سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(398) مذاکرہ علمیہ بابت حدیث "الربوا"

  • 7013
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1021

سوال

(398) مذاکرہ علمیہ بابت حدیث "الربوا"

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مذاکرہ علمیہ بابت حدیث "الربوا"


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذاکرہ علمیہ بابت حدیث

لعن رسول لله صلي الله عليه و سلم اكل الربوا وموكله

اس مذاكره میں جو استفسار کیا گیا ہے۔ اس کا خلاصہ بعنوان سوال یہ ہے۔

سوال۔

مشکواۃ شریف میں ہے۔

عن جابر قال لعن رسول الله صلي الله عليه وسلم اكل الربوا وموكله وكاتبه وشاهد يه وقال هم سواء (رواہ مسلم)

یعنی حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان کھانے والے بیاج کھلانے والے اور بیان کے لکھنے والے اور بیاج کے دونوں گواہوں پر لعنت کی ہے۔ اور فرمایا کہ یہ سب برابر ہیں۔ روایت کیا اس کو مسلم نے اس حدیث کی شرح یوں کی جاتی ہے کہ بیاج کھانے والا وہ شخص ہے جو بیاج لیتا ہے۔ اور کھلانے والا وہ ہے۔ جو بیاج دیتا ہے اس کی فرع یہ ہے کہ بیاج دینا بھی گناہ ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس حدیث کی یہ تشریح نہیں ہوسکتی۔ کہ بیاج کھلانے والا وہ ہے جو وہی بیاج کسی دوسرے کو کھلائے اس تشریح سے کون قرنیہ مانع ہے۔ اگر یہ تشریح صحیح ہے۔ تو اس حدیث سے بیاج دینے کی حرمت اور اس کا گناہ ہونا ثابت نہیں ہوگا۔ بینوا توجروا

الجواب۔

اس حدیث کی یہ تشریح کہ ''بیا ج کھانے والا وہ شخص ہے جو بیاج لیتا ہے۔ اور کھلانے والا وہ ہے جو بیاج دیتا ہے صحیح اور حق ہے اور اس حدیث کی تشریح کہ بیاج کھانے والا وہ ہ جو خود کھائے اور بیاج کھلانے والا وہ ہے جو وہی بیاج کسی دوسرے کو کھلائے باطل اور غلط ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے۔ کہ قرآن وحدیث میں آکل ربا کا لفظ جہاں جہاں وارد ہوا ہے۔ ہر جگہ اس سے مراد ہے۔ عام ازیں کہ بیاج لینے والا اس بیاج کو خود کھائے یا کسی دوسرے کو کھلائے اور آکلین ربا کےلئے جو جو وعیدیں آئی ہیں۔ وہ مطلق بیاج لینے والوں کےلئے ہیں۔ جو بیاج خود لے کر کھایئں اور اپنے مصرف میں لایئں۔ اور ان بیاج لینے والوں کے لئے بھی ہیں جو بیاج لے کرخود نہ کھایئں بلکہ دوسروں کو کھلایئں۔ الغرض عرف شریعت میں آکل ربا کے معنی بیاج لینے والے کے آتے ہیں عام ازیں کہ وہ بیاج لے کر خود کھایئں یا دوسروں کو کھلایئں مثلا فرمایا اللہ تعالیٰ نے ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً

یعنی اے ایمان والو۔ مت کھائو بیاج دونے پردونا ۔

2۔ اور فرمایا۔ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ﴿٢٧٥سورة البقرة...

یعنی جو لوگ بیاج کھاتے ہیں۔ وہ نہ اٹھیں گےقبروں سے مگر جیسا کہ اٹھتا ہے وہ شخص جس کو باولا کرتا ہے شیطان آسیب سے۔

3۔ فرمایا رسول اللہ ﷺنے

درهم ربوا ياكلها الرجل وهو يعلم اشد من ستة وثلاثين زنية كذافي المشكواه

 بیاج کا ایک درہم جس کو کوئی شخص جان کر کھائے چھتیس زنا سے زیادہ سخت ہے۔

4۔ اور فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ میں شب معرا ج کو ایک اسی قوم پر گزرا کہ ان کے پیٹ گھروں کے مثل تھے جن کے اندر سانپ تھے اور پیٹ کے باہر سے نظر آتے تھے میں نے جبر یل سے کہا کہ یہ کو ن لوگ ہیں ، جبریل نے کہا کہ یہ لوگ بیاج کھانے والے ہیں۔

 ظاہر ہے کہ ان نصوص ان کے امثال میں آ کل ربوا یعنی بیاج کھا نے والے سے مراد بیا ج لینا ہےعام ازیں کہ اپنے کھا تے کے لئے لیتا ہو یاکسی کو کھلا نے کے لئے اور آکلین ربوا یعنی بیاج کھانے والے سے مراد بیاج لینے والے ہیں عام ازیں کہ بیاج لے کر خود کھائیں یا دوسرے کو کھلا ئیں۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری میں لکھتے ہیں۔

انما خص الاكل بالذكر لان الذين نزلت فيهم الايات المذكورة كانت طعمتهم من الربوا والا فالوعيد حاصل لكل من عمل به سواء اكل منه ام الاانتهي

 جب تم یہ معلو م کر چکے تو سنو حد یث مذ کو ر میں بھی اکلہ یعنی بیاج کھانے والے سے مرا    دبیا ج لینے والا ہے عام ازیں کہ بیاج لے کر خود کھائے یا کسی دوسرے کو کھلائے اور جب آ کلہ سے مراد بیاج لینے والا ہوا تو موکلہ سے بیاج کھلانے والے سے وہ شخص ہر گز مراد نہیں ہو سکتا جو بیاج کر خو دنہ کھائے کیو نکہ اس معنی پر لفظ آکلہ خود مشتمل ہے پھر موکلہ سے یہ بھی کیونکہ مراد ہو سکتا ہے بلکہ لامحالہ موکلہ سے بیاج دینے والا مراد ہو گا موکل متعدی ہے آکل کا پس جب آکل کا معنی بیاج لینے والا ہو تو موکل کے معنی بیاج دینے والا ہوگا۔

 دوسری دلیل

بیاج لینا بزاتہ گناہ کاکام ہے اور بیاج د ینا اور بیا ج کی گتا بت اور گواہی کر نی بھی گناہ کاکام ہےمگر بزاتہ نہیں اس وجہ سے کہ اعا نت علی الا ثم ہے اور ظاہر ہے کہ بیا ج دینا اول نمبر کی اعا نت ہے اور اس کی کتا بت و شہا دت نمبر دو میں ہے پس اس حد یث میں اگر موکلہ سے مراد بیاج دینے والا نہ ہو تو بلکہ وہ شخص مراد ہو جو بیا ج لے کر کسی دوسرے کو کھلائے تو لازم آتا ہے کہ اول نمبر کا معین علی الر بو املعون نہ ہو۔ وھو کماتری

 تیسر ی    دلیل۔

دارقطنی ص 299 میں ہے۔

عن ابي سعيد الخدري قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم الاخذ والمعطي من الربوا سواء

 یعنی ’’ابو سعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بیاج لینے والا اور بیاج دینے والا یہ دونوں برابر ہیں‘‘ مشکو ۃ شریف میں ہے۔

 عن ابي سعيد قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم الذهب بالذهب والفضة بالفضة والبر بالبر والشعير بالشعير والتمر بالتمر والمللح مثلا بمثل يدابيد فمن زادا والستزاد فقد اربي الاخذ والمعطي فيه سواء  (رواه مسلم)

 یعنی حضرت ابو سعید خدریرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے بیچو سونے کو سونے سے اور چاندی کو چاندی سے اور گہیوں کو گہیوں سے اور جو کو جوسے اور کھجور کو کھجور سے اور نمک کو نمک سے  برابر بر ابر دست بدست پس جس نے زیادہ دیا یا زیا د ہ طلب کیا تو اس نے بیاج کا معا ملہ کیا بیاج لینے والا اور بیاج دینے والا دو نوں برابر ہیں روایت کیا اس مسلم نے ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ روایتیں بتاتی ہیں کہ حد یث لعن رسول الله صلي الله عليه وسلم اكله الربوا وموكله

 میں بیا ج کھانے والے سے مراد بیاج لینے والا ہے اور بیاج کھلانے والے سے مراد بیاج دینے والا ہے ۔ والروايات يفسر بعضها بعضا

الحاصل

حدیث مذکور کی یہ تشریح کہ بیاج کھانے والا وہ شخص ہے جو بیاج لیتا ہے اور کھلانے والا وہ شخص ہے جو بیاج دیتا ہے صحیح اور حق ہے اور اس کی دوسری تشریح غلط اور باطل اور بال شبہ آخذ اور معطی دونوں گناہ گار ہیں اور جیسے بیاج لینا حرام ہے دینا بھی حرام ہے، 

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 387

محدث فتویٰ

تبصرے