سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(377) کتاب البیوع

  • 6992
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2124

سوال

(377) کتاب البیوع

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کتاب البیوع


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 کتاب البیوع

افتتاحیہ

از افادات یگانہ زمان حضرت نواب صدیق حسن خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ

حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ افضل کسب بیع مبرور اور اپنے ہاتھ سے کام کرنا ہے ۔ اللہ دوست رکھتا ہے حرفہ کرنے والے کو۔ سچے تاجر امانت دار کا حشر ہمرا ہ نبیوں اور صدیقوں کے ہوگا۔ حدیث میں بہت سی چیزوں کی بیع سے منع کیاہے۔ بہت سی بیع کو ناجائز فرمایا ہے۔ ان ممنوع صورتوں کا رواج آجکل بہت ہے۔ یہ بھی ایک فتنہ ہے اسلام میں جب لین دین موافق شرع کے نہ ہو۔ جو رزق اس کے ہاتھ آئےگا۔ وہ حرام نہ حلال پھر جب حرام ہے پرورش بدن کی ہوئی۔ تو پھر یہ بدن لائق دوزخ کے ہوا۔ نہ لائق جنت کے۔ اس فتنے میں پڑھے اور ان پڑھے سب گرفتار ہیں۔ کسی طرح کی پرواہ حلت رزق میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی عبادات میں اثرقبولیت نہیں۔ ان کے کاموں میں کوئی برکت نہیں۔ اسلام کا نور چہرے پر نہیں۔ نماز۔ روزہ۔ حج ۔ زکواۃ۔ صدقہ۔ خیرات سب کچھ کرتے ہیں۔ لیکن مال حرام پر بنیاد ہے۔ حرام مال کو صدقہ میں دینا ۔ اجر کی امید رکھنا قریب کفر ہے۔ اس وقت میں کوئی مال اشتباہ سے خالی نہیں۔ مقلدوں نے لیناسود کا دارالحرب میں جائز کردیا ہے۔ قرآن وحدیث میں کسی جگہ سود کو حلال نہیں کہا۔ بلکہ سود خواری کو خداسے لڑائی کرنا فرمایا ہے۔ سینکڑوں رقم خلاف شرع کی آمدنی ہوتی ہے۔ وہ سب مال بلاشک حرام ہے۔

یہ ایسا فتنہ عام ہے جس سے بچنا مشکل ہے۔ دھواں تو اس کا ضرور ہی ہر شخص کو لگ جاتا ہے۔ اب تو عبادات اور معاملات سب کے سب خراب ہیں۔ نام کی مسلمانی رہ گئی ہے۔ سارا اسلام آپس کے رود قدح میں منحصر سمجھا گیا ہے۔ قیامت جلدی نہ آوے تو پھر کیا ہو۔ آخر شرارامت ہی پر قائم ہوگی۔ حلال کا طلب کرنا مسلمان کے لئے واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ سوائے حلال کے کسی حرام کو قبول نہیں کرتا۔ جھوٹ فریب رغبت چالاکی سے جو رزق حاصل ہوتا ہے۔ وہ آخر کو دوزخ کا کندہ بنانا ۔ حدیث میں آیا ہے کہ آدمی لمبا سفر کرتا ہے۔ پریشان بال پریشان حال ہوتا ہے۔ آسمان کی طرف ہاتھ پھیلاکر رب رب کرتا ہے۔ اس کا کھانا حرام۔ پینا حرام ۔ پہننا حرام۔ غذا حرام پھر کس طرح اس کی دعا قبول ہو۔ اس کو مسلم وترمذی نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے ایک زمانہ ایسا آوے گا۔ کہ آدمی پروا ہ نہ کرے گا کہ حلال مال ہے یا حرام یہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعا آیا ہے۔ حرام خوری ۔ زناکاری۔ سبب ہے دخِول نار کا۔ اس حدیث کو ترمذی نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرکے صحیح کہا ہے۔

رزق حلال کی تاکید میں رزق حرام سے بچنے میں بہت سی احادیث آئی ہیں۔ مگر کون سنتا ہے سمجھتا ہے۔ اب تو جو کچھ ہے مال ہی مال ہے۔ ایمان رہے یا جائے۔ مال داروں کی قدر ہے ان پر حسد ہے۔ ایک شعبہ بیع میں کمی کرنا ہے۔ ماپ تول میں غلہ وغیرہ کے اس کابھی خوب رواج ہے۔ دوسرا شعبہ غش  (کھوٹ )  ہے۔ یہ ہر چیزمیں ملتا ہے مصنوعی اور یہ مصنوعی روغن وزعفران وغیرہ اشیاء کا لین دین بدستور جاری ہے۔ حالانکہ حدیث میں آیا ہے کہ لیس منا من غشانا  (دھوکے باز ہماری امت سے خارج ہیں)  جعلی روپے اشرفی نوٹ بھی بننے لگے۔ موتی جواہر ڈھلکنے لگے۔ نقود تاعروض کوئی ایسی چیز معلوم نہیں ہوتی۔ جس میں جعل کا دخل نہ ہو۔ کو ئی معا ملہ بیع کا نظر نہیں آتا جس میں کو ئی منکر شر عی مو جو د نہ ہو کوئی عبادت ایسی نہیں ۔ جس میں فساد مذ ہبی قائم نہ ہو دعوے اسلام کا تو ہم سب کو خو ب دھو م دھام سے ہے ۔ لیکن سوا ئے چھلکے کے مغز کا کہیں اتا پتا نہیں مفاسد بیو ع ومنکرات داددستداس قدر ہیں ۔ کہ ایک کتاب علیحدہ چاہئے  واسطے بیا ن جز ئیا ت مذ کو ر کے جس کو علم قرآن و حد یث ہے۔  وہ جلد در میا ن حلا ل وحر ام کے تمیز کر سکتا ہے ۔  (ماخوذ)

 سوال زید نےیہ سبب اشد ضرورت کے اپنی کا شت کھیت ایکھ یعنی گنا پر سا ل آ یندہ کے وا سطے روپیہ قرض لیا اور قرض لینے کے وقت یہ کہا ۔  کہ اس وقت میرا کھیت گنا تین ماہ کا بویا ہوا ہے ۔ سال آ یند ہ کو گنا تیار ہو نے پر بہ نرخ چھ آنہ یا آ ٹھ آنہ فی من نجوشی دوں گا ۔ اس طور کی خریدو فروحت شرعا صیح ہے ۔ یا نہیں ؟

 جواب ۔ صورت مرقومہ میں اس کو بیع سلم کہتے ہیں ۔ جو جا ئز ہے نر خ اور جگہ مقر ر ہو نی چا ہئے اللہ اعلم ۔

 شر فیہ

 سوال کی عبا دت سے اسکا بیع سلم ہو نا میری سمجھ میں نہیں آ یا ۔ اس لئے کہ بیع سلم میں را س المال یعنی رقم قرض کی تعین لازم ہوتی ہے۔ ایسے ہی مسلم فیہ اور اجل کی بھی اور صورت مرقومہ میں کچھ بھی نہیں اور شے معین میں بھی سلم نہیں ہوتی۔ اور اجل معلوم سے مراد سال ۔ ماہ۔ دن کی تعین ہوتی ہے۔ اور صورت مرقومہ میں تاریخ۔ دن کی تعین نہیں۔

قال رسول لله صلي الله عليه وسلم من اسلف في شي فليسلف في كيل معلوم دوزن معلوم الي اجل معلوم متفق عليه  (مشكواة ص٣٥- ج١) وقال في نيل الاوطار قوله في كيل معلوم احترز بالكيل عن السلم في الاعيان وبقوله معلوم عن المجهول من المكيل ولموزون وقد كانوا في المدينه حين قدم النبي صلي الله عليه وسلم يسلمون في ثمار نخيل باعيانها فنهاهم ين زلك الخ  (ص١٩٢ج٥)

 اور صورت مرقومہ فی السوال میں تعین کھیت کی ہے۔

تشریح

بیع سلم نام ہے۔ اس بیع کا کہ بالفعل روپیہ دے دیاجائے۔ اور جنس ٹھرالی جائے۔ کہ اتنی مدت تک لوں گا۔ مثلا سو روپیہ ایک شخص کو بالفعل دے دیا۔ اور اس سے ٹھرایا کہ دو مہینہ میں گہیوں سو من اس قسم کے لوں گا۔ اس کوعربی میں بیع سلم کہتے ہیں۔ پھر اگرشرطیں پائی جایئں تو یہ بیع درست ہے۔ جوکوئی بیع سلم کرے۔ اس چیز میں کہ بیچی جاتی ہے۔ تل کر جیسے زعفران وغیرہ۔ تو سلم کرے وزن معلوم میں مثلا چار تولے یا پانچ تولے۔ اور مدت معلوم تک جیسے ایک مہینہ یا ایک برس اور مثل اس کے اس سے معلوم ہواکہ اس میں مدت کا معلوم ہوناشرط ہے۔ اور یہی مذہب ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ مالک رحمۃ اللہ علیہ واحمد رحمۃ اللہ علیہ کا  (حاشیہ ترمذی نولکشور مترجم ص 409 ج1)

شرائط بیع سلم

ملخص از بدورا اھلہ از نواب صدیق حسن خان صاحب رحمۃ للہ علیہ

اول انکہ قدر مسلم فیہ وجنس آن مذکور گردو زیرا کہ جزبایں زکر معلوم نمی تواند شدوشارع معلومیت را شرط کردہ کما تقدم۔

دوم معرفت امکانش نزد حلول چہ اگر در سلم زکر وسفے کند کہ دال برعدم امکان باشد برغرض مقصود از سلم عاید بہ نقص گرددددال است برانعدام آن در حال عقد حدیث

عبد الرحمٰن بن ابزيٰ وعبد الله بن ابي اوفيٰ قال كنا نصيب المغانم مع رسول لله صلي الله عليه وسلم وكان ياتينا انباط من انباط الشام فنسفهم ف المحنطة والشعير والذيت الي اجل مسمي قيل اكان لهم زرع ام لم يكن قال ما كنا نسالهم عن زالك وفي رواية وكنا نسلف علي عهدرسول الله صلي الله عليه وسلم و ابي بكر وعمر فالحنطة والشعير والزبيب وما نراه عندهم اخرجه ابو دائود والنسائي و ابن ماجه وسكوت نبوي تقرير ست

ثوم انکہ ثمن مقبوض باشد در مجلس ولا بداست ازیں شرط بلکہ مسلم تمام نمی شود مگر بایں قبض ورنہ از بیع کالی(1)۔ بکالی باشدوازاں نی آمدہ وصحیح است بہرمال زیراکہ اولہ دلالت نداردن مگر بہ اشترا طیست معلوم ثمن از برائے مسلم ومسلم الیہ دایں ہمہ در ہمہ اموال ممکن است دورانکشاف روئے ہماں حکم است کہ گزشت درخیار عیب ودرصرف چہ دلیل دالاست برردکردن بر صاحب دے بنا پر عیب۔

چہارم آنکہ احبش معلوم باشد وایں منصوص علیہ نص ومدلول علیہ دلیل مقدم است ص 362 )

خلاصہ یہ کہ جس چیز کی بدہنی کی جارہی ہے۔ اس کا وزن اور جنس معلوم ہونی چاہیے۔ وقت مقررہ پر اس کی وصول یابی کا یقین ہونابھی ضروری ہے۔ قیمت مقررہ طے شدہ کو وقت بیع ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر قیمت مقررہ ادا نہ کی گئی تو ادھار کی بیع ادھار کے ساتھ لازم آئے گی۔ اور یہ منع ہے اور ہرقسم کے مال میں بدھنی درست ہے۔ مگر گھٹیا بڑھیا کی تشریح ہونی چاہیے۔ ورنہ مال والا مختار ہے۔ کہ مال ردی دیکھ کر اس کو رد کردے۔ اور وقت بھی مقرر ہوکر معلوم ہوجانا شرائط میں سے ہے۔ مصنف عون المعبود قدس سرہ فرماتے ہیں۔

قد الختلف العلماء في جواز السلم فيما ليس بموجود في وقت السلم اذا امكن وجوده في وقت حلول الاجل فذهب الي جوازه الهور قالوا ولا يضر انقطاعه قبل الحلول الي اخره عون المعبود ج٣ ص ٢٩٣  (مولف)

بیع سلم یعنی بدھنی کرنا کاشت کار وغیرہ سے ساتھ نرخ معلوم کے گندم ہویا جوہو بصفت معلومہ اور ساتھ اجل معلوم کے درست ہے بلاکراہیت جیسے کے کتب احادیث اور فقہ سے واضح ہوتا ہے۔ اور یہ شرط کرکے بدھنی کرنا کہ بروقت فصل کے بازار کے نرخ سے سیر دوسیر مثلا زیادہ لیں گے۔ جائز نہیں ہے شرعاً حررہ سید محمد نزیر حسین عفی عنہ۔  (فتاویٰ نزیریہ جلد 2 ص11)

سوال۔  اس صورت میں کہ ان شہروں میں بیع سلم رس میں اکثر لوگ مبتلاہیں۔ اور رس العند القعد کسی جگہ موجود نہیں ہوتا۔ اور حضرت امام الہمام حضرت ابو حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بیع سلم میں موجود ہونا مسلم فیہ کاوقت عقد سے وقت استحقاق تک شرط ہے۔ سورت مزکور وقت استحقاق کے بکثرت موجود ہوتا ہے۔ اس صورت میں حنفی المذہب کو برائے رفع حرج اور ضرورت صحت بیع سلم کے قول اما م شافعی رحمۃ اللہ علیہ پر عمل کرنا ازروئے اصول حنفیہ کے جائز ہے یا نہیں الخ

الجواب۔  (ملخص)  معاملہ بیع سلم رس میں اوپرمذہب امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے بلا تردد کریں کیونکہ التزام ایک مذہب معین کا فرض واجب نہیں۔ چنانچہ مسلم الثبوت وتحریر ابن الہمام وشرح بجر العلوم عبد العلی ومولانا نظام الدین وامیر الحاج وعقد الفرید وشرنبلالی وطحاوی ورد المختار وغیرہ میں مذکور ہے۔ کما لایخفی علی العالم الماھر بالاصول والفروع واللہ اعلم۔  (سید محمد نزیر حسین  (فتاویٰ نزیریہ جلد 2 ص11)

---------------------------------------

1۔ ادھار کی بیع ادھا ر کے ساتھ اس طور پر زید نے بکر کو کچھ مال ادھار فروخت کیا۔ اور وقت مقررہ پرجب وہ قیمت ادا نہ کرسکا۔ تو زید نے پھر دوبارہ ایک مدت کےلئے ا س کو بکرکے ہاتھ بیچ دیا۔ والصلہ النہی غربیع مالم یقبض  (لمعات)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 353

محدث فتویٰ

تبصرے