سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(365) فوت ہوجانے سے شرائط ونقض عہد نکاح فسخ ہوا یا نہ؟

  • 6980
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 953

سوال

(365) فوت ہوجانے سے شرائط ونقض عہد نکاح فسخ ہوا یا نہ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید نے ہندہ کے ساتھ نکاح کیا۔ کچھ مدت بعد نوبت خلع تک پہنچی خلع کے وقت ہندہ حاملہ تھی۔ بعد انقضائے حمل اور فوت ہوجانے دختر پیدا شدہ کے زید وہندہ دوبارہ نکاح کرنے پر رضا مند ہوگئے۔ چنانچہ زید نے مہر اول ہی دو ہزار روپے منظور کرکے مزید شرائط حسب زیل کا اپنے قلم سے اضافہ تحریر کردیا۔

1۔ دو صد روپیہ مہر پہلے ادا کرنا  (بوقت نکاح۔ 2۔ دوسرا مہر سال کے بعد پانصد اد ا کرنا

3۔ یہ کل دو ہزار روپیہ چار سال بعد ادا ہوگا۔ 4۔ ماہواری خرچ برابر دیتا رہوں گا۔

5۔ اور میں آئندہ کے واسطے تھوڑا یا زیادہ نہیں ماروں گا۔ 6۔ اور جس جگہ خوشی ہوگی اسی جگہ رکھوں گا۔ 7۔ اور گھر کے اسباب کی یہی مالک ہے۔ میں کوئی دخل نہیں دوں گا۔ 8۔ اور میرا کوئی رشتہ دار اسباب وغیرہ کاکوئی حق دار نہیں ہے۔ 9۔ اور یہ وعدہ میں اپنے رب کو حاضر ناضر جان کر سچے دل سے کرتا ہوں۔  (نقل مطابق اصل) ؎

چونکہ زید اپنی زبان سے تحریری وعدہ کا پابند نہیں رہا۔ او ر نہ پابند رہنا چاہتا ہے۔ لہذا ثابت ہوا کہ دوسری دفعہ زید نے ہندہ کو خراب کرنے کی نیت سے نکاح کیا تھا۔ کیونکہ مابین زید وہندہ بعد از نکاح ثانی فوراً ہی تعلقات خراب ہوگئے۔ حتیٰ کہ اس نکاح کے بعد جو لڑکی ہوئی اس کی ولادت کے اخراجات بھی زید نے ادا نہیں کیے۔ بلکہ خود ہندہ نے قرض وغیرہ اٹھا کر دایہ وغیرہ کے اخراجات وغیرہ پورے کیے۔ اب سوال یہ ہے کہ محولہ بالاحالات کے ماتحت نکاح صحیح ہوا یا نہ اگر جواب اثبات میں ہے۔ تو یہ باعث فوت ہوجانے شرائط ونقض عہد نکاح فسخ ہوا یا نہ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مرقومہ میں جتنے امر لکھے ہیں۔ شروط نہیں بلکہ وعدے ہیں۔ اس لئے ان کے نہ کرنے پر خاوند کو مجبور کیاجاوے گا۔ ان کو پورا کرے طلاق کا حکم نہیں دیا جائےگا۔ بذریعہ عدالت ان وعدوں کو پورا کرلیا جائے۔ عورت کا پردہ نشین ہونا دعویٰ کےلئے روک نہیں ہوسکتا۔ بزریعہ وکیل یا مختار دعویٰ ہوسکتا ہے۔

 إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا ۔ ﴿٣٤ (بنی اسرایئل)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 340

محدث فتویٰ

تبصرے