السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سمی عبد العزیز نے اپنی بیوی کو ایک جلسہ میں دو طلاقیں دیں۔ دونوں میاں بیوی بہت شرمندہ ہیں مذہب حنفی رکھتے ہیں۔ علماء احناف کے پاس جب فتویٰ گیا۔ تو بعد تین ماہ کے جواب آیا۔ کہ بغیر حلالہ کے جائز نہیں ہے۔ اب بے چارہ عبد العزیز اہلحدیث کے پاس آیا ہے۔ اورحالت یہ ہے کہ جیسے طلاق دیا ہے۔ دونوں میاں بیوی کا ایک ہی مکان میں حسب دستورسابق میں جس کو آج نو ماہ ہوگئے ہیں۔ اسی تاریخ سے عبد العزیز کہتا ہے۔ کہ طلاق نہیں ہوا۔ ہمارا دل بھی شہادت دیتا ہے۔ مگر شک کی وجہ سے پریشان ہے۔ میاں بیوی دونوں تقریباً 40/40 سال کے ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ ان میں رجوع ہوسکتا ہے کہ نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حلالہ تیسری طلاق کے بعد ہوتا ہے۔ دوطلاقوں کے بعد چونکہ عدت گزرگئی ےہ اور عورت بائنہ ہوگئی ہے۔ اس لئے نکاح ثانی کرکے رہ سکتی ہے۔ واللہ اعلم۔ (اہلحدیث امرتسر 20 شوال 1364ہجری)
اس عنوان سے ایک مضمون رسالہ المسلم اگست میں میری نظر سے گزرا۔ جس میں ایڈیٹر المسلم (غاذی محمود صاحب)نے لکھا ہے۔ کہ حلالہ جو مسلمانوں میں مروج ہے۔ جس کو مفسرین نے لکھا ہے۔ قرآن مجید سے ثابت نہیں ہوتا۔ چونکہ آریوں کے منہ پر حلالہ حلالہ چڑھتا رہتا ہے۔ غالبا اس لئے ایڈیٹر المسلم نے نیک نیتی سے ا س کا انکار کردیا ہے۔ ہمیں اس سے تو مطلب نہیں کہ مروجہ حلالہ کیاہے۔ اور مفسرین نے کیا لکھا ہے۔ ہاں ہم قرآن مجید کا مطلب لفظوں میں بتاناچاہتے ہیں۔ تاکہ ہمارے دوست ایڈیٹر المسلم کو اور اس کے ناظرین اور دیگر ناواقفوں کو غلطی نہ لگ جائے۔ آیت زیربحث کے اصل الفاظ بہت ہیں۔
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّـهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّـهِ ﴿٢٢٩﴾ البقرہ....
اس آیت کا ترجمہ اور مطلب بتانے سے پہلے اس کی مختصر ترکیب کردینی ضروری ہے۔ کیونکہ جہا ں تک میں نے غور کیا۔ ایڈیٹر صاحب موصوف کو اس کی ترغیب پر غور نہ کرنے سے الجھن پیدا ہوئی ہے۔
آیت موصوفہ کے لفظ لا تحل میں جو نفی ہے۔ اس کی انتہا حتی تک ہے۔ کیونکہ لفظ حتی کسی کام یا چیز کی انتہا کےلئے ہے پس معنی آیت کے یہ ہیں۔
''اگر خاوند آخری طلاق دےدے۔ تو وہ عورت اس کو حلال نہیں ہے۔ اور اس عدم علت کی انتہا نکاح ثانی ہے۔ یعنی جب عورت نے نکاح ثانی کیا تو یہ عدم حلت جو لاتحل میں تھی ختم ہوگئی۔ اب اگر خاوند ثانی کسی وجہ سے طلاق دے دے تو پہلے خاوند کے ساتھ اس کا نکاح حرام نہیں۔ چنانچہ فرمایا۔
فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّـهِ ۗ
یعنی ’’اگر وہ خاوند ثانی طلاق دے تو ان دونوں (عورت اور سابق خاوند) کو نکاح کرکے مل بیٹھنے میں گناہ نہیں بشرط یہ کہ پہلے کی طرح بیگاڑ نہ کرنے کا گمان غالب ہو۔‘‘
اس آیت کوباقاعدہ علم نحو دیکھاجائے۔ تو مطلب بالکل صاف ہے۔ کہ جب کوئی عورت پہلے خاوند سے علیحدہ ہوکر اس درجے پر پہنچ جائے۔ کہ لا تحل لہ اس پرصادق آئے تو اس کی یہ عدم علت ابدی نہیں۔ بلکہ نکاح ثانی پر منتہیٰ اور ختم ہوجاتی ہے۔ پھر وہ خاوند اگر طلاق دے۔ توعدت طلاق گزار کر پہلے خاوند سے نکاح کرسکتی ہے۔ یہی حلالہ ہے۔ اور یہی نکاح ثانی ہے۔ جس پر ایڈیٹر صاحب المسلم کا یہ کہنا کہ
''کہ اس آیت میں بیو ی کے حقوق کی کماحقہ حفاظت کی گئی ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ خاوند کا اختیار بیوی پر اسی وقت تک ہے۔ جب تک کہ وہ اس کی بیوی ہے۔ جب اس نے اس کو طلاق دے دی۔ تو اس نے اپنے حقوق کو ضائع کردیا۔ یہاں تک کہ (غالبا یہ یہاں تک ۔ حتیٰ کے لفظ سے نکالا ہے۔ اہلحدیث) اگرعورت کی مرضی ہو تو وہ فورا(1) غیر مرد کے ساتھ شادی کرلے۔ طلاق دہندہ اس کو ایسا کرنے سے کسی صورت میں نہیں روک سکتا۔ (ص 26)
آیت موصوفہ کے الفاظ اور ترکیب کے ماتحت نہیں آسکتا البتہ ان کا اپنا مشورہ ہے۔ مختصر یہ کہ جو آیت میں حتیٰ ہے وہ انتہا ہے۔ اس عدم حلت کی جو پہلے تحل میں آئی ہے۔ اس کے بعد چونکہ نکاح ثانی خود مانع نکاح ہے۔ اس لئے اس دوسرے مانع کو فان طلقھا کہہ کررفع فرمادیا۔
مطلب آیت کا واضح لفظوں میں یہ ہے کہ بعد تیسری طلاق کے عورت مطلقہ پہلے خاوند پرحرام ہے۔ مگر یہ حرمت ابدی نہیں۔ بلکہ دوسرے نکاح تک اس کی انتہا ہے۔ اس کے بعد نکاح ثانی ہے۔ عارضی مانع ہے۔ جو طلاق ثانی کے رفع ہوسکتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عورت مطلقہ اگر نکاح ثانی نہ کرے۔ تو ساری عمر بھی پہلے خاوند سے نکاح نہیں کرسکتی۔ بلکہ لا تحل کے ماتحت رہ کر ابد آباد تک پہلے خاوند پرحرام ہے۔
نوٹ۔ یہ تو ہوا آیت کا مطلب باقی رہی اس کی حکمت اور آریوں کا اعتراض اور اسکا جواب۔ تو وہ کئی دفعہ زکر ہوچکے ہیں۔ اور ہوتے رہیں گے۔ ایڈیٹر صاحب مسلم ا س کو خوب جانتے ہیں۔ (اہلحدیث امرتسر 24 ستمبر 1915ء)
اس عنوان سے 24 ستمبر سن 15ء کے پرچے میں ایک مضمون درج ہوا ہے۔ جس میں غاذی محمودصاحب ایڈیٹر المسلم کا حلالہ مروجہ سے انکار اور اسے مفسروں کی رائے قرار دینے کا زکر ہے۔ اس میں تو شک نہیں کہ قرآن مجید سے حلالہ ہرگز ثابت نہیں۔ بلکہ قرآن کریم کی اصل تفسیر اور اس کی حکمت (یعنی حدیث رسول اللہ ﷺ ) میں حلالہ کرنے والے کو التیس المستعاد'' کہا گیا ہے۔ اورحلالہ کرنے والے پر ار جس کے لئے حلالہ کیا جائے اس پر لعنت کی گئی ہے۔
لعن الله المحلل والمحلل له
ہاں ایڈیٹر السملم نے یہاں ایک غلطی کی ہے۔ کہ اس کو عام طور پر مفسروں کی رائئے قرار دیا ہے۔ ان کو لازم تھا کہ ان مفسروں کا نام لیتے جنھوں نے اس کو اپنی تفاسیر میں لکھا ہے۔ میرا خیال ہے کہ شاید وہ کسی مفسر کو یہ پیش کرتے ہوئے نہ دیکھایئں گے۔ اس نے حلالہ مروجہ قرآن کی کسی آیت سے نکالا ہو۔ مولنا ثناء اللہ صاحب نے جوقرآن مجید کا مطلب مختصرلفظوں میں بتایا ہے۔ وہ بجائے خود صحیح ہے۔ مگر نہ اس سے کسی قسم کا حلالہ ثابت ہوتا ہے۔ اور نہ کچھ اور ثابت ہوتا ہے۔ ااس سے تو صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ تین طلاق کے بعد وہ عورت کسی دوسرے خاوند سے اپنی خوشی سے ہمیشہ کےلئے نکاح کرلے۔ اور پھر جب اتفاقا کسی وجہ سے اس کا دوسرا خاوند محض اپنی خوشی سے اسے طلاق دے۔ تو اس عورت کو اختیار ہے۔ چاہے کسی دوسرے سے نکاح کرے۔ اور چاہے وہ اپنے پہلے خاوند سے نکاح کرے۔
''حلالہ''برادران احناف کی ایجاد ہے۔ جس میں صرف چندون کے لئے یا بعض مقامات پرصرف ایک رات کےلئے ایک شخص محض اس لئے اس عورت سے نکاح کرلیتا ہے۔ کہ وہ پہلے خاوند کے لئے حلال ہوجائے۔ اوراسی فعل پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے۔ (خاکسار محمد یوسف فیض آبادی) (اہلحدیث 26 نومبر 15 ء)
از مولانا مولوی ابو تمیم محمدی حیدر آبادی
حدیث نمبر 1
ان النبي صلي الله عليه وسلم تزوج امراه من نسائه فانشرت علي راسه تمر عجوة رواه الخطيب عن عائشه مرفوعا وفي اسناده سعيد بن سلام كذاب والحديث باطل
ترجمہ۔ ’’آپﷺ نے عورتوں میں سے کسی عورت سے نکاح کیا۔ تو (لوگوں نے)کے سر پرسے کھجوریں عجوہ نثار کیں۔ اس حدیث کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعا روایت کیا ہے۔ اس کی اسناد میں سعید بن سلام کذاب ہے۔ اور حدیث جھوٹی ہے۔‘‘(لفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ ص 79)
حدیث نمبر 2
ان رسول الله صلي الله عليه وسلم حضرا ملاك رجل من انصار فانشرت الفاكهة والمسكر علي راسه وامرهم بالا نتهاب وقال انما نهيتكم عن نهبة العساكر رواه العقيلي عن عائشه مرفوعا وفي اسناده بشير بن ابراهيم الانصاري يروي الموضوعات
ترجمہ۔’’رسول اللہ ﷺایک مرد انصاری کی شادی میں تشریف لے گئے۔ میوہ اور شکر اس کے سر پر نصار کی گئی اور ان کو آپ ﷺنے لوٹنے کاحکم دیا۔ اور فرمایا۔ میں تم کو لشکریوں کے لوٹنے سے منع کرتا ہوں۔ اس کو عقیلی نے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعا روایت کیا ہے اور اس کی اسناد میں بشیر بن ابراہیم انصاری ہے جو جھوٹی روایتیں بیان کرتا ہے‘‘ (الفوائد المجموعہ ص 79)
حدیث نمبر 3۔
انه شهد رسول الله صلي الله عليه وسلم املاك رجل من الصحابه وضرب بالدف ونثر عليه الطباق علهيا فاكهه وسكر ثم زكر نهو الاول رواه الطبراني عن معاز مرفوعا وفي اسناده مجهولا ن رواه ابو نعيم من حديث انس وفي اسناده خالدين بن اسماعيل الانصاري يضع الحديث
ترجمہ۔ ’’آپﷺ اپنے اصحاب رضوان اللہ عنہم اجمعین میں سے ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شادی پرتشریف لائے۔ وہ دف بنائی گئی۔ اور اس پرکئی طشت جن میں میوے اور شکر تھی نثار کئے گئے پھر اس نے مثل اول کے زکرکیا۔ اس کو طبرانی نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعا روایت کیا ہے اس کی اسناد میں دو مجہول ہیں اور ابو نعیم نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کی مثل روایت کیا۔ اور اس کی اسناد میں خالد بن اسماعیل انصاری ہے وہ حدیثیں بناتا ہے‘‘(الفوائد المجوعہ فی احادیث الموضوعہ ص 79)
آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے۔
من كذب علي متعمدا فليتبوا متعمدة من النار (ترمذي مسلم)
’طجو مجھ پر عمدا ً جھوٹ باندھے۔ اس کو چاہیے کہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنا لے۔ ‘‘
اس لئے مسلمانوں کا اور خصوصا اصحاب الحدیث کا یہ فرض عین ہے۔ کہ اس رواج کی عمداً تردید کریں۔ اور اس اتمہام کو جو آپﷺ پر لگایا گیا ہے۔ دور کرنے کی سعی بلیغ کریں اس لئے کہ پیغمبر ﷺ سے غلط سلط اور جھوٹی احادیث کو دور کرنا اور غیر شرعی امور کو رفع کرنا رسم ورواج کی بیخ کنی کرنا۔ امور بدعیہ شرکیہ لغویہ سے عام افراد کو مجتنب رکھنے کی کوشش کرنا پیغمبر ﷺ کی مسنون زندگی کی ترویج وتبلیغ کرنا۔ جماعت اہل حدیث کا مفوضہ اور امتیازی کام ہے۔ یہ کس قدر تعجب اور حیرت کی بات ہوگی اگر ہمارے کان یہ سنیں اور ہماری آنکھیں یہ دیکھیں کہ اہل حدیث کی مجلس عقد میں مذکورہ بالا رسم بدعی پر عمل کیا جاتاہے۔ فافھم ولا تکن من الخاسرین۔ (اہلحدیث امرتسر 4۔ 29جمادی الثانی 1366ء)
------------------------------------------------
1۔ فورا نہیں بلکہ عدت گزارکر کیونکہ عدت گزرنے کا عام حکم آچکا ہے۔ والمطلقات يتربصن بانفسهن ثلثه قروء (اهلحديث)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب