سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(397) مذاکرہ علمیہ - بابت وی پی

  • 7012
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1138

سوال

(397) مذاکرہ علمیہ - بابت وی پی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مذاکرہ علمیہ - بابت وی پی 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذاکرہ علمیہ - بابت وی پی 

مسائل شرعیہ مروجہ بہت کم مہیں ضروریات زمانہ زیادہ ہیں ایسی ضرورتوں کیلئے شرعی قواعد مقررہیں۔ ان سے ایسے مسائل مستبط ہو سکتے ہیں۔ آجکل انگریزی تعلیم کے اثر سے متاثر لوگوں کا سوال ہمیشہ سے علماء پر چلا آیاہے۔ کہ یہ لوگ تو پرانے مسائل میں بال کی کھال اُتارا کرتے ہیں۔ مگر نئے مسائل پر رائے زنی نہیں کر سکتے۔ بلکہ ان کا حکم بھی نہیں بتا سکتے ۔ مثلاً منی آرڈر کا حکم کیا ہے۔ وی پی کا حکم کیا ہے۔ ؟ بظاہر تو بوجہ عام عمل ہونے کے اس قابل بھی نہیں کہ انکی بابت کچھ سوال کیاجائے یا سوچا جائے لیکن ہجمیں جو ضرورت محسوس ہوئی ہے اس کے ہاظ یہ سوچنے سے تعلق رکھتا ہے۔ وی پی کا طریق یہ ہے کہ خریدار فلاں چیز یافلاں کتاب مجھ کو بزریعہ وی پی بھیج دے۔ او ر وہ چیز بائع کی طرف سے چلی جانے کے بعد گم ہوجائے۔ یا مشتری تک پہنچے ۔ اس کی قیمت اصل مالک تک نہ پہنچے۔ تو یہ نقصان کس کا ہوگا۔ یعنی دونوں صورتوں میں بائع اصل قیمت مشتری سے لے سکتا ہے یا نہیں؟

تشریح

یوں ہے کہ ڈاک خانہ ایک چیز کو چیز کی صورت میں لیتا ہے۔ اس کی اجرت کا سارا بوجھ مشتری پر پڑتا ہے۔ مشتری کے لکھنے پر ڈاک خانہ میں دی جاتی ہے۔ اس لئے مبنی جواب مذاکرہ یہ ہے کہ ڈاک خانہ وکیل کسی کا ہے اور وکیل کیسا ہے۔ وکیل بالبیع ہے یا وکیل بالقبض اس پر یہ جواب مرتب ہوگا۔ کہ ڈاک خانہ کی غفلت کا خمیازہ کس پر پڑنا چاہیے۔ اہل علم ناظرین سے اُمیدہے۔ جواب با صواب مدلل سے اطلاع فرمائیں گے۔

 (١١ فروری سنہ ١٩٢١ئ)

عرصہ ہوا کہ یہ مذاکرہ جاری کیا گیا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ آجکل جو اشیاء ویلوکرنے کا طریق ہے۔ اس میں حسب قانون ڈاک خانہ کی اُجرت مشتری کے زمہ پر پڑتی ہے۔ اور مشتری کہتا بھی ہے۔ کہ بزریعہ ویلو بھیج دو۔ اب شرعی صورت میں سوال یہ ہے کہ ڈاک خانہ وکیل کس کی جانب سے ہے۔ بائع کی طرف سے یامشتری کی جانب سے اس کا اثر اس صورت میں ظاہر ہوگا۔ جب اس ویلو کی قیمت بائع کو وصول نہ ہو۔ کیونکہ اگر ڈاک خانہ بائع کا وکیل بالقبض تو مشتری کا زمہ پاک اور اگر مشتری کا وکیل اور اس نے بائع کی قیمت نہیں پہنچائی تو بائع اس قیمت کازمہدار نہیں۔

مذاکرہ علماء کرام نے توجہ نہیں فرمائی صرف مولوی عبد الکریم ساکن جنڈیا لہ امرتسر نے ایک مختصر سا مضمون بھیجا ہے جو درج زیل ہے۔

مذاکرہ علمیہ بابت وی پی کے جواب میں بندہ اپنی ناقص عقل کی بساط کے مطابق عرض کرتا ہے۔ کہ اس بات کے تو آپ بھی قائل کہ ضروریات زمانہ بنسبت مسائل شرعیہ مروجہ گویا زیادہ ہیں۔ مگر انکے مشروع ہونے یا غیر مشروع ہونے کیلئے قواعد شرعیہ مقرر ہیں۔ جن سے ایسے مسائل مستبط ہو سکتے ہیں۔ مگر استنباط کرے توکون کرے قصور ہے تو کس کا۔ قرآن کریم تو ایسی کتاب ہے جس کی بابت ارشاد خداوندی ہے۔ ناطق۔  

فَبِأَىِّ حَدِيثٍۭ بَعْدَهُۥ يُؤْمِنُونَ

’’پس کون سی حدیث کے ساتھ بعد اس کے ایمان لاویں گے‘‘ اور حدیث نبوی بھی کہہ رہی ہے۔

لا يشبه منه العلما اي لا يصلون الي الا حاطة بكتبها حتي يقفوا وقوف من يشبع ولا تنقضي عجا ئبه

نہیں پیٹ بھرتے اس سے عالم نہیں پہنچتی احاطہ کرنے تک کہ ٹہرتے ہیں ٹھرنا اس شخص کا سا جو پیٹ بھر لے خدا سے نہیں ختم ہوتے عجائبات اس کے۔

نیز ابن عباس سے مروی ہے۔

قال جمع الله في هذا الكتاب علوم الاولين والاخرين وعلم ما كان وعلم ما يكون والعم باخالق جل جلاله وامره وخلقه

اکٹھا کیا اللہ نے اس کتاب میں علوم پہلے اور پچھلے لوگوں کے اور علم اس کاجو تھا اور علم اس کا جو ہوگا۔ اور علم خلائق کابلند جلالیت اس کی اور اس کااورصف خلقیہ اس کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کلام الہٰی قرآن کریم ہی ایک ایسی جامع کتاب ہیھ کہ ہر زمانہکے ضروریات کے ساتھ استباط مسائل کرے۔ تو کون یہی علماء جن کو ورثة الانبیاء کہا گیا خواہ کسی کے زمانے کے ہوں۔

مشکلے نیست کہ آسان نہ شود                  مرد باید کہ ہراسان نہ شود

مگر آجکل کے علماء جو محنت شاقہ کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ وہ توخاموشی کو اخیتار کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل کے انگریزی تعلم سے متاثر لوگ علماء پر معترض ہوتے ہیں۔ ہائے افسوس ہماری غفلت اورسستی مولناٰ جب آپ نے اب وی پی کے مسئلہ کی نسبت ہر طرحسے کھول کرتشریح کردی ہے۔ تو اب نتیجہ نکالنا بھی کوئی امر ہے۔ کون زی عقل ہے جونہیں سمجھ سکتا کہ جب بائع نے اپنی کوئی چیز کتاب وی پی ہو یا منی آرڈر ہو ڈاک خانہ میں دے کران سے رسید بھی فیس دے کر وصول کرلی ہے۔ جس سے وہ چیز وی پی ڈاک خانہ کے زمہ آجاتی ہے۔ اگر اس حالت میں وہ پی یا منی آرڈر کا نقصان ہوگا۔ تو ڈاک خانہ ہی زمہ دار ہے۔ اسی طرح اگر مشتری نے وی پی یا منی آرڈر ڈاک خانہ سے وصول کر کے رسید لکھ دی پھر اگر یہ روپیہ جو مشتری سے ڈاک خانہ کے قبضے میں آگیا۔ جو وکیل بالبیع یا بالقبض تھا۔ ضائع نہ ہوگا تو وہی ڈاک خانہ ہی ضامن ہے۔ اور نہیں نہ بائع ہوگا۔ نہ مشتری ۔ ھذا ما ظھرلی والله اعلم با لصواب

 (اہل حدیث امرتسری تاریخ بوجہ سکتگی نا معلوم سنہ ١٩٢١ئ)

عرصہ ہوا یہ مذاکرہ علمیہ جاری ہوا اہل علم سے جیسی توقع تھی اس پر انھوں نے توجہ نہیں دی۔ مندرجہ زیل مضمون قابل غور ہے۔

 ایڈیٹر

وی پی ہو یا منی آرڈر دونوں صورتوں میں ڈاک خانہ اجیر کی صورت میں وکیل بالقبض ہوتا ہے وی پی کی صورت میں صرف بائع کااو ر منی آرڈر کی صورت میں مرسل زر کا ڈاک خانہ کی رسید اس کا ثبوت ہے۔ جس کے پاس وہ ہوگی۔ ڈاک خانہ بس اسی کا بصورت اجیر وکیل بالقبض ہوگا وی پی ہو یا اس کی قیمت راستہ میں گم ہونے کی صورت میں مشتری اس کے نقصان کا زمہ دار نہ ہوگا۔ اسرایئلی مقروض کا ارسال کردہ زر گویا وی پی

۔ فا خذ خشبة فنقر فادخل فيها الف دينار وصحيفة لي صاحبه

اگر یہ حسن عقیدت اور خدائیتایئد سے پہنچ گیا تھا لیکن خدا نکخواستہ اگر راستہ میں تلف ہوجاتا توسمقروض ادائیگی قرض سے ہر گز سبکدوش نہ ہو سکتا مرسلہ کے تلفہونے کے خیالسے مقروض کا خود اس کی خدمت میں سرلے کر حاضڑ ہوگا۔ اور قرض دہندہ کا مطالبہ کرتا اور کنندہ کادینے سے انکارنہ کرنا بلکہ دینے کیلئے آمادہ ہونا اس بات کی دلیل ہے۔ کہ مشتری وصولی سے پیشتر وی پی اور وصولی کے بعد اس کی قیمت کا زمہ دار نہیں

ثم قدم الذي كان اسلفه فاتي بالف دينار  (بخاری

يافلان مالي قد طالت النفقة فقال اما مالك فقد دفعت اني وكيلي واما انت فهذا مالك۔  (فتح) ملکہ سبانے سلمان علیہ السلام کو ہدیہ بھیجا وصولی سے پیشتر راستہ میں آکر تلف ہوجاتا تو سلمان علیہ السلام ہر گز زمہ دار نہ ہوتے جس طرح ہدیہ نہ قبول کرنے پر اعلان جنگ کیا گیا۔ ہدیہ تلف ہونے پر بھی ایسا ہی ہوتا اور بلقیس کی مراد ہرگز پوری نہ ہوتی اگر یہ بات درست ہے کہ مرسل الیہ یعنی خریدار کی وصولی شرط نہیں اور یہ کہ موکل وی پی کر دینے سے سبکدوش ہوجاتا ہے۔ تو سلمان علیہ السلام کا ہدیہ نہ قبول کرنا بے معنی ہوگا۔ اور یہ جو کہا گیا ہے کہ مشتری کے لکھنے پر بائع وی پی کرنے کی جرات کرتا ہے۔ ٹھیک ہے مگر وی پی کا نقصان اس پر نہیں پڑ سکتا۔ کیونکہ آجکل کے ڈاک خانہ کے جدید قانون کی وجہ سے تاجران کتب و ایڈیٹر ان اخبارات کا اعلان ہے۔ کہ پیشگی منی آرڈر کر دیا جائے۔ تو کیا منی آرڈر تلف ہونے پر وہ زمہ دار ہوں گے۔ ہر گز نہیں اسی طرح مشتری بھی نقصان کا زمہ دار نہ ہوگا۔ رہا یہ سوال کہ جب مشتری کسی صورت میں زمہ دار نہیں تو پھر کون بائع یا وکیل تو جواباً عرض ہے۔ کہ ڈاک خانہ کی بے احتیاطی اور غفلت وغیرہ کی وجہ سے اگر نقصان ہو تو نقصان ڈاک خانہ پر پڑے گا۔ لقوله صلي الله عليه وسلم علي اليد ما اخذت حتي يودي  (دارمی)

لقوله صلي الله عليه وسلم الزعيم غارم  (ترمذی ۔ دارقطنی)

اگر ڈاک خانہ کی غفلت نہیں تو وی پی یا اس کی قیمت تلف ہونے کا نقصان بائع پر پڑے گا۔ اور ڈاک خانہ بری رہے گا۔

لقوله صلي الله عليه وسلم ليس علي المستعير غير المغل ضمان ولا علي المستودع غير المغل ضمان اخرجه الدارالقطني والبهيقي وضعفاه وصوبا وقفه علي شريح

نیز نقصان غیر اختیاری صورت میں محکمہ ریلوے و ڈاک زمہ دار نہ ہوگا۔ کیونکہ یوشع بن نون پمچھلی گم ہونے کا نقصان نہیں پڑا۔

قال حماد اذا تكفل بنفس ذات فلا شئ عليه  (بخاری)  

یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ڈاک خانہ جیسا کہ اوپر زکر کیا گیا ہے۔ وکیل بالقبض ہے وکیل بالبیع نہیں ہوسکتا کیونکہ وکیل بالبیع گو مبیع کے تصرف میں اختیار ہوتا ہے۔ اور وہ مبیع کے منافع میں حقدار نہ ہونے کے باعث نقصان کا زمہ دار بھی نہیں ہوتا۔ رسول اللہ ۖ نے عروہ بن سعد کو اُضیحہ کی خریداری میں وکیل بنا کر بھیجا اس کے تصرف سے جو نفع ہواتو عروہ اس کا مالک نہ ہوسکا تو نقصان کی صورت میں اس کا خمیازہ اس پر کیونکر پر سکتا ہے۔ اور حکیم ابن حزام کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا (بخاری۔ ابودائود۔ ترمذی ابن ماجہ دارقطنی) پس وکیل بالبیع اور وکیل بالقبض میں بہت فرق ہے۔ ڈاک خانہ کو وکیل بالقبض سمجھنا چاہیے۔

الحاصل وی پی یا اس کی قیمت گم ہونے سے نقصان مشتری پر نہیں پڑے گا۔ ڈاک خانہ کی ڈاک خانہ کی غفلت سے ہو تو ڈاک خانہ پر ورنہ بائع پر۔ اورمنی آرڈر کی صورت میں ڈاک خانہ پر یا مرسل زرپر کہ جس کے پاس رسید ہوتی ہے۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ حدیث لا ضمان علي موتمن دارقطني

اٍصل بحث اور مذاکرہ سے غیر متعلق ہونے کی وجہ سے اس مقام پر قابل زکر نہیں۔

 (ابو عمران عنایت اللہ۔ وزیر آبادی از سہسوانی مدرسہ اہل حدیث ١٢ زیقعد سنہ ١٩٣٩ئ)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 383

محدث فتویٰ

تبصرے