السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ملک بنگال میں لوگ اپنی زمین ٹھکیے پر دیتے ہیں ۔ اسطور سے کہ سالا نہ ایک بیگھ زمین پر مثلا تین یا چار من دھان لیا ہے چاہے زمین کی فصل ڈوب جائے یا جل جائے ۔ انہیں سروکار نہیں فصل ہو یا نہ ہو زمین کا مالک مقررہ دہان اس سے لے لے گا اور خراج مالک کا ذمہ ہو گا ازروے شریعت اس طرح کا ٹھیکہ زمین کا دینا جا ئز ہے یا نہیں ؟ (محمد اکرم علی)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت مرقو مہ جائز نہیں یوں ہونا چاہیے کہ پیداوار میں نصف یا ربیع یاخمس یا مقرر ہو لو ں گا نہ ہو تو نہیں لوں گا کیسے رسول اللہ ﷺ نے یہودان خیبر کو ہے پر زمین دی تھی ٹھیکہ کا عوض نقد روپیہ ہو تو ہر طرح جائز ہے ۔ واللہ اعلم ۔
(30رجب 42عیسوی)
زمین اس شرط پر دینا کہ دس من غلہ اس میں سے ہم کو دے دینا باقی تمھارا جا ئز نہیں ہے ۔ کیو نکہ یہ شرط فاسد ہے ۔ اسواسطے ممکن ہے ۔ کہ صر ف دس من غلہ پیدا ہو توصورت میں بے چارہ مزارع بالکل محروم رہ جائے گا سراسر خسارہ میں پڑ جا ئے گا ۔ ہا ں اس شرط پر زمین دیناجائز ہے ۔ کہ جس قدر غلہ پیدا ہو اس میں سے مثلا ایک ثلث ہمارا باقی تمہارا ۔ یا نصف ہمارا یا نصف تمہارا یا دو ثلث ہمارا باقی تہارا یعنی جزمشاع کی شرط کرنا کہ جس سے کسی صورت میں قطع شر کت نہ ہو ۔ بلکہ جس قدر غلہ پیدا ہو تھو ڑا یا زیادہ اس میں دونو ں اپنے اپنے حصے مقر ر ہ کے شریک رہیں ۔ جا ئز درست ہے ۔
موطاء امام محمد رحمۃ اللہ علیہ صفحہ 354 میں ہے۔
اخبرنا مالك اخبرنا ربعيه بن ابي عبدا لرحمٰن ان حنظلة الانصاري اخبره انه سال رافع بن خديج عن كراء المزارع فقال قد نهي عنه قال حنظلة فقلت لرافع بالذهب والورق قال رافع لا باس بكرائها بالذهب والورق قال محمد وبهذا انا خد لاباس بكرايها بالذهب والورق بالحنطة كيلا معلموما وضريا معلوما مالم يشرط ذلك مما يخرج منها فان اشتر طعمها يخرج منها كيلا معلوما فلا خير فيه وهو قول ابي حنيفه والعامة من فقهائنا الي اخره
(حررہ عبد الحق اعظم گڈھی عفی عنہ 4 رجب 17 ہجری۔ سید محمد نزیر حسین ۔ (فتاویٰ نزیریہ ج2 ص 76)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب