سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(387) دارالحرب میں سود لینا درست ہے؟

  • 7002
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1763

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان شر ع متین در باب سود کی کہ زماننا اکثر اہل اسلام بدلیل اس کے کہ یہ ملک دارالحرب ہے ۔ اور دارالحرب میں سود لینا درست ہے ۔ آپس میں ہندئووں اور مسلمانوں سے سود لیتے ہیں اور دیتے ہیں ۔ آیا اس حیلہ سے سود لینا مسلمانوں کو اس ملک میں درست ہے یا نہیں ؟  بینوا تو جروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

درصورت مرقو مہ جا ننا چا ہئے ۔ کہ سود کا لینا دینا خواہ دارالاسلام میں ہو خواہ دارا لحرب میں حرام ہے ۔ اور ممنو ع ہے ۔ نزدیک امام ما لکرحمۃ اللہ علیہ  اورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور  امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  اور امام ابو یو سفرحمۃ اللہ علیہ  اور جمہور علما رحہمہ اللہ کے کیو نکہ قرآن وحدیث اور اجما ع صحا بہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  سے حر مت ربو اکی ثا بت ہے ۔ قطعا مگر ابو حنیفہرحمۃ اللہ علیہ امام محمدرحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں ۔ کہ دارالحرب میں کا فر حر بی سے سود لینا درست ہے ، جیسا کہ ہدایہ وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ولیکن ملک ہندو ستا ن رنگون سے لے کر پشا ور تک ہرگز دارالحرب نہیں ۔ مطابق مذہب  امام صاحب کے اس لئے کہ موا فق تحقیق اور تنقیع علماء متاخرین حنفیہ کے دارالحرب کی تعریف نزدیک امام صا حب رحمۃ اللہ علیہ کے یہ ہے ۔ کہ جب کہ کل شائر اسلام کے مو قوف ہو جا ویں تو اس صورت میں داراسلام دارالحر ب ہو جاتا ہے ۔ اور جب تک ایک سبب بھی شعائر اسلام کا موجود ہوگا تو دارالحرب متحقق نہ ہوگا۔ جیسا کہ فصول عمادی وطحاوی وغیرہ میں مذکور ہے۔ اورجب کہ ہندوستان دارلحرب نہ ٹھرا۔ تو نزدیک امام صاحبرحمۃ اللہ علیہ کے بھی حرام وممنوع ہوگا۔

وله ان هذا لبلدة صارت دارا لا سلام باجرا ء احكام الاسلام فيها فما بقي شئ من احكام دارالسلام فيها يبقي دارا لا سلام علي ماعرف ان الحكم اذاثبت بعلته فما بقي شي من العملة يبقي الحكم ببقائه هذا زكر شيخ الاسلام ابو بكر في شرح سير الاصل وزكر في موضع اخر منها ان دالرالسلام لا تصير دارالحرب اذا بقي شئ من احكام الاسلام وان ال غلبته وزكر صدرلاسلام اب اليسر في سيرالاصل ايضا ان دارالسلام لا تصيردارالحرب مالم يبطل جميع مابه صارت دارالسلام كزا زكره في باب احكام المرتدين وزكر شيخ الاسلام الا سبيحاني في مبسوطه ان دارالسلام محكومة يكونها دارالسلام فيبقي هذا لحكم ببقاء حكم واحد فيها ولاتصير دارالحرب الا بعد زوال القرائن كلها ودارلحرب تصير دارلاسلام بزوال بعض القرائن وهو ان يجري فيها احكام السلام وزكر الامشي في واقعاته هكذا اوزكر السيد الامام ناصر الدين في المنشور ان دارلاسلام باجراء احكام السلام فمابقي علقه من علائق السلام بزحج جانب الاسلام كذافي الفصول المعادية وهكذا في الطحاوي ولد والمختار وغيرهما من كتب الفقه

قالامولاناعبد العزيز دهلوي بعد نقل هذه الروايات المذكورة في جواب السائل المستفتي فعلم من هذه لروايات  الفقيهة ان هذ البلاد لا تصير دارلاحرب علي مذهب الامام اعظم ابي حنيفة بل تكون دارلسلام كما كان ولا يجوز المسلم اخذ الربوا من نصرا في وغيره لان حرمته قطعية ثاتة بالاية بقوله تعاليٰ احل الله البيع وحرم الربوا وبقوله عليه الصلاة وسلام لعن رسول الله صلي الله عليه وسلم اكله الربوا وموكله كما هو مذكور في كتب الاحاديث عن لصحاح السنة وعلي مذهب صاهبيه تصير دارلحراب اذا اجرو فيها احكامهم ففي اخذ الربوا من الحربي اختلاف فعنده الامام شافعي ومالك و احمد وابي يوسف لا يجوز في دارالحرب ايضا وعند الامام الاعظم ابي حنيفه رحمة الله عليه ومحمد يجوزفي دارلحرب كما قال في الهدايه ولا ربوا بين المسلم ولحربي في دارالحرب خلافا لابي يوسف والشافعي انتهيم ما نقل مولانا مرحوم مختصرا

اور مولانا محمد اسحاق صاحب مرحوم و مغفور نے بھی ہیچ جواب مسفتی کے ارشاد فرمایا کہ سو د لینا دارلحرب میں حربی سے بھی درست نہیں۔ چنانچہ عبارت فتوے جناب مولانا مبرور کی یعینہ نقل کی جاتی ہے۔ 'درحلت وحرمت مبلغ سود دارلاحرب از حریباں کلامی است وآں این است کہ حرمت ربوا نبص قطعی ثابت است کما قال اللہ تعالیٰ۔ وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ۔ وحلت ربوا از کافر حربی ورد الحرب ظنی است پس کردن بردلیلاقوی اوکداست خصوصا وقتے کہ وردالحرب بودن ایں دیارعلماء اختلافباشد اجتناب ور رگرلتن سوز ا ز حربی اوکدا الزم خواہد بود ونیز قاعدہ فقہ است اذا اجمتاع الحلال والحرام غلب الحرام وایں وقت کہ باشدکہ دو ہر دلیل دریک مرتبہ باشدہ چوں یک دلیل کمتر باشد ازدلیل دیگر پس عمل براقوی موکتر مشود بنا بریں ہم ربواا ز حربی نباید گرفت وآئندہ از معاملہ سودگرفتن از حربی چہ جائے۔ مسلم اجتناب باید نمود تمام شد عبارت فتویٰ جناب مولانا مرحوموم واجب ہے۔

مسلمان دیندار سعادت شعار پر کہ کہنے سے کسی نیم ملاں کے سود کے لینے دینے سے اگرچہ دارالحرب میں ہو۔ پرہیز واجتناب ضرور کریں۔ اور مضامین ان آیتوں سے خوف وخطر میں رہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ سود خواروں کے حق میں فرماتا ہے۔

لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ۔ يَمْحَقُ اللَّـهُ الرِّبَا ۔ فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِ۔  يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ۔ وَمَنْ عَادَ فَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُو وما علينا الاالبلاغ ۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 362

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ