السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بکر نے ہندہ س نکاح کیا بعد نکاح کسی اور عورت کو اغوا کرکے لے گیا۔ عرصہ دس گیارہ سال لا پتہ رہا۔ اس عرصہ میں ہندہ کا باپ بھی فوت ہوگیا۔ جس کی وجہ سے وہ نان نفقہ سے بھی تنگ آگئی۔ اس حالت میں ایک دوسرے شخص زید نے ہندہ کو اور اس کی والدہ کو نکاح کےلئے راضی کرلیا۔ لیکن کسی مولوی صاحب نے نکاح پڑھنے کی جراءت نہ کی۔ اور ہندہ مع اپنی والدہ کے زید کے گھر رہنے لگی۔ سال کے بعد ان کی بدکاری عیاں ہوگئی۔ اس واقعہ کو آج پندرہ سال ہوگئے ہیں۔ اب زید ہندہ اپنے نکاح کےلئے دریافت کرتے ہیں۔ کہ شریعت میں اگر نکاح ہوسکتا ہے۔ تو ہم جائز طور پر آباد ہوجاویں۔ کیا شرعا ان کانکاح درست ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جوشخص عرصہ چار سال تک لا پتہ رہے۔ اس کی عورت فتویٰ عدت وفات گزار کر نکاح کرسکتی ہے۔ صورت مرقومہ میں لاپتہ ہونے کے ماسوا نان ونفقہ کی تنگی بھی فسخ کی وجہ ہوسکتی ہے۔
یہ جواب صحیح نہیں اس لئے کہ پہلے مفصل گزرچکا ہے۔ کے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چار سال بعد مرافعہ یعن حاکم مسلم کی عدالت میں مقدمہ دائر ہونے کے بعد چار سال گزار کر پھر عدت وفات گزار کر دوسرے نکاح کا حکم دیا تھا۔ بلا مرافعہ کا اعتبار نہیں اور نان نفقہ کی تنگی کی تفصیل کے بعد صحیح جواب ہوسکتا ہے۔ مجمل طور پر جواب صحیح نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب