السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
شرع شریف میں حلالہ کس کو کہتے ہیں۔ ہمارے بعض علاقوں میں مروجہ حلالہ عمل میں لاتے ہیں۔ کسی کےلئے حلالہ کرتے ہیں۔ بعض مفتی اس پرجواز کا فتویٰ دیتے ہیں آیا یہ جائز ہے یا نہیں؟اگر جائز ہے تو حدیث
لعن رسول الله صليٰ لله عليه وسلم المحلل ولمحلل له
كا كيا مطلب ہے۔ ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حلالہ مطلقہ عورت کسی دوسرے خاوند سے نکاح کرنے اور پھر اس سے طلاق یا موت زوج کی وجہ سے علیحدہ ہوکر پہلے ذوج مطلق کے لئے حلال ہوجاتی ہے اس کانام ہے۔ لیکن ذوج اول یا زوجہ یا اس کے کسی ولی کی طرف سے زوج ثانی سے یہ شرط کرنی کہ وہ طلاق دے دے اور زوج ثانی کا اس شرط کو قبول کر کے نکاح کرنا یہ حرام ہے اس میں فریقین پرلعنت کی گئی ہے حدیث جو سوال میں مذکور ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ تحلیل کی شرط کرکے نکاح کرنا موجب لعنت ہے ۔ (نکاح محمدی ص 71 تا 80) (محمد کفایت اللہ عفا عنہ ربہ مدرسہ الصیغیہ دھلی۔ )(منقول از اخبار الجمعیۃ دھلی جلد نمبر 14 ۔ 44 مورخہ 6 شعبان المعظم 1350 ء۔ 16دسمبر 1931ء)
ہفتہ دو ہفتے میں ایک باریہ واقعہ ضرور سامنے آتا ہے۔ کہ کوئی مسلمان غصہ میں یا بغیر غصہ کے ہی سہی ایک جلسہ میں تین بار طلاق دیتا ہے یا حمل یا ماہواری کے زمانہ میں طلاق دیتا ہے۔ تو ان تمام حالتوں میں بعض مولوی طلاق بائن کا فتویٰ لگادیتے ہیں۔ جو بالکل غلط ہوتا ہے۔ چند باتیں یاد درکھئے۔
1۔ غصے کی طلاق سرے سے ہی طلاق ہوتی ہی نہیں۔ لہذا رجوع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
2۔ ماہواری کے ایام میں بھی طلاق طلاق نہیں ہوتی۔ طہر کی حالت شرط لازم ہے۔
3۔ اگر ایک صحبت میں تین طلاقیں دے۔ تو وہ ایک طلاق رجعی مانی جائے گی۔ رجعی سے یہ مطلب ہے کہ شوہر اس طلاق کو واپس لے کر پھرمیاں بیوی کے تعلقات قائم کرسکتا ہے۔ 4۔ اگر بزریعہ خط طلاق دی ہے۔ تو خواہ مضمون میں کتنی ہی سختی کی گئ ہو۔ تو ایک ہی رجعی طلاق مانی جائےگی۔ جسے واپس لیا جاسکتا ہے۔ نیز خط کا مضمون اسی طرح صاف ہوا کہ ''کہ میں فلاں بنت فلاں کو طلاق دیتاہوں'' خط غصے میں نہ لکھا ہو اور حالت طہر میں پہنچے۔
5۔ اگررجوع کرنے اتنی دیر کی کہ عدت کی مدت سے زیادہ وقت گزر گیا تو ایسی حالت میں تجدید نکاح کا حق ہے یعنی دو گواہوں کے سامنے ایجاب وقبول ہوجائے اگر عورت دور ہے تو تجدید نکاح بغیر سفر کیے بذریعہ وکیل کہا جاسکتا ہے۔
6۔ ایک اور اصولی بات یاد رہے کہ اگر طلاق کے شرعی طریقہ میں کوئی شبہ کی بات ہے۔ توشبہ کافائدہ طلاق کے خلاف ہوگا نہ کہ طلاق کے حق ہیں۔
(حافظ علی بہادرخان۔ ایڈیٹر روزنامہ ھلال نو بمبئی ۔ اخبارحلال تو 11 دسمبر 1953ء)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں۔ اور تیسری طلاق دینے کے ساتھ ہی ساتھ یہ کہا کہ میں تیسری طلاق تاکید کے ساتھ دے رہا ہوں کیا اس صورت میں زید رجوع کرسکتا ہے۔ ؟بینوا توجروا۔
الجواب
صورت مسئولہ میں اس کی تصدیق فیما بینہ وبین اللہ کی جائے گی۔ جیسا کہ در مختار میں ہے۔
لفظ الطلاق وقع الكل وان نوي اكتا كيد دين
اس قول کی بناء پر زید اپنی بیوی سے رجوع کرسکتا ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم سید حفیظ اللہ الدین احمد غفرلہ امام مسجد رنگریزاں باڑہ دھلی)
اگر تیسری طلاق تاکید کی نیت سے دی تھی۔ تو تین طلاقیں عند اللہ نہ ہوں گی۔ اور خاوند رجوع کرسکتا ہے مگر اس کو کوئی یہ حکم نہیں دے سکتا۔ (محمد کفایت اللہ دھلی۔ مطبوعہ اخبار اہل حدیث دھلی 10 نومبر 1951ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب