السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک حنفی آجکل یہ اعتراض کرتا ہے۔ کہ ایک فتویٰ اہلحدیث اخبار میں بیوہ عورت کی عدت کے متعلق تین حیض یا ماہ لکھا ہے۔ جس میں کسی سائل نے فتویٰ پوچھا تو جواب میں ثلثہ قروء کی آیت پیش کی۔ جو قرآن کی صریحا مخالفت ہے۔ کیا یہ صحیح ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اہل حدیث کی مخالفت کرنے والے انصاف سے کام نہیں لیتے۔ اہل حدیث کا کوئی فعل ایسا نہیں ہے۔ جو حدیثوں میں نہ آیا ہو۔ اور آئمہ سلف کا معمول بہ نہ ہو۔ اس لئے لوگ جتنی اہل حدیث کی مخالفت کرتے ہیں۔ اسی قدرشرعیات سے بے خبر ہوتے ہیں۔ بیوہ کی عدت توقرآن مجید میں صاف مذکور ہے۔ یعنی چار ماہ دس روز۔ اخبار اہل حدیث میں اس کے خلاف اگر کسی پرچہ میں چھپ گیا ہے۔ تو اس کی تاریخ معلوم ہونے پر اصلاح کردی جائے گی۔ باقی جھگڑا بے کار ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب