان يشرک به ويغفر مادون ذالک لمن يشاء﴾
نیز حدیث میں ہے ۔
عبادہ بن صامت سےروایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جوشخص گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کےسوا کوئی عبادت کےلائق نہیں ۔وہ وحدہ لاشريک ہے۔اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا بندہ اور رسول ہے۔اور عيسیٰ علیہ السلام اللہ کا بندہ ہے اور اس کا کلمہ ہےجواس نےمریم ؑ کی طرف القا کیا ہے جنت ودوزخ حق ہیں ۔اللہ تعالی اس کوبہشت میں داخل کرے گا جوبھی عمل کرتا مرجائے ۔؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث ۔«من ترک الصلوۃ متعمداً فقد کفر» ،، کوتہدید پر حمل کرنےکے لئے کوئی دلیل نہیں ۔
آیت کریمہ ۔﴿إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَغۡفِرُ أَن يُشۡرَكَ بِهِۦ وَيَغۡفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَآءُۚ﴾ اور حدیث عباد ہ بن صامت سےاستدلال سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔بعض لوگوں نے اس آیت کواتنا وسیع کردیا ہےکہ ان کے نزدیک مرزائی ۔چکڑالوی بلکہ آریہ بھی اس کےتحت آجاتے ہیں ۔یعنی ان کےخیال میں باوجود کافر ہونےکےان کی بخشش کی امید ہے کیونکہ خدا اس آیت میں فرماتا ہے۔﴿ويغفر ما دون ذالک لمن يشاء﴾ حالانکہ یہ بالکل غلط ہےکیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔﴿إِنَّ ٱللَّهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى ٱلۡكَٰفِرِينَن﴾ یعنی جنت کی نعمتیں کافروں پرحرام اور جب مرزائی ،چکڑالوی وغیرہ کافر ہیں اور ان پرجنت حرام ہےتوان کی بخشش کی امید کس طرح ہو سکتی ہے۔آپ نےلکھا ہےکہ جوحقارت سے نماز کو چھوڑے وہ بالاتفاق جہنم میں رہےگا اور بعض کےخیال کےمطابق اس کی بخشش کی امید ہےتواتفاق کہاں رہا۔ہاں اگرآپ کی مراد اہل سنت کا اتفاق ہوتودرست ہےلیکن آخربعض کےخیال کی تردید میں آپ کوئی دلیل رکھتےہوں تووہی دلیل تکاسل سےچھوڑنے والے پرلگا لیں ۔
قرآن مجید میں ہے:
’’تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہئے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے‘‘
مفسرین نےاس کی تعریف میں لکھا ہےکہ شرک سےمراد اس جگہ ریاء ہےیعنی دکھاو ے کےلئے عمل نہ کرے ۔جب ریاء بھی شرک ہوئی توکیا اس پر آیت﴿إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَغۡفِرُ أَن يُشۡرَكَ بِهِ﴾ لگ سکتی ہے۔اگر کوئی لگانی چاہے تواس کوکیا جواب دیں گے؟یہی دوسری آیتیں حدیثیں بھی دیکھی جائیں جن سےثابت ہےکہ ریاء اگرچہ شرک ہے لیکن معافی ہوسکتی ہے سو اسی طرح دوسری آیتیں حدیثیں بےنمازی کےکفر کوچاہتی ہیں۔ مشکوۃ میں ہے:
عبادہ بن صامت کہتے ہیں ہم نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےاس شرط پربیعت کی کہ ہم سختی آسانی خوشی ناخوشی ہرحال میں تا بعداری۔ فرمانبرداری سےہاتھ نہیں کھینچیں گے۔ٍاور امارت کےمستحق سے امارت نہیں چھینیں گے اور جہاں ہوں حق کہیں گے۔اور خدا کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سےنہیں ڈریں گے۔اور ایک روایت میں ہےکہ ہم نےاس شرط پربیعت کی کہ امارت کےمستحق سےامارت نہیں چھینیں گےمگریہ کفر صریح دیکھو جس میں اللہ کی طرف سے تمہارے پاس قطعی دلیل ہو۔
عوف بن مالک اشجعی سےروایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا تمہارے بہتر امام وہ ہیں جن سےتم محبت رکھو۔اوروہ تم سےمحبت رکھیں۔ تم ان پردرود پڑھواوروہ تم درود پڑھیں اورتمہارے برے امام جن کوتم برا جانو اوروہ تم کوبرا جانیں ۔تم ان کولعنت کرو اوروہ تمہیں لعنت کریں۔ ہم نےکہایارسول ! ہم اس وقت ان سےبیعت نہ توڑدیں ؟فرمایا نہ جب تک تم میں نمازقائم رکھیں۔ نہ جب تک تم میں نمازقائم رکھیں۔ خبردار جوشخص تم پر والی (امیر) بنایاجائے اور اس کونافرمانی کرنا دیکھے تواس کےنافرمانی کرنےکوبراجانےاوراس کی اطاعت سےہاتھ نہ کھینچے۔
ام سلمہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم پر امیر ہوں گے جن کی کئی باتیں اچھی ہوں گی۔ کئی بری۔جوشخص ان کی برائی کودل سے برا سمجھے وہ بَری اورجو کراہت کرے وہ سلامتی والا ہے جوراضی ہوجائے اوربرائی میں ان کی موافقت کرے (وہ ہلاک ہوگیا)صحابہ نےکہا ایسے امیروں سے ہم لڑائی نہ کریں ؟ فرمایا نہ جب تک نماز پڑھیں ۔نہ جب تک نماز پڑھیں ۔ ان تین حدیثوں سے پہلی میں فرمایا ہے۔ امیر خوا ہ نیک ہوں یا برے۔ ہر حال میں ان کی تابعدار ی کرو۔ ہاں اگر صریح کفر دیکھوجس پرتمہارے پاس قطعی دلیل ہو توپھران سےبیعت توڑدو اور ان کا مقابلہ کرو۔ اوردوسری حدیثوں میں فرمایا ایسے امیروں کی تابعداری ہرحال میں ضروری ہے مگرنماز نہ پڑھیں توان سے الگ ہوجاؤ۔ اوران سے لڑو۔
نتیجہ صاف ہے کہ نماز صریح کفر ہے جس پرخدا کی طرف سے دلیل قطعی آچکی ہے۔ جس میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں ،ان کےعلاوہ اس قسم کی احادیث بہت ہیں جن سے ایک دو اوپر کے مضمون میں بھی ذکر ہیں ۔اور بعض مولوی عبدالقادر گنگوہی حصاری کے مضمون میں ذکرہیں جوپرچہ تنظیم کی جلد اوّل کے 17 ،19 نمبر میں درج ہوچکا ہے اوربعض ہمارے مندرجہ جلد نمبر2 ،5 میں مذکور ہیں ۔اور بعض کا محل متفرقات ہیں یہ سب بےنماز کےکفر پر صراحۃً دلالت کرتے ہیں اور اوپر کےمضمون میں جو اس کے نظائر پیش کئے ہیں وہ درحقیت نظائر نہیں کیونکہ ان کی تاویل پرصریح دلائل موجود ہیں۔ پہلی اورتیسری حدیث اپنے بزرگ اور اپنے آقا سےتعلق توڑنے کےبارے میں ہیں۔ پس وہ ایسی ہوئیں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی بابت فرمایا ۔میں نے ان کو جہنم میں سب سے زیادہ دیکھا۔پوچھا گیا کیوں ؟ فرمایا کفر کی وجہ سےکہا گیا۔ اللہ کےساتھ کفر کرتی ہیں ؟فرمایا خاوندوں کا کفر کرتی ہیں ۔اوراحسان کا کفر کرتی ہیں ۔اگر ان سے کسی کے ساتھ عمر بھر نیک سلوک کرتے رہو۔ اور ایک مرتبہ تجھ سےکوئی معمولی تکلیف دیکھ لے تو کہتی ہے۔ میں نے تجھ سے کبھی خیر نہیں دیکھی (مشکوۃ باب الصلوۃ خسوف فصل الاول) اورحدیث
کی مثل قراردینا ڈبل غلطی ہےکیونکہ ثانی الذکر میں لباس کا فرق بتلایا ہے نہ ایمان اورکفر کا ۔اور اول الذکر میں ایمان اور کفر کا فرق بتلانامقصود ہے۔ اس لئے اس میں رجل کےمقابلہ میں کفر کا ذکر کیاہے۔یعنی ترک نماز سےانسان کفر تک پہنچ جاتا ہےاورآیہ کریمہ ﴿وماکان الله ليضيع ايمٰنکم﴾ میں نماز کوایمان کہنا بھی اس کا مؤیدہے۔ مثلافاتحہ کونمازاسی لئے کہا ہے کہ فاتحہ کےنہ ہونے سے نماز فوت ہوجاتی ہے جیسے رکوع سجدے کے فوت ہونے سےنماز فوت ہو جاتی ہے پس یہی حال نمازکا ہے۔اس کےنہ ہونے سے ایمان فوت ہوکرکفر آجاتا ہے۔اوراس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض اجزا ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے نہ ہونےسے کل ہی نہیں رہتا جیسے ستون گرجائے توچھت ہی نہیں رہتی ۔اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔الصلوة عماد الدين ۔یعنی نماز دین کا ستون ہے۔
رہی دوسری حدیث جس میں فرمایا ۔قتاله کفر یعنی مسلمان سے لڑائی کفر ہے۔تواس میں کفر سےمراد جاہلیت کی رسم ہے کیونکہ جاہلیت میں آپس میں قتل وقتال بہت تھا ۔دلیل اس پر قرآن کی آیت ہے جوسورہ حجرات کے پہلے رکوع میں ہے۔
اگردوگروہ مومنوں کےآپس میں لڑیں توان میں صلح کروادو ۔کیونکہ مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔
اس آیت میں آپس میں لڑنے والوں کومومن فرمایا ہےاس سے معلو م ہوا کہ آپس میں لڑنےسے انسان اسلام سےخارج نہیں ہوتا۔اس لئے امام بخاری ؒنےصحیح بخاری میں اس آیت سے خارجیوں کی تردید کی ہےجو کبیرہ گناہ کرنے والے پرکفر کا فتوی دیتے ہیں ملاحظہ ہو بخاری باب المعاصی من (امرالجاہلیۃ ص9 مع فتح الباری)
اس کی تائیدبخاری کی حدیث سے بھی ہوتی ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن کی بابت فرمایا ۔
میرا بیٹا سردار ہے۔امید ہےخدا تعالی اس کے ذریعے سے مسلمانوں کی دوبڑی جماعتوں میں صلح کرادے ۔
اس حدیث کی پیشگوئی 41 ھ میں پوری ہوئی ۔ان جماعتوں سےمراد حضرت حسن اورمعاویہ کی جماعت ہے۔اس کا واقعہ یہ ہےکہ حضرت علی جب شہید ہوگئے تواہل کوفہ نے حضرت حسن کےہاتھ پر معاویہ سے لڑائی کے ارادے پر بیعت کی۔چالیس ہزار کی فوج نے حضرت علی کے ہاتھ پرموت کی شرط کرتے ہوئے بیعت کی تھی وہ سب حضرت حسن کےساتھ شامل ہوگئے ۔لیکن حضرت حسنکی طبیعت صلح پسندتھی ۔فتنہ سے طبعا متنفر تھے۔آخردنیا اور حکومت کوخیرباد کہہ کر عزلت نشین ہوگئے۔اور معاویہ سے صلح کرلی ۔آپ کی جماعت میں بعض تیزطبعیت بھی تھے۔ انہوں نے جوش بھرے لہجہ میں کہاسوّدتَّ وجوه امومنين ۔تونے مومنوں کے چہرے سیاہ کردیئے ۔یعنی معاویہ سے صلح کرکے ہمیں ذلیل اوررسوا کردیااور ہماری آبروخاک میں ملادی ۔تیری صلح سے ہم اپنے ارادوں سےناکام ہوگئے ۔ حضرت حسن نے اس کا جوا ب ایسا پُردرداور مخلصانہ اورنصیحت آموزدیا جس سے سخت دل موم ہوکرآنکھوں میں آنسوآگئے فرمایا اخترت العار علی النار میں نےعار کوآگ پرپسند کیا ۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
جب دو مسلمان تلواریں لے کرآپس میں ملتے ہیں تو قاتل مقتول دونوں جہنمی ہیں ۔
اس قسم کی احادیث سے میرے دل میں خوف پیدا ہوکرمیری وجہ سے مسلمان آپس میں لڑیں توایسا نہ ہوکہ ان کے خون میری گردن میں ہوں اور میں جہنم کا ایندھن ہوں ۔اس آگ کےبرداشت کرنے کی مجھ میں طاقت نہیں جس کی بابت سرور کائنات فرماتے ہیں ۔ اس کی گرمی دنیا کی آگ سےستر گناہ زیادہ ہے اس لئے میں نے دنیا کی عار کواس آگ پرترجیح دی ہے۔نیز صلح کےوقت بالبدیہ حمدوثنا کے بعد ۔فرمایا۔امابعد
اے لوگو!خدا نےہمارے اول (محمد صلی اللہ علیہ وسلم )کےساتھ تمہیں گمراہی سےنکالا اور ہمارے آخرکےساتھ(جس کامیں بھی ایک فرد ہوں) تمہارے خونوں کوروکا اورحکومت چند روزہ ہے۔اوریہ دنیا ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں چلی جانےوالی ہے اور خدا نےاپنے نبی کوفرمایا ہے شاید کہ یہ دنیا کی ڈھیل اور مہلت تمہارے لئے ایک آزمائش ہےاورتھوڑے عرصہ کا متاع اورفائدہ ہو۔
دعا ہے کہ خدا ہمیں بھی اپنا اتنا خوف عطا فرمائے جو ہمارے اورخدا کی نافرمانی کےدرمیان حائل ہوجائے اورہمارے اختلافات ونزاعات کی وسیع خلیج کوپاٹکرمحبت اور مودّت کا راستہ صاف کردے تاکہ جماعت منظم ہوکر يدالله علی الجماعة کی مصداق ہوجائے اور اپنی شان کے شایاں کوئی کام کرسکے جس میں اس کی بہبودی اورفلاح دارین ہو۔آمین ۔
وباللہ التوفیق