السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں پاکستان آرمی کے ایک ادارے میں کام کرتا ہوں۔ یہاں جب کوئی افسر آتا ہے تو لازمی طور پر اسکے احترام کے لئے کھڑے ہونا پڑتا ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ مجھے اس صورتحال میں کیاکرناچاہئے؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!کسی شخص کی خاطر کھڑے ہوجانے کی تین صورتوں کا تذکرہ احادیث میں ملتا ہے ۔ پہلی صورت:مجلس میں ایک شخص یا کچھ افراد بیٹھے رہیں اور دوسرے لوگ محض ان کی تعظیم کے لیے بغیر کسی ضرورت کے بیٹھنے کی گنجائش ہونے کے باوجود کھڑے رہیں ۔ اس قیام کے حرام ہونے پر علماء کا اتفاق ہے ۔ اور صریح روایات اس کے حرمت کی توثیق کرتی ہیں ۔ «عَنْ جَابِرٍ قَالَ اشْتَکَی رَسُولُ اللَّہِ -صلی اللہ علیہ وسلم- فَصَلَّیْنَا وَرَاء َہُ وَہُوَ قَاعِدٌ وَأَبُو بَکْرٍ یُسْمِعُ النَّاسَ تَکْبِیرَہُ فَالْتَفَتَ إِلَیْنَا فَرَآنَا قِیَامًا فَأَشَارَ إِلَیْنَا فَقَعَدْنَا فَصَلَّیْنَا بِصَلاَتِہِ قُعُودًا فَلَمَّا سَلَّمَ قَالَ إِنْ کِدْتُمْ آنِفًِا لَتَفْعَلُونَ فِعْلَ فَارِسَ وَالرُّومِ یَقُومُونَ عَلَی مُلُوکِہِمْ وَہُمْ قُعُودٌ فَلاَ تَفْعَلُوا ائْتَمُّوا بِأَئِمَّتِکُمْ إِنْ صَلَّی قَائِمًا فَصَلُّوا قِیَامًا وَإِنْ صَلَّی قَاعِدًا فَصَلُّوا قُعُودًا» ( صحیح مسلم ، باب ائْتِمَامِ الْمَأْمُومِ بِالإِمَامِجابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیماری میں ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے اس طرح نماز ادا کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھے تھے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکبیر سنا رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے تو ہم کو کھڑے ہوئے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اشارہ فرمایا تو ہم بیٹھ گئے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے ساتھ بیٹھ کر نماز ادا کی جب سلام پھیرا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم نے اس وقت وہ کام کیا جو فارسی اور رومی کرتے ہیں کہ وہ اپنے بادشاہوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور وہ بیٹھا ہوتا ہے ایسا نہ کرو اپنے ائمہ کی اقتداء کرو اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز ادا کرو اور اگر وہ بیٹھ کر نماز ادا کرے تو تم بھی بیٹھ کر نماز ادا کرو۔ «عن أبی سفیان عنہ قال : " رکب رسول اللہ ( صلی اللہ علیه وسلم ) " فرسا بالمدینة فصرعه علی جذم نخلة فانفکت قدمه فأتیناه نعوده فوجدناه فی مشربة لعائشة یسبح جالسا قال : فقمنا خلفه فأشار إلینا فقعدنا قال : فلما قضی الصلاة قال : إذا صلی الإمام جالسا فصلوا جلوسا وإذا صلی الإمام قائما فصلوا قیاما ولا تفعلوا کما یفعل أهل فارس بعظمائها»أبو داود ( 602 ) والبیہقی ( 3 / 80 ) وأحمد ( 3 / 300 )شیخ البانی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک مر تبہ) مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھوڑے پر سوار ہوئے اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک درخت کی جڑ میں گرا دیا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں میں چوٹ آگئی تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عیادت کی غرض سے گئے۔ ہم نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں تشریف فرما ہیں اور بیٹھے بیٹھے تسبیح پڑھ رہے ہیں پس ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم کو (اپنے پیچھے کھڑے ہونے سے) منع نہیں فرمایا جب ہم دوسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عیادت کے لیے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرض نماز بیٹھ کر پڑھائی ہم لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم کو (بیٹھنے کا) اشارہ کیا تو ہم بیٹھ گئے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہو تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو اور جب امام کھڑا ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور تم ایسا مت کرو جیسا کہ اہل فارس اپنے بڑوں کے ساتھ کرتے ہیں (یعنی وہ بیٹھے رہتے ہیں اور لوگ کھڑے رہتے ہیں۔ «عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ قَالَ خَرَجَ مُعَاوِیَۃُ عَلَی ابْنِ الزُّبَیْرِ وَابْنِ عَامِرٍ فَقَامَ ابْنُ عَامِرٍ وَجَلَسَ ابْنُ الزُّبَیْرِ فَقَالَ مُعَاوِیَة لاِبْنِ عَامِرٍ اجْلِسْ فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ -صلی اللہ علیه وسلم- یَقُولُ مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَمْثُلَ لَه الرِّجَالُ قِیَامًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ» أخرجه البخاری فی " الأدب " ( 977 ).شیخ البانی نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ حضرت ابومجلز فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابن زبیر اور ابن عامر کے پاس آنے کے لیے نکلے تو ابن عامر معاویہ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوگئے اور ابن زبیر بیٹھے رہے تو معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ کیونکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوں تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ " قیام کے فرض ہونے کے باوجود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو قیام سے منع فرمادیا حالانکہ یہ بالکل واضح بات ہے کہ امام کے پیچھے مصلیین کا قیام اللہ کےلیے ہوتا ہے نہ کہ امام کے لیے لیکن اس کی ظاہری صورت کیونکہ فارس اور روم کے مشرکین سے میل کھاتی ہے اس لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ظاہری مشابہت کے اختیار سے بھی منع فرمادیا۔ اس سے اس معاملہ میں نہی کی شدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ البتہ سکیورٹی گارڈ وغیرہ اگر حفاظت کے پیش نظر ہتھیار کے ساتھ کسی شخص کے پیچھے کھڑے رہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ، کیونکہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب اللہ کے نبی کے خیمہ میں قریش کے سفیروں کی آمد ورفت جاری تھی تو حضرت مغیرۃ بن شعبہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تلوار لے کر کھڑے رہے ۔ دوسری صورت:کسی شخص کے مجلس میں داخلہ پر مجلس میں موجود لوگ بغیر کسی ضرورت کے محض آنے والے کی تعظیم کی خاطر کھڑے ہوجائیں .جیسا کہ ہمارے زمانہ میں عدالت کے کمرے میں جج داخل ہونے پر کمرہ میں بیٹھے لوگ اور استاذ کے کلاس روم داخلہ پر روم میں موجود طلباء کھڑے ہوجاتے ہیں ۔یا راستہ میں بیٹھے ہوئے لوگ راستہ سے گذرنے والے کسی شخص کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوجائیں۔ اس قیام کے لیے عربی میں قام لہ کے الفاظ آتے ہیں ۔ اس قیام کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ۔ ایک جماعت اس کی حرمت کی قائل ہے اور ایک جماعت اس کے جواز کی رائے رکھتی ہے ۔ دلائل کے اعتبار سے حرمت کا قول زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ ہم ذیل میں اس اختلاف کی کچھ تفصیل پیش کرتے ہیں ۔ حرمت کے دلائل :«عن أَنَسٍ قالَ: "لم یَکُنْ شَخْصٌ أَحَبّ إِلَیْہِمْ مِنْ رَسُولُ اللہ صلی اللہ علیه وسلم، قال: وَکَانُوا إِذَا رَأَوْہُ لَمْ یَقُومُوا لِمَا یَعْلَمُونَ مِنْ کَرَاہِیَتِہِ لِذَلِکَ »أخرجہ البخاری فی " الأدب المفردشیخ البانی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب کوئی شخص دنیا میں نہیں تھا اس کے باوجود پھر بھی وہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر اس لئے کھڑے نہیں ہوتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پسند نہیں تھا۔ (جواز کے قائلین اس حدیث کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تواضع قرار دیتے ہیں ۔ اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ: 1. قیام تعظیم سے اللہ کے نبی ؐکی کراہت شرعی کراہت تھی جس کی علت اس طریقہ کا مشرکین کے طریقہ تعظیم کے مشابہ ہونا ہے ،جیساکہ دیگر احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے ۔ 2. اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ یہ کراہت تواضع کی بنا پر تھی تب بھی کیا ہمارے لیے یہ مناسب نہیں کہ ہم تواضع میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ اقتدا فرمائیں ۔ اگر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین اور سید ولد آدم ہونے کے باوجود اس درجہ متواضع ہیں کہ اپنی تعظیم میں کسی کے کھڑے ہونے کو پسند نہیں فرماتے تو ہمارے لیے یہ کیسے مناسب ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے لیے اس چیز کو پسند کریں جس کو اللہ کے رسول اپنے لیے ناپسند فرماتے تھے ۔ کیا تواضع اور انکساری میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں ہمارے لیے اسوہ نہیں ہیں ؟ «عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ قَالَ خَرَجَ مُعَاوِیَة عَلَی ابْنِ الزُّبَیْرِ وَابْنِ عَامِرٍ فَقَامَ ابْنُ عَامِرٍ وَجَلَسَ ابْنُ الزُّبَیْرِ فَقَالَ مُعَاوِیَة لاِبْنِ عَامِرٍ اجْلِسْ فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ -صلی اللہ علیه وسلم- یَقُولُ مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَمْثُلَ لَه الرِّجَالُ قِیَامًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ »أخرجہ البخاری فی " الأدب (شیخ البانی نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔ حضرت ابومجلز فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابن زبیر اور ابن عامر کے پاس آنے کے لیے نکلے تو ابن عامر معاویہ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوگئے اور ابن زبیر بیٹھے رہے تو معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوں تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔ واضح رہے کہ حدیث کی نہی قیام تعظیم کی ان دونوں صورتوں کو شامل ہے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ حضرت معاویہ کے استدلال سے ظاہر ہے ۔ ایک اہم نکتہ :اس مسئلہ میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ قیام تعظیمی کے واجب یا مستحب ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں البتہ اسکی ممانعت کے دلائل موجود ہیں جن کے مفہوم میں اختلاف ہونے کی وجہ سے علماء کے درمیان اس کے جواز میں اختلاف ہے ۔ دین میں احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ اسے اختیار کرنے کے بجائے اسے چھوڑ دیا جائے ۔ «عن الحسن بن علی رضی اللہ عنہما قال حفظت من رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم دع ما یریبک إلی ما لا یریبک»حسن بن علی سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مشکوک چیز کو چھوڑ کر اس چیز کو اختیار کرو جو غیر مشکوک ہے (الترمذی والنسائی وابن حبان ، شیخ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے) بعض علماء کرام نے اہل علم و دین کےلیے قیام تعظیمی کو جائز اور ان کے علاوہ کے لئے ناجائز قرار دیا ہے ، بعض دوسرے اہل علم نے صرف والدین کے لیے قیام کو جائز قرار دیا ہے لیکن اس تفریق کےلیے کوئی دلیل شریعت میں موجود نہیں ۔ تیسری صورت:مجلس میں داخل ہونے والے شخص کے لیے کھڑے ہوجانے کی ایک صورت یہ ہے کہ آنے والے شخص سے مصافحہ کرنے ، معانقہ کرنے ، سواری سے اتارنے یا کسی جگہ بٹھانے یا اسی طرح کی کسی ضرورت کے لیے کھڑے ہوجایا جائے۔ اس کے لیے عربی زبان میں قام الی کا لفظ آتا ہے ۔ اس قیام کے جائز ہونے میں علماء متفق ہیں اور حدیث سے اس کے بہت سارے دلائل ملتے ہیں ۔ «عَنْ عَائِشَة بِنْتِ طَلْحَة عَنْ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ عَائِشَة رضی اللہ عنها أَنَّہَا قَالَتْ مَا رَأَیْتُ أَحَدًا کَانَ أَشْبَہَ سَمْتًا وَہَدْیًا وَدَلاًّ - وَقَالَ الْحَسَنُ حَدِیثًا وَکَلاَمًا وَلَمْ یَذْکُرِ الْحَسَنُ السَّمْتَ وَالْهدْیَ وَالدَّلَّ - بِرَسُولِ اللَّہِ -صلی اللہ علیه وسلم- مِنْ فَاطِمَة کَرَّمَ اللَّہُ وَجْهها کَانَتْ إِذَا دَخَلَتْ عَلَیْه قَامَ إِلَیْها فَأَخَذَ بِیَدِہَا وَقَبَّلَها وَأَجْلَسَها فِی مَجْلِسِه وَکَانَ إِذَا دَخَلَ عَلَیْها قَامَتْ إِلَیْه فَأَخَذَتْ بِیَدِہِ فَقَبَّلَتْه وَأَجْلَسَتْه فِی مَجْلِسِها»سنن ابی داود، سنن ترمذی، شیخ البانی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔ حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے چال چلن، گفتگو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ حضرت فاطمہ کے کسی کو نہیں دیکھا جب وہ آپ کے پاس تشریف لاتیں تو آپ کھڑے ہوجاتے ان کی طرف ان کا ہاتھ پکڑتے انہیں بوسہ دیتے اور انہیں اپنی خاص نشست پر بٹھاتے اور جب آپ ان کے پاس تشریف لاتے تو وہ بھی آپ کی طرف کھڑی ہوتیں آپ کو بوسہ دیتیں اور آپ کو اپنی جگہ پر بٹھلاتیں۔ «أَبِی سَعِیدٍ الْخدْرِیِّ رضی اللہ عنه، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ بَنُو قُرَیْظَة عَلَی حُکْمِ سَعْدٍ، ہُوَ ابْنُ مُعَاذٍ، بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صلی اللہ علیه وسلم، وَکَانَ قَرِیبًا مِنْه، فَجَاء َ عَلَی حِمَارٍ، فَلَمَّا دَنَا قَالَ رَسُولُ اللہِ صلی اللہ علیه وسلم: قُومُوا إِلَی سَیِّدِکُمْ»حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ کہ سعد بن معاذ کی ثالثی پر جب بنو قریظہ رضامند ہو کر نیچے اترے آئے تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد کو بلوایا جو آپ کے قریب ہی مقیم تھے وہ گدھے پر سوار ہو کر آئے اور جب وہ نزدیک آگئے تو آپ نے فرمایا اپنے سردار کو اتارنے کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔(متفق علیہ) واضح رہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذکے لیے تعظیما کھڑے ہونے کا حکم نہیں دیا تھا۔ حضرت معاذ غزوہ احزاب میں تیر لگ جانے کی وجہ سے زخمی تھے اسی لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سہارا دے کر نیچے اتارنے کے لیے صحابہ کرام کو کھڑ ے ہوجانے کا حکم دیا تھا اس کی وضاحت مسند احمد کی اس حدیث سے ہوتی ہے ۔ «قوموا إلی سیدکم فأنزلوہ ، فقال عمر : سیدنا اللہ عز وجل ، قال : أنزلوہ ،فأنزلوہ »اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے سردار کے لیے کھڑے ہوجاو اور انہیں نیچے اتارو۔ حضرت عمرنے فرمایا ہمارا سردار اللہ ہے ۔ اللہ کے رسول نے فرمایا انہیں نیچے اتارو تو لہذا ان کو نیچے اتارا گیا ۔.أخرجہ الإمام أحمد ( 6 / 141 - 142 ) «حَتَّی دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا رسولُ اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - جَالِسٌ حَوْلَه النَّاسُ ، فَقَامَ طَلْحَة بْنُ عُبَیْدِ اللہِ - رضی اللہ عنه - یُهرْوِلُ حَتَّی صَافَحَنی وَہَنَّأَنِی ، واللہ مَا قَامَ رَجُلٌ مِنَ المُهاجِرینَ غَیرُہُ - فَکَانَ کَعْبٌ لا یَنْسَاها لِطَلْحَة »کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں مسجد میں گیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے اور دوسرے لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے طلحہ بن عبیداللہ مجھے دیکھ کر دوڑے مصافحہ کیا پھر مبارک باد دی مہاجرین میں سے یہ کام صرف طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا اللہ گواہ ہے کہ میں ان کا یہ احسان کبھی نہ بھولوں گا-(بخاری :٤٤١٨) ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتاویٰ ثنائیہجلد 2 |