السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کعبہ شریف کو کب سے غلاف پہنایا جاتا ہے ؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!کعبہ پر غلاف چڑھانے کی ابتدا کب ہوئی اور آج تک اس کی تاریخ کیا ہے ۔ اس بارے میں تاریخ کا کوئی مؤرخ اس کا قدیم ریکارڈ پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ لیکن جو روایات علماء اسلام تک پہنچی ہیں ان کے مطابق کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے کعبۃ اللہ پر غلاف حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے چڑھایا تھا، ابن ہشام اور دیگر مؤرخین نے لکھا ہے کہ حضرت اسماعیل اور حضرت ابراہیم نے تعمیر کعبہ کے ساتھ ساتھ غلاف کا اہتمام بھی کیا تھا، اس روایت کے بارے میں نہ تو اتنے وثوق سے کہا جا سکتا ہے اور نہ انکار کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد صدیوں تک تاریخ خاموش ہے پھر یہ ذکر ملتا ہے کہ عدنان نے کعبہ پر غلاف چڑھایا اس کے بعد پھر عرصہ بعید تک تاریخ خاموش ہے ۔ سب سے مستند حوالہ اس حدیث مبارکہ کا ہے جس پر تاریخ غلاف کعبہ کے تمام مؤرخین نے اتفاق کیا ہے کہ ظہور اسلام سے 200برس قبل یمن کے بادشاہ تبع ابوکرب اسعد (عہدحکومت420ءتا425ء) نےخواب میں دیکھا کہ وہ کعبہ شریف پرغلاف چڑھا رہا ہے یہخواب اس نے کئے بار دیکھا ایک جنگ سے واپسی پر وہ مکہ مکرمہ سے گزرا تو اسے اپنا خواب یاد آیا چنانچہ اس نے یمن سے قیمتی کپڑے کا غلاف بنوا کر خانہ کعبہ پر چڑھایا اسعد نے پہلی بار درکعبہ مشرفہ کےلئے ایک تالہ اور چابی بنوائی ، شاہ اسعد کے بعد یمن کے ہر بادشاہ نے یہ سعادت حاصل کی اور ہر بادشاہ نے کعبہ شریف کے لئے غلاف بنوایا مؤرخین کی نظر میں یہ واقعہ اس لئے زیادہ درست ہے کہ ایک بار کچھ لوگ اسعد نامی بادشاہ کو برا بھلا کہہ رہے تھے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اسعد حمیری کو برا نہ کہو کیونکہ اس نے کعبہ پر غلاف چڑھایا تھا(مسند احمد بن حنبل) یہ غلاف سرخ دھاری دار یمنی کپڑے الوصایل سے بنایا گیا تھا۔ قریش کے انتظام سنبھالنےکے بعد سے غلاف کعبہ کی مکمل تاریخ ملتی ہے ، قریش مکہ ہر سال دس محرم کو کعبے کا غلاف بدلتے تھے اس دن وہ احترام کی خاطر روزہ بھی رکھتے تھے زمانۂ جاہلیت میں خالد بن جعفر بن کلاب نے کعبہ پر پہلی مرتبہ دیباج کا غلاف چڑھایا تھا اسکی لاگت تمام قبائل قریش میں تقسیم کی گئی تھی اس وقت غلاف ٹاٹ،چمڑےاور دیباج وغیرہ سے تیار کئے جاتے تھے بنی مخروم کے ابو ربعیہ ابن عبداللہ ابو بن عمر نے تجارت میں بے حد منافع کمایا تو اس نے قریش سے کہا کہ ایک سال میں کعبہ پر غلاف میں چڑھایا کروں گا اور ایک سال تمام قریش مل کر یہ فریضہ انجام دیں گے چنانچہ اس کے مرنے تک یہی معمول رہا ۔ اس کے علاوہ زمانۂ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ عرب کے مختلف قبیلے اور ان کے سردار جب بھی زیارت کے لیے آتے تو اپنے ساتھ قسم قسم کے پردے لاتے ۔ جتنے لٹکائے جا سکتے وہ لٹکا دئیے جاتے باقی کعبۃ اللہ کے خزانے میں جمع کر دئیے جاتے ۔ جب کوئی پردہ بوسیدہ ہو جاتا تو اس کی جگہ دوسرا پردہ لٹکا دیا جاتا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کا ایک واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ بچپن میں جب ایک بار حضرت عباس اپنے گھر کا راستہ بھول گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دادی، عباس بن عبدالمطلب کی والدہ نبیلہ بنت حباب نے منت مانگی کہ عباس گھر آجائیں تو وہ غلاف نذر کریں گی چنانچہ حضرت عباس جب گھر سلامتی سے تشریف لائے تو انہوں نے یہ منت پوری کی اور سفید رنگ کا ریشمی غلاف چڑھایا، اس واقع سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ظہور اسلام سے پہلے اور بعد میں بھی غلاف کعبہ کو ذاتی اور اجتماعی طور پر بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ اعلانِ نبوت سے 5 برس قبل کی قریش کی تعمیر، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بنفسِ نفیس شریک تھے ،مکمل ہونے کے بعد اہل مکہ نے بڑے اہتمام کے ساتھ کعبہ پر غلاف چڑھایا۔ فتح مکہ کے بعد جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےخانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےغلاف کعبہ کو تبدیل نہیں کیا تھا انہی دنوں ایک عجیب واقع پیش آیا ایک مسلمان خاتون غلاف کعبہ کو صندل کیخوشبو میں بسانے کا اہتمام کر رہی تھی کہ اچانک تیز ہوا سے آگ غلاف کعبہ کے پردے پر پڑی اور اس پردے میں آگ لگ گئی جو مشرکین مکہ نےڈالا تھا، تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کا تیار کیا ہوا سیاہ رنگ کا غلاف چڑھانے کا حکم دیا،جو اسلامی تاریخ کا پہلا غلاف تھا۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتاویٰ ثنائیہجلد 2 |