سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(370) نکاح شغار کی تحقیق یعنی نکاح مبادلہ

  • 6985
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1687

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نکاح شغار کی تحقیق یعنی نکاح مبادلہ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نکاح شغار کی تحقیق یعنی نکاح مبادلہ

عرب کے دور جاہلیت میں عام طور پر نکاحوں میں معاوضہ نکاح بصورت مہر مقر ر ہوتا ہے۔ جس کی ایک صورت یہ تھی۔ کہ ایک شخص اپنی لڑکی یا قریبہ کسی دوسرے کے لڑکے یا قریبی سے نکاح کردیتا۔ اس شرط پر کہ تو اپنی لڑکی یا قریبہ میرے ساتھ یا میرے لڑکے کے ساتھ نکاح کردے۔ مہر اس میں کچھ نہ ہوتا تھا۔ اس کا نام شغار (1) تھا۔ پس شغار کے معنی ادو میں نکاح مبادلہ ہیں اور پنجابی زبان میں ''وٹہ دا ساک'' حدیث شریف میں اس قسم کے نکاح کی بابت منع آیا ہے۔ اب علماء کے دو گروہ ہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے۔ شغا ر میں اگر فریقین کےطرف سے مہر کی نفی و تو نکاح جائز نہ ہوگا۔ اگر مہر مقرر ہوتو چاہیے کہ باصورت تبادلہ ہو نکاح جائز ہے۔ راقم مضمو ن مولوی عبد الجلیل صاحب کی تحقیق فریق ثانی سے متفق ہے۔ اس لئے فریق اول کے جواب میں آپ نے مضمون بھیجا ہے جودرج زیل ہے۔  (مدیر)

پرچہ تنظیم میں اپریل 35ء؁ میں بطور ضمیمہ مسئلہ شغار کی ایک بسیط تحریر طبع ہورہی ہے۔ مگر فی الحقیقت وہ تحقیق تحقیق نہیں ہے۔ محدثین کے مسلک سے کوسوں دور ہے۔ حضرت شیخ الہند شمس العملما مولانا سید محمد نزیر حسین قدس اللہ سرہ العزیز کا مہر گروہ ودیگر اہل حق کا فتویٰ دربارہ جواز مع المہر خروج آن از شغار منہی عنہ مطبوع ضمیمہ فتاویٰ نزیریہ موجود ہے۔ پھر مع المہر کو شغار منہی عنہ میں داخل کرنا متفقہ مسئلہ علمائے اہل حدیث کے خلاف کر کے جماعت اہلحد یث میں ایک جدا گا نہ شک پیدا کرنا مناسب معلوم ہواکہ امر کے متعلق ایک مضمو ن مختصر حوالہ قلم ہو جس سے حقیقت مسئلہ کی منکشف ہو ۔ پس واضح ہو۔ کہ حدیث لاشغا ر فی الاسلام سے نفی کررہی ہے ۔ یعنی اسلام میں شغار نہیں ۔ اس سے یہ بات معلوم ہو رہی ہے ۔ کہ اسلام کے سوا کسی اور میں شغار تھا جس کو شارع علیہ السلام اپنے  مذہب میں مغایر فرما تے ہیں ۔

کتب کے ملا حظ سے یہ معلوم ہوتا ہے ۔ کہ جاہلیت یعنی زمانہ رسا لت مآب ﷺکے قبل کے لو گوں کا ایک معمول بہ نکاح تھا۔ صراح ومنہتی الارب میں ہے ۔

شغار بالكسر نكاح جاهلية مختار الصحاح رازی وصحاح جوہری میں ہے۔ الشغار بالکسر نکاح کان فی الجاهلية مصباح المنير میں ہے۔ وكان شعائها تاج المصادر بہیقی میں ہے۔ المشاغرة من الشغار وهو نكاح كان في الجاهلية ۔ ابن العربی احکام القرآن میں لکھتے ہیں۔ فان الناس كانوا يتناكحون في الجاهليه بالشغار امام نووي شرح مسلم میں فرماتے ہیں۔ كان شغار من جاهلية ابن اثیر نہایہ میں ۔ اور علامہ محمد طاہر فتنی مجمع بحار الانوار میں تحریر فرماتے ہیں۔ هو نكاح معروف في الجاهلية ان آئمہ لغت کی تصریحات سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی۔ کہ یہ جاہلیت کے زمانہ والوں کا ایک قسم کا نکاح ہے۔ زمانہ جاہلیت والوں کا یہ نکاح کس طور کا تھا۔ اس میں رائے زنی کی تو کوئی ضرورت ہی نہیں۔ جب تک یہ ایک قوم کا مرسوم معاملہ ہے۔ تو بس ان میں ان کا طریق مرسوم معلوم ہوجانا بس کافی ہے جیسے کوئی امر توفیقی ہوا کرتا ہے۔ ان کے مرسومی معاملے میں فقہاء کو ان کی اصطلاح میں علماء کورائے زنی کا کیا حق ہے۔ نہایہ ابن الاثیر ومجمع بحار الانوار میں ہے۔

هو نكاح معروف في الجاهلية كان يقول الرجل للرجل شاغر ني اي زوجني اختلف او بنتك او من تليامرها حتي ازوجك اختي او بنتي او من الي امرها ولا يكون بينها مهر وتكون بضع كل واحده منها بضع الاخري

مقدمہ ابن رشد مالکی مختصر مدونہ ص 62 ج3 میں ہے۔

كان الرجل في الجاهلية يقول للرجل شاغر ني اي زوجني ابنتك علي ان ازوجك ابنتي بلامهر

علامہ بہیقی تاج المصادر اور جوہر صحاح میں اور رازی مختصر صحاح یعنی مختار میں اور فاضل جمالی صراح میں رقم طراز ہیں۔

ولفظ التاج المشاغرة من الشغار نكاح كان في الجاهلية وهو ان يقول الرجل للرجل اخر زوجني بنتك او اختك علي ان ازوجك اختي او بنتي علي ان صداق كل واحده منها بضع الاخري كانها ارفعا المهر واخليا البضع عنه ومنه الحديث لاشغاار في الاسلام

قاموس میں ہے۔

الشغار بالكسران تزوج الرجل امراة علي ان يزوجك اخري مهر مهر صداق كل واحدة بضع الاخري

اہل جاہلیت کادستور العمل یہ تھا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے کہتے۔ کہ تو مجھ سے اپنی دختر ہمشیرہ یا جوبھی تیرے زیر ولایت ہو نکاح کردے۔ میں تجھ سے اپنی دختر یا ہمشیرہ یا جو بھی میرے زیر ولایت ہے نکاح کردیتا ہوں۔ مہر بھی کچھ نہیں۔ فرج لو اور فرج دو۔ آدمی دو اور آدمی لو۔ یہ تھا وتیرہ اہل جاہلیت کا جیسے بیک زبان ائمہ لغت نے بیان کیا ہے۔ تاج العروس ص 307 میں ہے۔

قال الشافعي وابو عبيدة وغيرها من العلماء اشفار المنهي عنه ان يزوجه لرجل حريته علي ان يزوجه المزوج حريته ل اخري ويكون صداق كل واحدة بضع الاخري كانهها رفعا الهروا خليه البضع عنه

 ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لغت سے ہے۔ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کون ہیں۔ سب واقف ہیں۔ صاحب تاج العروس ان دونوں بزرگوں کے علاوہ بھی کل علماء سے بالاتفاق بیان کرتے ہیں۔ شغار ممنوع وہی ہے۔ جس میں آدمی اپنی محرمہ دے کر دوسرے کی محرمہ لے بلامہر فرج منکوحہ دے کر فرج منکوحہ لے مہر بھی یہی سب کچھ ہے۔  (ہدایۃ المجتہد ص35 میں ہے۔

فاما نكاح الشغار فاتهيم التفقوا علي ان صفته هو ان ينكح الرجل وليته رجلا اخر علي ان ينكح الاخر وليته ولا صداق بينها الا بضع هذه ببضع الاخر واتفقوا علي انه نكاح غيرجائز كثبوت النهي

شغارکی توصیف وتعریف میں سب علماء متفق ہیں۔ وہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ولیہ کا کسی دوسرے س اس بنا پرنکاح کردے کہ وہ اپنی ولیہ کا اس سے نکاح کردے۔ مہر ان میں کچھ نہیں یہی کہ منکوحہ لی۔ منکوحہ دی۔ نیز سب کا اتفاق ہے کہ یہ نکاح بایں صفت جائز نہیں۔ ممانعت ثابت ہونے کیوجہ سے کتاب الام ص 68 جلد 5 میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔

اذا انكح الرجل ابنته اولمراة يلي امرها من كانت علي ان ينكحه ابنته اوالمراه بلي امرها من كانت علي ان صداق كل واحدة منها بضع الاخري ولم يسم لواحدة منها صداق فهذا الشغار الذي نهي عنه رسول لله صلي الله عليه وسلم فلا يحل النكاح

جب آدمی اپنی دختر یا اپنی مولیہ جو بھی ہو ان کا نکاح کردے۔ اس بنا پر کہ دوسرا اپنی دختر یا اپنی مولیہ جو بھی ہونکاح کردے۔ مہر میں یہی ایک کی فرج لینا دوسری کادینا کسی ایک کا زکر بھی نہ ہو۔ پس یہی وہ شغار ہے۔ جس سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ ان عبارتوں سے شغار کی اصلیت اور اس کی کیفیت روز روشن کی طرح معلوم ہوگئی اور اھل جاہلیت میں جس طریق سے معمول تھا وہ بھی معلوم ہوگیا۔

بالاتفاق آئمہ لغت وآئمہ اعلام زمانہ جاہلیت والوں کی غرض اس نکاح میں فرج کا فرج کے عوض اپنے لئے حلال کرنے کرانے ہی کی ہوا کرتی تھی۔ لاغیر یہ مقصد نہیں کہ جو نکاح بلا زکر مہر کے ہوا ہو۔ وہ بھی شغار ہی ہے۔ چونکہ ان کی غرض اصلاً مہر عدم کے تقرر کی نہیں ہوتی۔ بلکہ کسی وجہ سے تقرر مہر نہ آیا۔ مگر انھیں مہر دینا پڑے گا۔ نکاح کے منعقد ہونے میں شبہ نہیں۔ بخلاف شغار کے کہ اس میں مہر کا تقرر ہی مقصود نہیں ہوتا۔ بلکہ فرج ہی فرج کے مقابلے میں دے دی اور لے لی۔ یہی ان کی غرض ہے۔ ان کی غایت یہی ان کا عندیہ ہے۔ اور بس چھٹی مل گئی۔ لہذا اس نکاح میں اور اس میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ نیز اگر کوئی اپنی مولیہ دے۔ اور کسی کی مولیہ لے۔ مگر باقاعدہ مہر وغیرہ کے ساتھ فرج کا فرج سے تبادلہ ہی مقصود نہ ہوا۔ اس نکاح کو شغار نہیں کہتے۔ لڑکی لینا لڑکی دینا مہر کے تقرر کے ساتھ شرعا ً شغار میں داخل نہیں۔ اہل جاہلیت و اہل اسلام ہر دو کی نیتوں میں ہی زمین آسمان کا فرق ہے۔ اہل جاہلیت کی غرض لڑکی وغیرہ لینا اوردینا بطور تبادلہ کے مہر سے کوئی سروکار نہیں بلکہ فرض حلال کردینا اور حلال کرالینا فرج دے دلاکر یعنی اپنی مولیہ دے کر اس کے عوض میں کسی کی مولیہ لینا ہے۔ اس میں ایک قسم کی خاص قباحت موجود ہے۔

جس شغار جہالت کی آئمہ نے بالاتفاق تعریف کی ہے۔ وہی احادیث مرفوعہ و آثار موقوفہ سے ثابت ہے۔ احادیث مرفوعہ اگرچہ ضعف سے خالی نہیں۔ لیکن تمام اہل علم کا اس پراتفاق ہے۔ لہذا قابل احتجاج ہونے میں شبہ نہیں۔ امام ترمذی نے اپنی جامع میں متفقہ محدثین شغار کی تعریف کی ہے ۔ فرماتے ہیں۔

 بعد نعديل حديث الشغار ان يزوج الرجل ابنته علي ان يزوجه الاخر ابنته واخته ولا صداق بنيها

 میں کہتا ہوں کہ اس تعریف کی مخالفت صریح کسی ایک آدھ محدث سےبھی ثابت نہیں۔ گویا یہ تعریف تمام محدثین وعلمائے مجتہدین وآئمہ لغت کی متفقہ ہے۔ مرفوع روایتوں میں سے ایک حدیث جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے۔

مرفوعا ني عن الشغار والشغار ان ينكح هذه بهذه بغير صداق بضع هذه صداق هذه وبضع هذه صداق هذه رواه البهيقي

دوسرے ابو ریحانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی

عن النبي صلي الله عليه وسلم نهي عن المشاغرة والمشاغرة ان يقول زوج هذا من هذه من هذابلامهر رواه ابو الشيخ في كتاب النكاح

 یہ دونوں فتح الباری ص 140 جلد 9 میں ہیں۔

3۔ عن ابن عباس رضي الله تعاليٰ عنه قال كان رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول ليس منا من ينتهب وقال لاشغار في الاسلام والشغار ان تنكح المراة ان احدها الاخري بغير صداق

 (رواہ الطبرانی مجمع الزوائد ص 2678 ج4)

4۔ عن ابن ابي كعب رضي الله تعاليٰ عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لا شغار في االسلام قالوا وما الثغار قال نكاح المراآه بالمراة لا صداق بينها رواه الطبراني في الصغير والاوسط مجمع الزوائد ص ٢٦٦ ج٤)

حافظ ابن احجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ  تلخیص ص 294 میں فرماتے ہیں۔

واسناده وان كان ضعيفا لكنا نستانس به في هذ المقام

فتح الباری ص 140 جلد 9 میں ہے۔

قال القرطبي تفسير اشغار موافق بما زكره اهل اللغه فان كان مرفوعا فهو المقصود وان كان من قول الصحابي فمقبول ايضا الانه اعلم بالمقابل واقعه بالحال

ہم نے مانا کہ ضعیف حدیث قابل احتجاج نہیں ہوتی۔ مگر میرے محترم وہ کہ احادیث صحیحہ کے مقابلے میں جب واقع ہو حدیث لا شغار فی الاسلام وان احادیث ضعیفۃ میں کسی قسم کا بھی تعارض نہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کو ملاحظہ فرمایئں۔ صحیح صریح نہیں ہوتی۔ یا غیر صحیح سے استدلال یا اس کی طرف اشارہ یا لفظ متابعۃ وضاحت کی بنا پر بیان کردیا کرتے ہیں۔

افصاح نکت ابن الصلاح مین ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔

ومن جمله صفات القبول التي لم يتعرض لها شيخنا الحافظ يعن زين الدين العراقي ان يتفق العلماء بدلول حديث فانه يقبل حتي مجيب العمل به وقد صرح بذلك جماعة من ائمة الاصول الخ كذا في التحفة المرضية الملصدقة مع الطبراني للقاضي حسين بن محسن الانصاري ص ٣٦٦

حافظ صاحب روپڑی نے علامہ شیر خیتی سے نقل کیا ہے۔

 ومحل كونه لا يعمل بالضعيف في الاحكام مالم يكن تلقه الناس بالقبول فان كان كذالك تعين وسارحجة يعمل به في الاحكام وغيرها كما قال الشافعي

اس جگہ ان احادیث ضعیفہ کے مدلول پر تلقی الناس بالقبول بالاتفاق موجود ہے۔ یہ حدیث لائق احتجاج ہویئں۔ مع ہذا روایات صحیحین تک ان کی موئد دیکھو صحیح بخاری کتاب لحیل وصحیح مسلم کتاب النکاح بعد حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرفوعا

قلت لنافع ماالشغار قال ينكح بنت لرجل وينكحه ابنته بغير صداق وينكح اخت الرجل وينكحه اخته بغير صداق

 بخاری باب الشغار کے الفاظ یوں ہیں۔

 والشغار ان يزوج الرجل ابنته علي ان يزوجه الاخر ابنته هيس بينهما صداق

 صحيح مسلم میں بطریق ابو الزناد ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں

 ذاد ابن غير الشغار ان يقول الرجل للوجل زوجتي ابنتك وازوجك ابنتي اوزوجني اختلف وازوجك اختي

اس روايت مسلم میں مہر وغیرہ کا زکر نہیں جس سے ہمارے محترم احباب بے جا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ جو ان کی کوتاہ نظری ہے۔ ابو الزناد سے موطا اما م مالک رحمۃ اللہ علیہ ص 139/2 میں ہے۔

ابن وهب عن ابي الزناد عن ابيه قال كان يكتب في عهود السعاة ان ينتهوا اهل علهم عن الشغار والشغار ان ينكح الرجل امراة وينكحه الاخر امراة بضع احداهما بضع الاخري بغير صداق وما يشبه زلك

معلوم ہواکہ یہ کسی راوی کا اس میں تصرف ہے۔ کہ جس نے لفظ صداق کا حذف کردیا۔ وہ بھی شاید نہ پہنچنے کی بنا پر نہ کہ عمداً یہ کام کیا ہو۔ بلا ذکر مہر کے جو تفسیر ہے۔ وہ عبید اللہ کی ہے۔ دیکھو نسائی باب تفسیر الشغار جو نہ تابعی اور نہ ہی تبع تابعی ان سے نیچے علاوہ ازیں حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں خود یہ لفظ موجود ہیں۔ دیکھو خلافیات بہقی ورق نمبر 50

في مسئة الشغار اخبرنا ابو عبدالله الحافظ انا ابو بكر محمد بن احمد بن حاتم فنا للبواالموجه انا صدقة ثنا عبد ة عن ابي بكر يب عن عبيد الله عن ابي الزناد عن لاعرج عنه ابي هريرة قال نهي رسول الله صلي الله عليه وسلم عن الشغار والشغار ان يزوج الرجل ابنته الرجل ويزوج ابنته ولا صداق بينهما

اس روايت كی سند کی طرف اما م مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اشار ہ کیا ہے۔ بحمد اللہ حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں بھی بلامہر کی تقید ثابت ہوگئی۔ اب تمامی روایات مرفوعہ موقوفہ تفاسیر طریقہ وعمل اہل جاہلیت وتفاصیل آئمہ لغت وآئمہ محدثین وفقہاء ایک ہوگئیں۔ فلربنا الحمد ولہ المنۃ۔

علامہ خطابی کامعالمالسنن میں کلام بھی اسی کومتقضی ہے۔ ص193 جلد 3 میں بعد روایت نافع فرماتے ہیں۔

 قال الشيخ تفسير الشغار ما تبه نا فع وقدروي ابودائود ايضا في هذالباب باسناده عن الاعرج وزكر قصه معاوية بلفظ وكانا جعلاة صداقا ثم قال قال الشيخ فاذا دفع النكاح علي هذه الصفة كان باطلا كان النبي صلي الله عليه وسلم نهي عنه

اگر خطابی کے کلام میں جعلا ہ صداقا نہ تسلیم کیاجائے۔ تو ان کے کلام میں مرابطہ مفقود ہو جاوے گا۔ معاویہ کی روایت کو اسی پر محمول کرنا لازمی امر ہے۔ تا اعرج کی اصل روایت کے بھی مخالف نہ ہو۔ اعرج ہی ابو ہریرہرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کا راوی ہے۔ اگر اس پر محمول نہ کیاجاوے۔ تو امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ لکھنا کہ هذا لشغار والذي نهي عنه رسول الله صلي الله عليه وسلم بالکل غلط ہوگا۔ چونکہ یہ تعریف کسی طریق سے بھی صحیح نہیں۔ نہ نبی کریمﷺ سے نہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین یا تابعین رحمۃ اللہ علیہ سے اور نہ ہی آئمہ لغت وفقہاء محدثین وغیرہم سے اور نہ ہی معمول اہل جاہلیت اس کے مساعد ہے۔  (ابو عبد الکبیر محمد عبد الجلیل سامرودی کان اللہ لہ)

اہلحدیث

یہ تحقیق انیق قابل قبو ل ہے پہلے میرا فتوی یہی تھا مگر واقعات سے ثابت ہوا ۔ کہ چند پیسے مہر رکھ کر بھی نکاح شغار میں بڑا فسا د یہ ہوتا ہے ۔ کہ ایک فر یق کا بہو سے کچھ بگاڑ ہو ا۔ تو اپنی لڑکی روک لی ۔ دوسرے فریق کو تکلیف دینے کے لئے یا ایک فریق نے بو جہ ناچا قی بہو کو معلق رکھا تو دوسر ااس طر ح کر تا ہے ۔ اس لئے بسا اوقات بے گنا ہوں پر بھی ظلم کرتے ہیں ۔ اس لئے آج کل میرا فتوی یہ ہے ۔ کہ نکا ح شغار با وجو د مہر کےبھی جائز نہیں  (اہلحدیث امرتسر ص 8 16 ربیع الاول 54ہجری؁)

شرفیہ

 میں کہتا ہوں بالکل صحیح ہے ، گز شتہ سال میں نے ایک استفتاء میں مسئلہ شغا ر کا جواب اردو ہی میں لکھا تھا اس میں ہی تحقیق لکھی تھی جو مجیب صاحب نے لکھی ہے ۔  جواب لکھنے کے بعد محلی ابن حزم کے دیکھنے کا اتفا ق ہوا ۔ تو کیا دیکھتا ہوں ۔ اس نے اس مسئلہ میں انا دلا غیری کا ہڑ بم بپا کر رکھا ہے ۔ جیسے اس کی عادت ہے ۔ اوراپنی عادت سے مجبور بھی ہے ۔ خیر تو چو نکہ اس کی کتا ب عربی میں ہے ۔ اس لئے میں بھی اپنے فتوی کا ضمیہ یعنی جوا ب محلی خرم شغا ر کا جواب عر بی میں ہی لکھا تھا ۔ وبااللہ التو فیق

 (ابو سعید شرف الدین دہلوی)

------------------------------------------------------

١...صله في لغة الرفع يقال شغر الكلب اذا رفع رجله ليبول كانه قال لا ترفع رجل بنتي حتي ارفع رجل بنتك  (نووي)

فتاویٰ ثنائیہ

جلد 2 ص 344

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ