سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(395) بیمہ کمپنی سے زندگی کا بیمہ کرانا جائز ہے؟

  • 7010
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1717

سوال

(395) بیمہ کمپنی سے زندگی کا بیمہ کرانا جائز ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بیمہ کمپنی سے زندگی کا بیمہ کرانا جائز ہے یاناجائز ؟ جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک معیا د مقررہ تک ماہواری ایک رقم مقررہ کمپنی کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ اگر میعاد مقررہ کے انددر بیمہ کرانے والا فوت ہوجائے گا۔ تو رقم مقررہ پوری جس رقم کا بیمہ کرایا ہے۔ وارثان کو مل جائے گی۔ اوراگر میعاد مقررہ تک زندہ رہا تو بعد گزرنے میعاد کے جمع شدہ رقم جو اس عرصہ میں ادا کی ہے۔ مع نفع کے مل جائےگی۔ کیا شرع شریف میں ایسا بیمہ کراناجائز ہے۔  (محمد امین کلکتہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال میں مع نفع کا لفظ تشریح طلب ہے۔ جہاں تک ہمیں ان کمپنیوں کے قواعد کاعلم ہے۔ نفع کا زکر نہیں ہوتا۔ بلکہ ایک مقررہ رقم ہوتی ہے۔ مثلا ہزار یا لاکھ روپے کا بیمہ ہوتا ہے۔ بیمہ کی رقم ماہوار یا ہر سہہ ماہ بعدادا کیجاتی ہے۔ اس ادایئگی کی میعاد مقرر ہوتی ہے۔ دیتا دیتا مرجائے۔ تو مقررہ رقم اس کے وارثوں کو مل جاتی ہے۔ میعاد تک زندہ رہے تو خود لے سکتا ہے۔ اس کی بنا دراصل ہمدردی پرہوتی ہے۔ یعنی اگر بیمہ کرانے والا مرجائے۔ تو اس کے وارثوں کو ایک معقول رقم مل سکتی ہے میں اس لئے اس کو جائز جانتا ہوں۔ انما الاعمال بالنیات  (اہلحدیث 13 جمادی الثانی 46ہجری)

فی الواقع اگر بیمہ کمپنیوں کے قواعد وضوابط میں خط کشیدہ دفعہ ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ اس صورت میں مفتی مجیب کے نزدیک بھی یہ چیز جائز نہیں۔ جیسا کہ آپ کے مرقومہ جواب سے مترشح ہوتا ہے ۔  (مولف)

شرفیہ

بیمہ زندگی یہ ہے کہ ایک شخص مثلا ایک شخص بیمہ کمپنی سے پانچ یا دس ہزار روپیہ کا بیمہ کرتا ہے۔ کہ میں پانچ یا دس سال یاکم کم وبیش مدت میں یہ رقم مذکور قسطوں سے ادا کرتا رہوں گا۔ مثلا بیس پچیس روپیہ ماہوار یہ سہہ ماہی وغیرہ پھر بعد میعاد مذکور وادائے رقم مذکورہ مجھ کو وہ میرا ر وپیہ یا رقم مذکور سب کی سب معہ سود م مثلا بجائے پانچ ہزار کے معہ سود چھ یا سات ہزار دے گی۔ اور اگر میں مدت معین مذکورہ میں قبل ادا کرنے ر قم مذکور کے مرگیا۔ تو میرے وارث کمپنی سے پورے پانچ ہزار روپے وصول کرلیں گے۔ اور کمپنی کودینی واجب ہوگی۔ اگرچہ میں نے بجائے پانچ ہزار کے ایک ہی قسط بیس یا پچیس روپے ادا کی ہو۔ اور کمپنی اس رقم سے جو بیمہ والوں سے لیتی ہے۔ تجارت کرتی ہے۔ پھر تجارت سے جتنا نفع ہوتا ہے۔ حساب کرکے بیمہ والوں کو اس کا سود دیتی ہے۔ اور کمپنی کا کاروبار سود کا ہوتا ہے۔ اب واضح ہوکہ اس بیمہ کی حرمت کے دلائل یہ ہیں۔

اول یہ کہ سود کا معاملہ ہے۔ لہذا قطعاً حرام ہے۔ اس لئے کہ اس میں خطرہ ہے کیا معلوم کہ بیمہ والا مدت مذکورہ میں زندہ رہے گا یا نہ رقم ادا کرے گا یا نہ اگر مر گیا تو جوا ہوا اگرزندہ رہا اور رقم ادا کی توسود کھائے گا۔ اللہ نے فرمایا۔

وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ ﴿٢٧٥سورة البقرة...  يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا ۔  ﴿٢١٩سورة البقرة

  يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔  ﴿٩٠

 وان النبي صلي الله عليه وسلم نهي عن الخمر والميسر والكوبة والغميرا ء وقال كل مسكر حرام  (مشکواۃ ج2 ص 318)

دوم یہ کہ تعاون علی الاثم ہے۔ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ﴿٢سورة المائدة....

لعل فيه كفاية لمن له دراية (ابو سعید شرف الدین دہلوی)

تشریح

از قلم حضرت العلام مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مبارکفوری

سوال۔ انشورنس کرانا ہے؟  ۔ جب کہ اختتام میعاد پر مقرر رقم سے کچھ زائد ملتا ہے ، وہ عام سو د کے طور پر مقرر نہیں جوڑا جاتا بلکہ بیمہ کی رقم تجارت میں لگا کر سالا نہ نفع اور نقصان کا لحا ظ کر کے فی صدی پر رکھا جا تا ہے کسی سال کچھ رقم منا فع میں آتی ہے دوسرے سال کچھ اور علمائے اسلام اس بارے میں مختلف آرائے ہیں ۔ حضرت مولانا امرتسری نے نجی استغتار پرجوا زکا فتوی دیا تھا لیکن کوئی دلیل نہیں فرمائی تھی یہاں اسکول کے اکثر اسٹاف انشورنس شدہ ہیں ۔ میں تزبذب میں ہوں۔ ؟

 (محمود الحسن رحمانی ۔ سارن)

 جواب ۔ میرے نزدیک ان لوگوں کاقول صحیح ہےجو زندگی کا بمیہ کرانے کو نا جا ئز کہتے ہیں اور لوگ غلطی پر ہیں جنہوں نے اس کے جوا ز کا فتو ی دیا ہے ۔

انسا ن یا جا نور کی زند گی یا جا ئیداد کے بمیہ کرنے کی حقیقت پر غو ر کیا جائے ۔ تو سوال کا جواب  اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو تا انشو رنس کرانے کو جا ئز بتا نا سود کو یا قمار کو حلال کر نا ہے بیمہ کمپنیو ں کا اصول ہے کہ زند گی کا بمیہ کرانے والا یا بیمہ کرایا ہوا جانور بیمہ کی معینہ مدت سے قبل مرجائے یا بیمہ کرائی ہوئی جا ئید اد کسی نا گہانی آفت سے مقررہ مدت کے اندر ضا ئع ہوجائے تو بیمہ کی پوری مقررہ رقم اس کے ورثا ء کو یا جائیداد اور جانور کے مالک کو مل جاتی ہے اور اگر بیمہ کرانے والا یا جا نو ر اور جا ئیداد مقررہ مدت تک زند ہ اور محفوظ رہے تو کل جمع کردہ رقم مع سود کے بیمہ کرانے والے کو جانور اور جا ئیداد کے مالک کو ملتی ہے اور کچھ رقم جمع کرنے کے بعد بیمہ کرانے والا مسلسل دو سا ل تک مقررہ قسطیں ادا کرنے سے قصدا انکار کردے یا مجبورا ادا نہ کر سکے تو یہ بیمہ کمپنی ادا شدہ قسطوں کو ضبط کرلیتی ہے ۔

 سوال ۔ یہ ہے کہ مقررہ مدت کے اندر مر جانے یا بیمہ کر دہ چیز کے تلف ہو جانے کی صورت میں اور اسی طرح مقررہ مدت تک زندہ اور محفوظ رہنے کی صورت میں بمیہ کمپنیا ں بیمہ کرانے والوں کو یا ان کے ورثہ کو ان کی جمع کر دہ رقم سے فا ئدہ جو کچھ دیتی ہیں اسکی حیثیت اور نوعیت کیا ہے اور وہ کہا ں سے آ تا ہے ؟

طا ہر ہے کہ صد قہ و خیرات یا تحفہ و ہد یہ تو ہے نہیں اور نہ ہی قر ض ہے پھر دو ہی صورتیں ہوسکتیں ہیں۔ ایک یہ کہ بیمہ کمپنی جمع شدہ روپیہ دوسروں کوسود پردیتی ہو اوراس میں سے ایک معین حصہ بیمہ کرانے والوں کو بانٹ دیتی ہو۔ جیسا کہ عام بینکوں کا طریقہ ہے یا یہ کہ بیمہ کمپنی خود ہی اس روپے سے تجارت کرے۔ اور ا س کے منافع سے معین اور طے شدہ منافع ادا کرے۔ اور اسی کا نام سود ہے۔

اور یہ خیال وتوجیہ کہ بیمہ کرانے والے اس تجارت میں شریک یا رب المال اور مضارب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور بیمہ کمپنی عامل ومضارب  (بفتح الراء)  کی حیثیت رکھتی ہے۔ پس زائد رقم اس حیثیت سے بیمہ کرانے والوں کےلئے حلال وطیب ہوگی۔ غلط اور باطل ہے۔ اس لئے اگر یہ صورت حال ہو تو ان شرکاء یا ارباب اموال کو ایک طے شدہ معینہ رقم نہیں ملنی چاہیے۔ بلکہ کمی اور بیشی کے ساتھ نفع اور نقصان دونوں میں شریک رہناچاہیے۔  اور یہاں ایک طے شدہ معین ہی نفع ملتا ہے۔ اور سوال میں زکر کردہ صورت یا توجیہ بھی صحیح نہیں۔ اس لئے کہ بیمہ کمپنیاں عام طور پر اصل رقم سے جو کچھ زائد دیتی ہیں۔ اسکی شرح اور مقدار پہلے ہی سے معین کردیتی ہے۔ اور اگر کوئی کمپنی اس ک واصولا معین نہ کرتی ہو۔ بلکہ زائد رقم کو سالانہ نفع اور نقصان کا لہاظ کرکے فی صد پر رکھتی ہو۔ تب بھی یہ طریقہ وجہ جواز نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کہ اس کاروبار میں نقصان کاسوال ہی نہیں آنے دیا جاتا۔ ونیز بیمہ کمپنیوں کے متفقہ اصولوں میں سے بعض ایسے اصول بھی ہیں۔ جن کی وجہ سے یہ سارا کاروبار اور ڈھانچہ ہی شرعا ً ناجائز ہے۔ کماسیاتی۔

دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے۔ کے پہلے بیمہ کرانے والوں کو بعد کے بیمہ کرانے والوں کا روپیہ دیا جاتا ہو۔ لیکن اس طرح ایک کی رقم دوسرے کو دے دینے کا حق تو شرعاکسی بھی نہیں ہے۔ ایسی صورت میں جواز کافتویٰ دینا۔ سود یا قمار کافتویٰ نہیں تو اور کیا ہے۔

اور کچھ رقم جمع کرنے کے بعد بقیہ اقساط کے قصداً یامجبورا ادا نہ کرنے کی صورت میں اداشدہ قسطوں کاضبط کرلینا کسی شرعی ضابطہ کی رو سے ؟ یہ اکل مال بالباطل نہیں۔ تو اور کیا ہے۔ ونیز بیمہ کرانے والوں کے لئے ایسے کاروبار کرنے والوں کو روپیہ دینا جو بغیر کسی شرعی سبب کے انکی رقم ایک غلط اصول کی رو سے ضبط کرلیں۔ کہاںسے شرعا جائز ہے۔ ؟

بہرحال انشورنس کا کاروبار شرعا ناجائز ہے۔ یہ یورپ کے نظام سرمایہ داری کا ایک طبعی تقاضا ہے۔ اور اس کی تصور بھی اسلامیت سے سخت بعید ہے۔ پس زندگی وغیرہ کا بیمہ کرانا کیونکہ ناجائز نہ ہوگا۔ وللہ اعلم۔  (رسالہ ۔ مصباح صفحہ 9 شوال المکرام 72ہجری)

تعاقب

 اہلحدیث 22 مارچ سنہ رواں میں بیمہ زندگی کے متعلق آپ نے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ سائل کا سوال نہایت واضح ہے۔ کمپنیاں کبھی زائد لیتی ہیں اور کم دیتی ہیں۔ اور کبھی کم لیتی اور زائد دیتی ہیں۔ 1۔ اگر لکیر زدہ عبارت پر غور فرمایا جاتا تو ااس کے جواز کا فتویٰ نہ دیاجاتا۔ اس لئے سائل کے یہ الفاظ حرمت کوثابت کر رہے ہیں۔ اس طرح کہ زائد لیں اور کم دیں۔ یا کم لیں اور زائد دیں یہ کمی بیشی کیوں؟ اور کس لئے؟ بس یہی کمی بیشی سود یا قمار کی ایک قسم ہے۔ اور اکثر بیمہ کمپنیاں دھوکا اور فریب پر مبنی ہوتی ہیں۔ پھر اس کی جملہ رقم سود پرچلائی جاتی ہے۔ اور اس کمپنی کا کام سود درسود حاصل کرنا اور دینا ہوتا ہے۔ کمپنی کم لے کر جب زائد دیتی ہے۔ تو یہ عین سود ہے۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۔ او ر کمپنی نے لیا تو زائد اور دیا کم تو یہ کیوں؟  تو بیعنہ یہ قمار یعنی جوا کی قسم ہے۔ بہرکیف بیمہ زندگی کا ہر پہلو سیاہ اور شریعت کے خلاف ہے۔ قمار سٹہ لاٹری۔ اور سود کے مجموعے کا نام بیمہ کمپنی ہے۔ لہذا قطعا حرام ہے۔ صرف نام بدلا ہوا ہے۔ اور نام بدلنے سے اصل نہیں بدلتا۔ واللہ اعلم بالصواب

 ( خاکسار ابوسعید عبد الرحمٰن فرید کوٹی از سکندر آباد 4مئی 1934ء)

فتویٰ ۔ از مولانا طیب عبد الصمد صاحب ۔ مباکفوری

میرے نذدیک بینکوں کا منافع کسی مسلم شخص کے لئے دو شرطوں کے ساتھ جائز اور حلال ہوسکتا ہے۔ مگر ان شرطوں کا وجود قطعا م حال وناممکن ہے ۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ روپیہ ایسی تجارت وکاروبار میں لگایاجائے۔ جو کہ شرعا جائز اور درست ہو۔ ممنوع وناجائز کام کے زریعہ وہ منافع حاصل نہ ہوا ہو۔ مثلا سود کے زریعہ یا شراب اور دیگر حرام شے کی تجارت کے زریعے حاصل نہ ہوا ہو۔ دوسری یہ شرط ہے کہ کمپنی اپنا تمام خرچ نکال کرجس قدر بچے حساب داروں کو حصہ رسدی کے مطابق پورا پورا دےدے۔ نہ کہ اکثر حصہ خود ہی رکھ لے۔ اور حساب داروں اور شرکاء کوبرائے نام تھوڑی سی رقم دے کر ٹال دے۔ الغرض جب تک ان دونوں شرطوں کا پایا جانا محقق اور ثابت نہ ہو۔ اور اس نفع کا کسب حلال وطیب ہونا یقینی طور پر نہ معلوم ہو۔ شرعا ا س کے حلال وجائز ہونے کا حکم ہرگز نہیں دیا جاسکتا۔  (اہلحدیث ا مرتسر 31 دسمبر 1937ء)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 371

محدث فتویٰ

تبصرے