سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(295) جبراً طلاق نامہ لکھوا کر دستخط کرانا

  • 6898
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1424

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص کو اس کی منکوحہ کے رشتہ داروں نے مار کر جبراً طلاق نامہ لکھوا کر دستخظ کرائے۔ کیا یہ طلاق جائز ہے۔ ؟(عزیز الدین پٹھانکوٹ ضلع گرداسپور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جبریہ طلاق جائز نہیں۔ لا اکراہ فی الدین لیکن جبر کاثبوت ہوناچاہیے۔ (اہلحدیث 10 جولائی 1931ء)

شرفیہ

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ اس آیت سے استدلال صحیح نہیں۔ اس لئے کہ اس کے آگے ہے۔ قد تبين الرشد من الغي یعنی اکراہ کی ضرورت نہیں۔ دلائل صحیحہ نہ برائن قطعیہ کافی ہیں۔ اور اگر خبر بمعنی انشاء بھی ہو۔ تو بھی نہی عن الشی اس کے عدم کو مستلزم نہیں قتل مسلم معصوم وزنا ممنوع ہیں۔ مگر کرنے سے جرم ثابت ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی کسی مسلم سے بجبرو اکراہ کسی مسلم معصوم کو قتل کرائے۔ ایک بھی نہیں بلکہ صدہا کو ایسے بار بار زناکراکے یا مسلمانوں کے اموال لٹوائے۔ تو سلف صالحین سے بلکہ تمام ہی آئمہ محدثین سے وفقہاء سے کوئی بھی اس کا قائل ثابت نہیں ہوا کہ اکراہ میں اختیار باقی رہتا ہے۔ جب اختیار باقی رہتا ہے۔ تو پھر اور امور طلاق وغیرہ میں بھی واقع ہوجایئں گے۔ اور

وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا ۚ وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٢١٧ سورة البقرة....

اس سے ثابت ہوا کہ اکراہ سے کفر ثابت ہوگا۔ پھر اگر قبل توبہ مرگیا۔ تودائمی دوزخی ہوگا۔ پس طلاق بطریق اولیٰ ثابت ہوگی۔ اور الا من اکرہ سے استدلال صحیح نہیں۔ اس کی تفصیل وتفسیر میری کتاب الاکراہ میں ہے۔ ملاحظہ ہو۔ اور صحیح بخار ی ار صحیح مسلم میں ہے کہ ایک جنگ میں اسامہ بن زید  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک کافر پر حملہ کیا تو اس نے آڑ میں ہوکر کلمہ شہادت پڑھا کہ میں مسلم ہوگیا ہوں۔ مگر اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قتل کردیا۔ جب رسول اللہ ﷺ کو خبر ہوئی تو آپﷺ بار بار فرماتے کہ تو نے اسے کلمہ شہادت پڑھنے کے بعد قتل کیا بہت ناراض ہوئے فرمایا قیامت میں تو اس کا کیا جواب دے گا۔ (مشکواۃ ص 299 جلد 2) اس سے بھی ثابت ہوا کہ اکراہ میں اختیار باقی رہتا ہے۔ اور فعل مکرہ یا قول کا اعتبار ہے۔ پس طلاق واقع ہوجائےگی۔ ہاں سلف کا اس میں اختلاف ضرور ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ  سے عدم وقوع منقول ہے۔ اور عبدا للہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور شعبی رحمۃ اللہ علیہ  اور نخعی رحمۃ اللہ علیہ  اور ابوجلابہ رحمۃ اللہ علیہ  اور زہری رحمۃ اللہ علیہ  اور قتادہ رحمۃ اللہ علیہ  اور سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ  اور شریح رحمۃ اللہ علیہ  سے جواز منقول ہے۔ بلکہ ایک مرفوع روایت بھی ہے۔ مگر صحیح نہیں۔ لیکن اولہ مذکورہ بالا سے اس کی تایئد ہوتی ہے۔ اور یہی راحج ہے۔ آثار اتلخیص الجبیر الدرایہ تخریج ہدایہ نیل الاوطار وغیرہ میں ہے۔ (ابو سعید شرف الدین )

یاد دہانی

 پرچہ اہلحدیث مورخہ 13 جولائی 24 سوال نمبر 176 کے ضمن میں سائل دریافت کرتا ہے۔ کہ شادی والے شخص کا پورا ایمان ہے۔ اور بغیر شادی والے شخص کا آدھا ایمان یہ حدیث کس کتاب میں ہے۔ فاضل ایڈیٹر نے فرمایا ہے کہ میں نے کسی کتاب میں یہ حدیث نہیں پڑھی۔ الخ۔ واقعی ان الفاظ کے ساتھ مروی نہیں۔ گواکثر زبان ذد خلق ہے البتہ حدیث میں یوں تو وارد ہوا ہے۔ مرفوعا ً حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے

اذا تزوج العبد فقد استكمل نصف الايمان فليتق في نصف الباقي اخرجه الامام احمد في مسنده من حديث انس رضي لله عنه وطبراني في الاوسط ايضا عنه كما في كنز العمال ص ٢٣٧ ج ٨ وايضا البيقي في شعب الايمان من حديث كما في الفصل الثالث من مشكواة المصابيح والترغيب المنذري ص ٦٨ جلد ٣ )

یعنی ’’بندہ جس وقت نکاح کرتا ہے۔ تو اس کا ایمان آدھا پورا ہوجاتا ہے۔ اب اسے چاہیے کہ باقی آدھے میں خدا سے ڈرتا رہے۔‘‘

یہ حدیثیں امام منذری کے نزدیک صحیح حسن سے تو کم نہیں۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص 300

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ