السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی نے اپنی عورت کو طلاق دی۔ اور اس عورت نے دوسرے ہی روز ایک دوسرے شخص سے نکاح کرلیا۔ اس کی گود میں دو ماہ شیر خوار لڑکی ہے۔ اس عورت نے مہر شریعت کچھ نہیں لیا۔ کیا یہ نکاح درست ہے یا نہیں؟ اور گواہان نکاح پر خواندہ نکاح پر یا مجلس میں بیٹھنے والوں پر کیا جرم شریعت محمدی میں ہے۔ مجلس میں بیٹحنے والوں کا نکاح بھی فسخ ہوگیا ہے یا نہیں ان کے ہمراہ کھانا ان کی موت پران کا جنازہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں۔ اور انکی اولاد کے ساتھ جو پیدا ہوگی۔ شریعت میں برتائو کا تعلق کیا ہے۔ ایسی عورت کی عدت کتنی چاہیے۔ جواب دے کر مشکور فرمادیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مطلقہ کی عدت تین طہر یا حیض ہے۔ اس عدت کے اندر نکاح کرنا صحیح نہیں ایسے نکاح میں شامل ہونے والے اگر باعلم ہوں تو خطا وار ہیں۔ اگر اس عدت کے اندرنکاح کرنے کوکوئی شخص حلال سمجھے۔ تو وہ متحلل حرام ہے۔ جو مسلمان نہیں رہ سکتا۔ تا وقت یہ کہ صحیح طور پر توبہ نہ کرے۔
یہ گول مول ہے۔ تفصیل یہ ہے کہ اگر باعلم ہو تو عمل کی رو سے فاسق بدکار اور اگر مستحق ہوں تو پکے کافر توبہ واجب۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب