السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مذاکرہ علمیہ بابت ظہار
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ مذاکرہ اہل حدیث مورخہ 3 صفر میں لکھا گیا تھا۔ جس پر کسی صاحب نے توجہ نہیں کی صرف ایک بزرگ مولوی محمد حیدر صاحب (موضع بھرو کے متصل وزیر آباد پنجاب) کا مضمون آیا ہے۔ مولوی صاحب موصوف ایک مسن بزرگ ہیں۔ جناب حافظ صاحب مرحوم وزیر آبادی کے دوستوں میں سے ہیں۔ اس لئے عزت کے ساتھ آپ کا مضمون درج کیا جاتا ہے۔ مذاکرہ میں سوال یہ تھا کہ 1۔ کہ اظہار کی حقیقت کیا ہے۔ 2۔ بغیر ماں کسی اور محرمہ سے تشبیہ کا کیا حکم ہے۔ 3۔ آیت ظہار میں یعودون لما قالوا کے کیا معنی ہیں۔ عود بصلہ لام کے چند شواہد قرآن سے بتائے گئے تھے جن کا مطلب یہ ہے کہ ایک دفعہ کہہ کر پھر وہی کہنا پس جو صاحب اس مذاکرہ پر کچھ لکھیں۔ وہ پہلے اس مضمون کو بغور پڑھیں۔ کیونکہ اس میں اقوال پر مدار بحث نہیں رکھا گیا بلکہ بشواہد قرآنی تحقیق پر مدار ہے مولوی صاحب موصوف کا مضمون یہ ہے (ایڈیٹر)
بسم الله الرحمٰن الرحيم رب يسر ولا تعسر وتمم بالخير
سوال اول۔ عورت کو ماں بہن کہنے سے ظہار ہوتا ہے یا نہیں؟
جواب۔ ظہار ہوجاتا ہے۔ شاہ عبد القادر صاحب قرآن مجید کے ترجمہ میں لکھتے ہیں۔ جو لوگ ماں کہہ بیٹھے اپنی عورتوں کو وہ نہیں ان کی مایئں ''اور اس کے فائدے میں فرمایا ہے۔ اس ماں بہن کہنے کو ظہار کہتے ہیں۔ انتھیٰ
اور مجھے یہ بھی یاد ہے۔ کہ شیخ محی الدین لاہوری مصنف بلاغ المبین وغیرہ نے ترجمہ بلوغ المرام میں ماں بہن کہنے کو بھی ظہار قرار دیا ہے۔ مولوی وحید الذمان نے لکھا ہے۔
الطلاق الصريح كانت طالق مطلقة وطلقتك لا يحتاج الي النية اذا عرف معناه يقع ولوها ذلا اولا عباد قيل يحتاج الي النية ايضا وكذالك كل لفظ جري في عرف لنناس للطلاق يقع به مع النية انتهي
راقم کہتا ہے ایسے ہی عرف میں جس لفظ سے ظہار بن سکے۔ وہ ظہار ہے ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں زادالمعاد میں۔
فعلم انه فرد الناس الي ما يتعا رفونه صلاقا فاهي لفظ جري في عرفهم به وقع به الطلاق مع النية والا لفاظ لا تراد لعينها بل للدلالة علي مقاصد لا لفظها انتهي
اس عبارت میں بھی رواج کا لہاظ ہے۔ جو لفظ رداجا طلاق جاناجائے اس سے طلاق ہوجاتا ہے۔
علي هذا لقياس فاذا تكلم بلفظ دال علي معني وقصد به ذالك المعني يترتب عليه حكمه ظہار سمجھنا چاہیے۔ فتح لقدیر حاشیہ ہدایہ میں لکھا ہے۔
روی ابو دائود عن ابی تيميه ان رسول الله صلي الله عليه وسلم سمع رجلا يقول لامراته يا اخته فكره ذالك ونهي عنه ونحن نعقل ان معني النهي هوانه قريب من التشبيه المحلله بالمحرمة الذي هو الظهار ولو لا هذ الحديث لامسكن ان يقال هو ظهار لان التشبيه في انت امي قوي منه مع بزكر الا رادة ولفظ اخته في يا اخته استعارة بلاشك ومبينة علي التشبيه لكن الحديث الذكوره افاد كونه ليس بظهار حيث لم يبين حكما سوي الكراهة والنهي عنه فعلم انه لا بدفي كونه ظهارا من التصريح باداه التشبيه شرعا
راقم کہتا ہے۔ کہ مصنف علیہ الرحمۃ نے خلاصہ مطلب یا قرار دیا کہ انت امی اوسر یا اختہ میں تشبیہ ہے ۔ اور ظہار بن سکتا ہے۔ لیکن جب پیٖغبر ﷺ نے اس کو ظہار نہیں بتایا صرف منع کردیا ہے ایسا ہ انت امی ظہار نہیں بن سکتا۔ حالانکہ انت کامی سے تشبیہ اقوی ہے۔ تو گویا پیغمبرﷺ کی تقریر کی رو سے صرف تشبیہ کا ہوناضروری ہے۔ جیسے کامی یا کظھرامی سے لیا۔ جو نص میں واردہے۔ اور صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے۔ کہ پیغمبرﷺ نے جب یا اختہ کو ظہار قرار نہیں دیا گویا تشبیہ ہے تو یہ ظہار نہیں پیغمبر ﷺ کی بابت کافی ہے۔ اور علاوہ ام کے اور محرمات کوظہار میں شامل کرنا ضروری بھی نہیں۔ اور انت امی اس واسطے ظہار ہے کہ عرف میں اس سے آدمی کامی یا كظهرامي کام لیتے ہیں۔ اور عرف کا لہاظ موقعہ مناسب پر بالکل ضروری اور پر ضروری ہے اورپیغمبر ﷺ کا اس کے متعلق کوئی حکم ظہار نہ ہونے کا بھی نہیں غرض ہر طرح سے انت امی ظہار ہے۔
سوال دوم۔ ماں کے علاوہ کسی اور محرمات کو تشبیہ دینا ظہار ہے یا نہیں؟
جواب وبہ التوفیق۔ ظہار نبیں نہج المقبول من شرائع الرسول میں لکھا ہے کہ وتشبیہ زوجہ بدختر و خواہر یا بچیز ہے از نیہا خارج از معنی نص است اگرچہ معنی حرمت موجوداست وقیاس بجا مع حرمت در خور قبول نیست وتوسیع ایں دائرہ خر ورنہ بلکہ اقتصاد برمو ر نص کانی است وآ ن امہات از نسب اند۔ انتھی
راقم۔ خیالی وجوہات سے اپنے اوپر بوجھ ڈالنا واجب نہیں۔ ذرونی ماترکتم وغیرہ اس مسئلہ کی تایئد کرتا ہے۔
سوال۔ سوم۔ یعودون لما قالوا کا کیا مطلب ہے۔ ؟
جواب وباللہ التوفیق۔ عرف الجادی من جنان ہد الہادی میں لکھا ہے کہ کہ و ظاہر آن ست کہ مراد بعود رجوع اندمدلول حفظ ظہار است کہ آن تحریم زوجہ باشد چنانکہ برگشتن زن بسوئے خود خواہد خواہ وطی کنن یا نہ کن پس حصربمعنی عوددر ارادہ بے وجہ است ص 128
تفسیر نیل المرام میں لکھا ہے۔
ثم يعودون لما قالوا بالندرك ولتلاني كما في قوله ان تعودو ا لمثله اي الي مثله الخ قال قال ال خفش للام بمعني عن يرجعون عما قالوا وير يزون الوطي وقال الزجاج المعني ثم يعودون ارادة الجماع من اجل ما قالوا قال الا خفش ايضا الاية فيها تقديم وتاخير ولامعنيك والذين بظاهرون عن نسائهم ثم يعودون لما كانوا عليه من لاجماع انتهي
روضۃ الندیہ میں لکھا ہے۔
واختلفوا في الدود ما هو فقال قتادة وسعيد بن جبير و ابو حنيفه واصحابه انه ارادة الميس لماحرم بالظهار لانه اذا اعاد فقد علا من عزم الترك الي عزم الفعل سواء فعل ام لا الخ
ماقال امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا۔ ھو امساک بعد الظھار حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے کہا بل ھوا المعزم علی الوطی انتھی بقدر الضرورت ایک حدیث میں ہے۔
تروجني وانا شابة مرغوب في فلما خلامني وتثرت بطني جعلني كامه عنده فقال لها رسول الله صلي الله عليه وسلم ما عندي ن امرك شي فقالت اللهم اني اشكو اليك وروي انها قالت ان لي صبيه صغاران ضمتهم اليه ضاعوا وان ضمتهم الي جاعو افترل القرآن الي اخر الحديث
اس حديث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عورت ملاپ چاہتی تھی۔ اور مرد نے بھی کفارہ ملاپ کے واسطے دیا عود فی القول کا پتہ نہیں ملتا۔ ایک اور حدیث میں ہے۔
ان سلمة بن صخر البيا ضاهر ن امراته مدة شهر رمضان ثم واقعها ليلة قبل السللاخه فقال له النبي صلي الله عليه وسلم انت بداك يا سلمه قال كنت انا بذاك يا رسول الله مرتين وانا صابر لا مر الله فلحكم بما اراك الله
آگے یہ کہ اس کو کفارہ لگایا اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ سلمہ کا خیال ملاپ کا تھا۔ ایک اور حدیث میں ہے۔
ان رجلا اتی النبی صلی الله عليه وسلم قد ضاهر من امراته فوقع عليها فقال يا رسول الله اني ظاهرت من امراتي فوقعت عليها قبل ان اكفر قال فما حملك علي ذالك يرحمك الله قال رايت خلخالها في ضوء القمر قال فلا تقربها حتي تقول ما امرك الله
ايك اور حديث میں ہے۔
عن النبي صلي الله عليه وسلم في الم ظاهر يواقع قبل ان يكفر فقال كفارة واحدة
ايك اور حديث ہے۔ اس میں یہ ہے۔
ظاهرت من امراتي ثم وقعت علهيا قبل ان اكفر فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم الم يقول الله من قبل ان يتما سا فقال اعجبتني فقال امسك حتي تكفر
یہاں سے بھی معلوم ہوتا ہےکہ عودفی الفعل ہے۔ فی القول نہیں۔ اس سے بڑھ کرعود کی تشریح کیا چاہیے۔ لفظ دہرانے کا کوئی پتہ نہیں۔ ظاہری جس طرف گئے ہیں۔ وہ ٹھیک نہیں۔ حدیث قرآن مجید پر قاضی ہوتی ہے۔ مجمل مقام میں یا مفصل میں ایڈیٹر حدیث اور اقوال بزرگوں سے تو یہی ہوتا ہے کہ عود ملاپ وغیرہ ہے۔
کما بین من قبل مبن اقوال علماء الکرام اور اس أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نُهُوا عَنِ النَّجْوَىٰ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُهُوا عَنْهُ سے یہ مطلب لینا کہ عود فی القول ہے۔ درست نہیں۔ اس لئے کہ اس میں کہاں لکھا ہے۔ کہ نحوی کرنے والے بعینہ پہلے نحوی کے لفظ دہراتے تھے۔ وہ تو منہی عنہ مطلق نحوی دوبارہ کرتے تھے۔ آج اور کیا اور کیا اور واقعات کے خیال سے یہ صحیح ہے۔ کہ دشمن کبھی کسی طرح بدمعاشی کا خیال کرتا ہے۔ کبھی کسی طرح اور اگر یہ ہوتا۔ کہ لفظ اعادہ کرتے تھے تو رسول اللہ ﷺ سائلوں سے دریافت فرماتے کہ تم نے دوسسری دفعہ الفاظ دہرائے یا نہیں۔ اور سوال کا کہیں پتہ نہیں چلتا خلاصہ یہ کہ عود فی الفعل ہے۔ واضح ہوکہ پرچہ 17 صفر 1337 ہجری میں جو ماں بہن کہنے کو طلاق قرار دیا تھا۔ خلاف ہے یہ ظہار ہے۔ فی القول نہیں۔ اور مصنفوں کی رائے بھی اس کی تایئد ہی کرتی ہے۔ مغلوب العقل غصہ کا اعتبار نہیں۔ باقی رہا متوسط اور ابتدائی اس میں اگر کہے گا۔ تو طلاق یہ معتبر نہیں کیونکہ ہوگا ۔
احناف کرام کے مسائل بے شک حنفیوں کے نزدیک انت علی مثل امی یاکامی کہے تو یہی ہے کہ اگر کرامت کا اراوہ کرے تو کرامت اور ظہار کا ارادہ کرے تو ظہار اور اگر طلاق کا ارادہ کرے تو طلاق بائن اوراگر کوئی نیت کرے تو کچھ نہیں۔ یہ مضمون ہدایہ میں ہے۔ اور ان کے نزدیک انت امی یعنی ماں بہن کہنے سے ظہار نہیں ہوتا۔ فتح القدیر میں لکھا ہے۔
ففي انت امي لا يكون مظاهرا
ان کے نزدیک کئی قسم کا اختلاف بھی ہے۔ کئی روایا موہوم ہیں کہ انت امی سے مظاہر بن سکتا ہے۔ مگر غالباً ان کے نزدیک اس لفظ سے ظہار نہیں۔ راقم ظہارثابت کرسکتا ہے۔ ان شاء اللہ اور انت امی یعنی ماں بہن کہنے سے ظہار ثابت نہ کرنا سہو ہے۔ جو شخص مقاصد اور معانی اور عرف وغیرہ کا امکان نظر سے خیال کرے۔ وہ اسی سے ظہار سمجھ سکتا ہے۔ سرورق پر اس کابیان کردیا ہے۔ فانظروا الیہ حنفی عرف کے قائل ہیں۔ فتویٰ نورالہدٰی میں ہے۔
قال صاحب الكتاب وهذا القول من محمد اصل جليل في الفقه وهو ان يعتبر في الفتيا لغه كلا بلاد وعادتة علي حسب ما تعارفوا واعتادط وتقا هما فما بينهم في عاداتهم وخطا باتهم ومقا لا تهم في الايمان وغير ذالك
پھر جب انت امی سے انت کظھرامی کا کام لیا جاتا ہے۔ عرفا تو انت امی کیوں ظہار نہ ہوگا واللہ اعلم بالصواب۔ (مولوی محمد حیدر صدیقی)(اخبار اہلحدیث امرتسر 27 دسمبر 1918ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب