سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(351) خطبہ جمعہ سننے کا وجوب

  • 6904
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1033

سوال

(351) خطبہ جمعہ سننے کا وجوب
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیاخطبہ جمعہ کا سننا واجب ہے، اور یہ دو رکعات کے برابر ہے۔ دو رکعات نماز باجماعت اور دو رکعات خطبہ جمعہ کل چار رکعات۔ کیا دوران خطبہ جمعہ دو نفل،سنت پڑھنا گناہ ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جی ہاں خطبہ سننا واجب ہے، دوران خطبہ آنے والے شخص كو خاموش رہنا چاہيے، اور كسى دوسرے كے ساتھ كلام كرنا جائز نہيں، حتى كہ كسى شخص كو خاموش كرانے كے ليے بھى كلام نہيں كى جا سكتى، جو شخص بھى ايسا كرتا ہے، اس نے لغو اور فضول كام كيا، اور جس شخص نے فضول اور لغو كام كيا اس كا جمعہ ہى نہيں ہوا۔

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جمعہ كے روز خطيب كے خطبہ كے دوران اگر آپ نے اپنے ساتھى خاموش ہونے كا كہا تو آپ نے لغو اور فضول كام كيا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 892 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 851 )۔

اور اسى طرح شرعى سوال كا جواب دينا بھى ممنوع ہے، چہ جائيكہ كسى دنياوى امور ميں كلام كى جائے۔

ابو درداء رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم منبر پر تشريف لے گئے اور لوگوں كو خطاب كرنے لگے، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے ايک آيت تلاوت كى اور ميرے پہلو ميں ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ بيٹھے ہوئے تھے، ميں نے انہيں كہا:

اے ابى ذرا يہ تو بتاؤ كہ يہ آيت كب نازل ہوئى تھى ؟

تو ابى رضى اللہ تعالى نے ميرے ساتھ بات كرنے سے انكار كر ديا، ميں نے پھر ان سے دريافت كيا تو انہوں نے مجھ سے بات نہ كى، حتى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم منبر سے نيچے اتر آئے تو ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ مجھ سے كہنے لگے:

آپ كو اس جمعہ سے كچھ حاصل نہيں ہوا سوائے اس كے جو آپ نے لغو كام كيا ہے، اور جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز جمعہ سے فارغ ہو چكے تو ميں نے آكر انہيں يہ سب كچھ بتايا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

" ابى بن كعب نے سچ كہا ہے، جب تم اپنے امام كو خطبہ ديتے ہوئے سنو تو اس كے خطبہ سے فارغ ہو نے تک خاموشى اختيار كرو"

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1111 ) مسند احمد حديث نمبر ( 20780 ) بوصيرى اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے تمام المنة صفحہ نمبر ( 338 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے۔

يہ حديث جمعہ كے روز امام كے خطبہ كے دوران خاموش رہنے، اور كلام كرنے كى حرمت پر دلالت كرتى ہے۔

ابن عبد البر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

ہر علاقے كے فقہاء ميں خطبہ سننے والے كے ليے دوران خطبہ خاموش رہنے كے وجوب ميں كوئى اختلاف نہيں۔

ديكھيں: الاستذكار ( 5 / 43 )۔

لیکن دوران خطبہ ضرورت يا مصلحت كى خاطر نمازيوں كا امام كے ساتھ اور امام كا نمازيوں كے ساتھ كلام كرنا اس حکم سےمستثنى ہے۔

انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں لوگ قحط سالى كا شكار ہو گئے، ايک روز جمعہ كے دن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے كہ ايک اعرابى شخص كھڑا ہو كر كہنے لگا:اے اللہ تعالى كے رسول مال و جانور ہلاک ہو رہے ہيں، اور بچے بھوكے ہيں، اللہ تعالى سے ہمارے ليے دعاء فرمائيں، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہاتھ بلند كيے....اس دن بارش ہوئى اور اس كے دوسرے اور تيسرے دن اور چوتھے دن حتى كہ اگلے جمعہ تک بارش ہوتى رہى، اور وہى يا كوئى اور اعرابى كھڑا ہو كر كہنے لگا:اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم گھر منہدم ہو رہے ہيں، اور مال غرق ہونے لگا ہے، اللہ تعالى سے ہمارے ليے دعا فرمائيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہاتھ بلند فرمائے...

صحيح بخارى حديث نمبر ( 891 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 897 )۔

جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے كہ ايک شخص آيا اور بيٹھ گيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اے فلان كيا تم نے نماز ( تحيۃ المسجد ) ادا كى ہے ؟ تو اس نے نفى ميں جواب ديا، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اٹھ كر دو ركعت ادا كرو"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 888 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 875 )۔

خلاصہ کلام يہ ہوا كہ:

خطبہ جمعہ ميں حاضر ہونے والے شخص پر امام كا خطبہ سننا اور خاموش رہنا واجب ہے، اس كے ليے دوران خطبہ كلام كرنا جائز نہيں، ليكن جو شرعى دليل ميں خطيب كے ساتھ كلام كرنا استثناء ہے يا امام كى كلام كا جواب دينا، يا جس كى ضرورت پيش آجائے، مثلا كسى اندھے كو گرنے سے بچانا وغيرہ۔

سلام كرنا اور سلام كا جواب دينا بھى اسى ممانعت ميں شامل ہے، كيونكہ امام كے ساتھ بھى اس كلام كى اجازت ہے جس ميں كوئى مصلحت يا ضرورت ہو، اور سلام كرنا اور اس كا جواب دينا اس ميں شامل نہيں۔

شيخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" امام كے ليے بغير كسى مصلحت كے مقتدى سے كلام كرنا جائز نہيں لہذا مصلحت كا نماز وغيرہ جس كے متعلق كلام كرنا بہتر ہو كا ہونا ضرورى ہے، ليكن اگر امام بغير كسى مصلحت كے كلام كرتا ہے تو يہ جائز نہيں۔ اور اگر كسى ضرورت اور حاجت كى بنا پر ہو يہ بالاولى جائز ہے، ضرورت ميں يہ ہے كہ دوران خطبہ سامع پر كسى جملہ كا معنى مخفى رہ جائے تو وہ سوال كر سكتا ہے، اور يہ بھى ضرورت ميں شامل ہے كہ: امام اور خطيب كسى آيت ميں غلطى كر رہا ہے جس سے معنى بدل جائے، مثلا آيت كا كچھ حصہ ہى رہ جائے وغير تو مقتدى اس كى تصحيح كر سكتا ہے۔ اور مصلحت حاجت اور ضرورت كے علاوہ ہے، مثلا لاؤڈ سپيكر كى آواز خراب ہو جائے تو امام بول كر سپيكر صحيح كرنے والے كو مخاطب كر سكتا ہے، كہ لاؤڈ سپيكر كو ديكھيں كيا خرابى پيدا ہوئى ہے "۔

ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 140 )۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ

جلد 2

تبصرے