السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت جس کا زوج آج تین مہینے ہوئے انتقال کرگیا ہے۔ اب اگرچہ بدلیل صریح الَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا﴿٢٣٤﴾سورة البقرة.... الخ ناجائز ہے۔ تاہم عورت مذکورہ ابھی نکاح پر آمادہ ہوگئی ہے۔ اور عدت سے کچھ تمیز نہیں کرتی۔ ایک شخص اس پرآمادہ ہے۔ حتی کہ تعشق کاروائی کررہی ہے۔ اب اگر عدت کے موافق انتظاری اہل جماعت کریں۔ تو خوف زنا ابدی ہے۔ لہذا صورت مندرجہ میں قیل متقضی ہونے عدت کے جواز نکاح ہوگا یا نہیں اگرچہ ارشاد باری تعالیٰ ۔ لَا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحِ ﴿٢٣٥﴾سورة البقرة.... الخ
عدم جواب پر مترشح ہےبہرکیف علی کلمہ التقدیر میں باد کہ ساطعہ جواب تحریر فرمادیں۔ ورنہ نقصان عظیم لازم ہوگا۔ دیگر اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی عدت کیوں مقرر کی حالانکہ مالک کا کوئی کام بلاوجہ نہیں ہے۔ والسلام
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سائل نے جو آیت منع لکھی ہے۔ وہی دلیل قوی ہے۔ اس کے برخلاف کوئی دلیل ایسی نہیں۔ جس سے جواز نکاح ثابت ہوسکے۔ یہ بہانے سب زناکاروں کے ہیں۔ ورنہ چار ماہ دس اتنی لمبی عدت نہیں۔ کہ عورت گزار نہ سکے۔ عدت کا حکم دوفائدوں کے لئے ہے ایک تو حمل معلوم ہوسکے۔ دوم عورت حالت غم والم سے جو خاوند کے مرنے سے اس کو لاحق ہوئے ہیں۔ چند دنوں تک فارغ ہوئے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب