سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(277) بغیر اجازت ولی پڑھایا گیا نکاح جائز ہے یا ناجائز ؟

  • 6869
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 2652

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری بیوہ لڑکی کا نکاح بغیر میری مرضی کے پڑھا دیا جو نکاح بغیر اجازت ولی پڑھایا گیا ہے جائز ہے یا ناجائز ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہر نکاح میں لڑکی کے ولی کی شرکت لازمی ہے۔ ا گر لڑکی مطلقہ یا بیوہ ہے۔ تو اختلاف کی صورت میں اس کی رائے کو ولی کی رائے پر ترجیح دی جائے گی بحکم حدیث شریف الشیبہ احق بنفسھا حنفیہ کے نزدیک ولی کی ضرورت نہیں واللہ اعلم۔ (اہلحدیث امرتسر 27 جمادی الاول 1364ہجری)

شرفیہ

صورت مرقومہ میں بحکموَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ ۔ الایۃ۔ وبحدیث

لانكاح الا بولي وشاهدين الحديث رواه احمد والاربعة وصححه ابن المديني ولترمذي وابن حبان واعلي بالا رسال وبحديث قال صلي الله عليه وسلم ايما امراة نكحت بغير ازن ولهيا فنكاحها باطل اخرجه الاربعة الاالنسائي وصححة ابو عوانة وابن الحبان والحاكم

(بلوغ المرام ص ٧٤) نكاح صحيح نہیں۔ اور بیوہ کی ترجیع مستلزم انعقاد نکاح نہیں اجازت ولی شرط ہے احق اسم تفضیل ہے حق ولی کا بھی ہے۔ (ابوسعید شرف الدین دہلوی)

لا نكاح الا بولي

میں نے عبد الجبار صاحب عمر پوری کا مضمون مندرجہ اخبار اہلحدیث 3 محرم الحرام 1331ہجری دیکھا۔ جس میں مولانا نے باکرہ وثیبہ کے ساتھ ولی کی شرط کو قائم فرمایا ہے۔ میں نے اپنے مضمون مندرجہ اخبار اہلحدیث 29 نومبر 1912ء میں امام دائود الظاہری رحمۃ اللہ علیہ  کے مذہب کو پسند کرتے ہوئے دو احادیث کی تطبیق سے نتیجہ نکا ل کر ظاہر یہ کہ مذہب کوراحج بتلایا تھا۔ اب مولانا کے مضمون اور خاکسار کے مضمون میں اس قدر فرق ہے۔ کہ میں صرف ثیبہ کے ساتھ ولی کی شرط کو رفع کرناچاہتا ہوں۔ اور مولانا باکرہ وثیبہ کے ساتھ شرط ولی کو قائم کرنا چاہتے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جب ولی ارکان صحت نکاح سے نہیں۔ جس کاثبوت خود مولانا کے مضمون سے ملتا ہے۔ جہاں مولنا نے آیت ۔ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ ۔ کی تفسیر وتشریح میں تحریر فرمایا ہے۔ کہ   ''وفعل نکاح کی نسبت عورت کی جانب کی گئی ہے۔ سو اس کی وجہ یہ ہے کہ نکاح بغیر عورت کی رضا مندی وخوشی کے نہیں ہوسکتا۔ کسی کو اس پر جبر کرنے کا استحقاق حاصل نہیں ہے۔ اس لئے اس کی جانب نکاح کی نسبت ہر طرح صحیح درت ہے '' آیت قرآنی اور مولنا کی تشریح سے ظاہر ہے۔ کہ عورت معاملہ نکاح میں خود مختار ہے۔ بغیر رضا مندی عورت کے نکاح نہیں ہوسکتا۔ اس کے خلاف منشاء کسی کو حق جبر بھی حاصل نہیں ہے۔ پس جب وہ مجبور نہیں ہوسکتی۔ تو ولی کی شرط کا قیام بھی لغو ہے۔ یہ کیا معنی کے جب عورت کی رضا مندی اور خوشی پرعقد موقوف ہو۔ اور پر اس کے ساتھ ولی کی قید بھی لگادی جائے۔ یہی ایک ایسی وجہ ہے۔ کہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  نے باکرہ اور ثیبہ کے ساتھولی کی قید کو مطلق نکال دیا۔ اکثر آئمہ کبار ودیگر اکابردین نے اس کو تسلیم کرلیا ہے۔ کہ ولی کی نکاح کی شرط نہیں اور نہ اس پر صحت نکاح موقوف ہے۔ میں نے اپنے سابقہ مضمون میں امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  کی عبارات کو اسی استدلال میں لکھا ہے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں۔

ليس الولي من الركان صهة الكاح بل من تمامه

یعنی ولی صحت نکاح کا رکن نہیں بلکہ ولی کی حاجت صرف اتمام مقصود کے لئے ہے۔ ''سراج الوہاج''میں نواب صدیق الحسن خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ  نے یہی لکھا ہے۔

قالو افكل امراة بلغت ذهبي اهق بنفسها من وليها وعقد ها علي نفسها النكاح صحيح وبه قال الشعبي والذهري قالوا وليس الولي من اركان صحه النكاح بل من تمام

یعنی علماء نے کہا کہ جو عورت بالغہ ہو۔ وہ اپنے نفس کی ولی سے زیادہ مستحق ہے کہ وہ اپناعقد خود کرالے۔ اور ایسا نکاح صحیح نہیں ہوگا۔ اور یہی امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ  امام شعبی دامام زہری رحمۃ اللہ علیہ  کا مذہب ہے اور شعبی و زہری وغیرہ نے کہا ہے کہ ولی ارکان صحت نکاھ سے نہیں بلکہ صرف اتمام حجت کے لیے ہے۔ )(اسی طرح امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی فرمایا ہے)غرض یہ مسلمہ ہے۔ کہ ولی صحت نکاح کی شرط نہیں۔ اسی وجہ سے مقدم عورت کی رضا مندی سکوت اور اجازت پر موقوف رکھا گیا ہے۔ ظاہر ہے ک عورت ولی کے مجوزہ شخص سے ناراض ہو تویہ نکاح درست نہیں ہوسکتا۔ پھرایسی حالت میں ولی کی قیدکیوں لگائی جائے۔ جو تشریح مولانا نے آیت مذکورہ کی کی ہے وہ ناقض وغیرہ کافی ہے۔ جس کی تکمیل میں میں نے یہاں تک کیا ہے۔ مگر اتنا تو میں ضرور کہوں گا کہ مولانا نے بھی اپنی عبارت میں عورت کی رضا مندی کو مقدم کرکے اس کو جبر وتعدی سے بری رکھا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ولی کی شرط کو قائم کرلینا البتہ محل اعتراض ہے۔ میں نے مضمون سابقہ میں ثیبہ کے ساتھ بنص صریح ولی کی شرط کو رفع کرتے ہوئے عقلا اس کی تجربہ کاری کی وجہ بتائی تھی۔ جس پر مولانا نے اعتراض کرکے دلیل پیش کی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک عورت کی شہادت نقصان کی وجہ سے نہیں لی جاتی۔ بلکہ دو عورتوں کی شہادت بمنزلہ ایک مرد کی گواہی کے ہوتی ہے۔ مگر مولانا نے اس ضرب المثل کا بالکل خیال نہ کیا۔ کے دیوانہ بھی اپنے مطلب کا سیانہ ہوتا ہے۔ شہادت کا قیاس انصان کے ذاتی نفع نقصان پر مبنی ہوتا ہے۔ اورشخص ثالث کےلئے شہود کی ہمدردی اس قابل نہیں ہوسکتی۔ کہ حاکم مجرد ایک عورت کی گواہی پر اعتماد کرلے ظاہر ہے کہ ذاتی نفع نقصان کو ایک حد تک مجنون بھی سمجھ بوجھ سکتا ہے۔

بعض معاملات میں ذاتی امور پر فوری تصفیہ کردیاجاتا ہے۔ مثلا اگر زانی خود کہہ دے کہ میں نے ذنا کیا ہے۔ تو وہ حدود یا رجم کا بلاضرورت شہود مستحق ہوجاتا ہے۔ اقبالی ڈگریئں برابر نافذ ہواکرتی ہیں۔ غرض یہ کہ مسئلہ شہود اور ہے۔ اور بحث نکاح اور اور اسکے قطع نظر تجربہ کاری سے میرا مقصود یہ نہیں کہ وہ عقل کی پختہ ہوجاتی ہے۔ بلکہ اس کا اپنے پہلے شوہر کے طرز معیشت اور طریقہ خانہ داری اور امور نفع ونقصان پر غور کرکے دوسرے خاوند کو اپنے اس تجربہ کے لہاظ سے خود بلادلی کے تجویز کرسکتی ہے۔ چنانچہ اس حدیث میں جابر صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ثیبہ کے جس تجربہ کااظہار کررہا ہے۔ وہی مرا مقصود اصلی ہے۔

 عن جابر بن عبد الله رضي لله عنهما ان عبد الله هلك وترك تسع بنات او قال سبع بنات فتزوجت امراة شيبا فقال في رسول الله صلي الله عليه وسلم يا جابر في تزوجت قال قلت نعم ال فبكر ام شيب قال قلت بل شيب يا رسول الله قال فهلا جارية تلاعبها وتلاعبك او قال تضاحكها وتضاحك قال قلت له ان عبدالله هلك وترك تسع بنات او سبع بنات واني كرهت ان اتيتهن او اجيثهن بمثلهن فاحببت ان اجي بامراة تقوم علهين وتصلهن قال فبارك الله لك او قال لي خيرا

خلاصہ اس حدیث کا یہ ہے۔ کہ ’’حضور ﷺ نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ تم نے ایک باکرہ لڑکی سے عقد کیوں نہ کرلیا۔ جو تم اس سے ہنستے کھیلتے اور وہ تم سے ہنستی کھیلتی جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ عبد اللہ نے 9 یا 7 لڑکیاں چھوڑ کرانتقال کیا ادن کی پرورش اور اصلاح حال وبہبودی کے لئے ایک تجربہ کار ثیبہ کے عقد ہی کو میں نے پسند کیا۔‘‘

اس حدیث کے ملاحظہ سے واضح ہوگیا۔ کہ میں نے مضمون سابقہ میں جس ثیبہ کے تجربہ کاری کا اظہار کیا ہے۔ اس سے میرا مطلب یہی ہے۔ اس حدیث میں باکرہ اور ثیبہ کے تجربہ وعدم تجربہ کا ایک حد تک پتہ بھی چلتا ہے۔ اسی وجہ سے ارشاد نبوی ﷺ ہے۔

والبكر تستاذن اور الشيب احق بنفسها من وليها

اور اگر بالفرض محال موافق فرما ن مولانا صاحب ان کے نقصان عقل کو تسلیم کرلیں تو پھر ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ کہ عورت کی رضا مندی کیوں مقدم رکھی گئی ہے۔ اور وہ اولیاء سے اس کے خلاف منشاء بھی کیوں مجبور ومقہور نہیں ہوتی۔ جب اس طرح نہیں تو یہ بھی ہرگز نہیں ہوسکتا۔ کہ زاتی اور نفسی معاملہ میں نظیرا مسئلہ شہود پیش کیا جائے اور نقصان عقل کی مثال دی جائے۔ اس بحث کے بعد میں یہ عرض کروںگا۔ کے ان امور متناذعہ کا تصفیہ امام دائود ظاہری رحمۃ اللہ علیہ  کے مذہب پر بطور کافی ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ میں نے پرچہ 29 نومبر 1912ء میں عرض کردیا ہے۔ کہ دو احادیث کی تطبیق سے نتیجہ صاف نکلتا ہے۔ کہ باکرہ اپنی کم سنی اور اپنے ماں باپ کے لاڈ پیار اور عدم تجربہ کے لہاظ سے گو اس کی بھی اجازت چاہیے۔ جو محض سکوت پر مبنی ہے۔ مگر دل کی شرط ضرور ہے۔ جس میں لا نکاح الا بولی۔ ولبکر تستاذن۔ فرمان نبوی ﷺ کی تعمیل ہوجاتی ہے۔ ارثیبہ بوجہ اس کے کہ وہ پہلے خاوند کی سر دو گرم طبعیت سے واقف ہے اور وہ اپنی ذات کےلئے خوب انتخاب کرسکتی ہے۔ جو الثیب احق بنفسھا من ولیھا کو شامل ہے۔ محدثین کی شان یہ ہے کہ جب احادیث دو معنی پر ایک ہی نوعیت کی ہوں۔ تو اس میں تطبیق دی جائے۔ مگر مولانا نے تطبیق کا لہاظ نہ فرمایا ناظرین اخبار 29 نومبر 1913ء کوجس میں میرا پہلا مضمون ہے۔ اس مضمون کے ساتھ پڑھیں۔ خدا نے زندہ رکھا تو ان شاء اللہ اس پرااور روشنی ڈالی جائےگی۔ فقط۔ راقم ابو نعیم۔ محمد عبد العظیم حیدر آبادی )(اہلحدیث 5 ربیع الثانی 1331ہجری)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 277

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ