السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں پٹھانوں میں بعض لوگ علاوہ ہرو زیور وغیرہ کے اپنے ذاتی فائدہ کےلئے اپنی لڑکیوں پر کچھ نقد زیورچاول اور روغن زرد وغیرہ۔ بھی لڑکے کے والدین سے لیتے ہیں۔ اور بعض اصحاب شادی کا بوجھ دو طرفہ لڑکے کے والدین پر ڈال دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں حسب ضرورت چاول ۔ روغن۔ زرد ودیگر لوازمات۔ برائے طعام وادن اپنے اقارب اہل محلہ ودیگر تعلق داران لیتے ہیں۔ اور بعد از اختتام شادی باقی ماندہ جنس لڑکے کے والدین کو واپس کردیتے ہیں۔ اور اپنے استعمال میں نہیں لاتے۔ برائے مہربانی بحوالہ حدیث شریف مطلع فرمایئں کے لڑکے کے والدین پردو طرفہ بوجھ ڈالنا اور ان سے مندرجہ بالا اشیاء لینا درست ہے یا نہیں؟ جب کہ والدین لڑکی کے صاحب حیثیت ہوں۔ یا اگر لڑکی کے والدین بوجہ تنگدستی کے خود شادی (یعنی اپنے رشتہ داروں وغیرہ کو حاضری دینا وغیرہ جس کے بغیر بموجب ان کے رواج کے وہ شادی بالکل نہیں کرسکتے۔ یعنی یہ حاضری وغیرہ دینا ان کا ایک قسم کا قرضہ ہوتا ہے۔ کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ یا لڑکی کا والد زندہ نہیں۔ اور اس کے بھائی یا بصورت نہ ہونے اس کے بھائی کے دیگر قریبی رشتہ داروں بھی اس قابل نہیں کیا وہ ایسا کرسکتے ہیں۔ یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیا وہ (دوران حال یہ کہ لڑکی جوان ہو)شادی کو اس وقت تک ملتوی کرسکتے ہیں۔ جب تک وہ اس کے بوجھ کے اٹھانے کے قابل ہوجایئں ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجید میں ایک عام اصول ہے۔ کہ اخراجات شادی کل مرد کے زمہ ہیں۔ چنانچہ فرمایا۔
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّـهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ﴿٣٤﴾سورة النساء....
(یعنی مرد عورتوں پر افسر ہیں۔ دووجہ سے ایک تو قدرتی بزرگی دوم یہ وجہ کہ وہ اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ )
آپﷺ نے جب اپنی لڑکی کا نکاح کرنا چاہا تو داماد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مہر وصول کرکے اس سے زیور وغیرہ بنوا کر کچھ اپنے پا س سے بھی دیا۔ اور لڑکی رخصت کی ہاں دعوت براءت کا خرچ ایک زائد چیز ہے۔ یہ دعورت لڑکی والے پر ضروری نہیں وہ جو کچھ کرتا ہے اپنے ننگ ونمود کے لئے کرتا ہے۔ تاہم اگر لڑکی والے میں اتنی ہمت نہیں۔ اور لڑکے والا احسان سے اس کا بوجھ خود اٹھائے تو منع نہیں۔ لاتنسو الفضل بينكم عام قانون ہے۔ لازمی طور پر اس پر بوجھ ڈالناجائز نہیں۔ نہ اس وجہ سے جوان لڑکی کی شادی کو ملتوی کرنا جائز ہے۔ حدیث شریف میں ہے بالغہ لڑکی کی شادی نہ کرنے سے جو خرابی پیدا ہو اس کا وبال اس کے ولی پر ہے۔ واللہ اعلم (اہلحدیث امرتسر ص 7 25اپریل 1924ء)
مجھ کو اس کی دلیل معلوم نہیں مجیب کا سہو معلوم ہوتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب