السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرح متین مسائل مندرجہ زیل میں کہ زید حنفی المذہب نےاپنی بیوی ہندہ کو ایک مجلس میں بحالت غیض وغضب ومرض بیک زبان تین طلاقیں دے دیں۔ پھر پچھتاوا اور نادم ہوا کہ گھر ویران اور بچے در بدر ہوجایئں گے۔ اشدضرورت میں مفتی اہلحدیث سے فتویٰ طلب کیا۔ چنانچہ مفتی مذکور نے اس کو فتویٰ دیا کہ یہ ایک ہی طلاق واقع ہوئی ہے۔ زید نے رجوع کرلیا۔ اس پر بعض ایسے علماء نے جن کی رائے یہ نہ تھی۔ مفتی اہلحدیث پر انقطاع تعلقات کافتویٰ دیا۔ اور عوام میں ا س امر کو مشہور کیا۔ کہ یہ کافر ہے۔ آیا یہ فتویٰ صحیح ہے۔ کہ اس فتویٰ کی بنا پر مفتی اہلحدیث قابل مقاطعہ ار اخراج از مسجد ہے۔ نیز آیا آئمہ حضرات آئمہ مقتقد مین وآئمہ ہدی میں سے بھی کوئی اس کا قائل تھا یا نہیں؟
سوال دوم۔ فروعی مسائل مں اختلاف کی وجہ سے زید وعمر کو مسجد می آنے سے روکتا ہے۔ اور جنازہ وغیرہ میں شرکت سے مانع ہوتا ہے۔ اور لوگوں سے کہتا ہے کہ عمر بکر وغیرہ سے ملنا جلنا اور ا س کے ساتھ کھانا پیناحرام ہے۔
فروعی مسئال میں اختلاف کی بنا پر محدثین کرام ار آئمہ دین عظام کے حق میں سخت بے ادبی وہتک آمیز کلمات کہتا ہے۔ لہذ ا اسے ذید کےلئے شرعا کیا حکم ہے۔ ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بعض سلف صالحین اور علمائے متقدمین میں سے اس کے بھی قائل ہیں۔ کہ صورت مرقومہ میں ایک ہی طلاق پڑتی ہے۔ اگرچہ آئمہ اربعہ میں سے یہ بعض (1) نہیں ہیں۔ لہذا جس مولوی صاحب نے مفتی اہل حدیث پر جو فتویٰ دیا ہے یہ غلط ہے اور مفتی اہلحدیث پر اس اختلاف کی بنا ء پر کفر ومقاطعہ واخراج از مسجد کا فتویٰ غیر صحیح ہے۔ بوجہ شدت ضرورت وخوف مفاسد کے اگرطلاق ثلاثہ دینے والا ان بعض علماء کے قول پر عمل کرلے گا۔ جن کے نزدیک اس واقعے مرقومہ میں ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے۔ تو خارج مذہب حنفی سے نہ ہوگا۔ کیونکہ فقہاء حنفیہ نے بوجہ شدت ضرورت کے دوسرے امام کے قول پر عمل کرلینے کو جائز لکھا ہے۔
2۔ فروعی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے زید کا عمر و کو مسجد میں آنے سے روکنا اور نماز جنازہ وغیرہ میں شرکت سے مانع ہونا ناجائز ہے ۔ اوراسی فروعی اختلاف کی وجہ سے بعض علمائے محدثین یا دیگر علماء کی توہین کرنا سخت گناہ کبیرہ ہے۔ اورتوہین کرنے والے زید وغیرہ کےلئے چاہیے کہ بہت جلدی توبہ کرلیں۔ (حبیب المرسلین نائب مفتی مدرسہ لعینیہ دھلی ۔ )
ایک مجلس میں تین طلاق دینے سے تینوں طلاقیں پڑ جانے کا مذہب جمہور علماء کا ہے۔ اور آئمہ اربعہ اس پر متفق ہیں۔ اور آئمہ اربعہ (2) کے علاوہ بعض علماء اس کے قائل ضرور ہیں کہ ایک رجعی طلاق ہوتی ہے۔ اور یہ مذہب اہل حدیث نے بھی اختیار کیا ہے۔ او ر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور طائوس اور عکرمہ اور ابن اسحاق سے منقول ہے۔ پس کسی اہل حدیث کو اس حکم کی وجہ سے کافر کہنا درست نہیں اور نہ وہ قابل مقاطعہ اور نہ مستحق اخراج عن المسجد ہے۔
ہاں حنفی کا اہلحدیث سے فتویٰ حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا تو یہ بااعتبار فتویٰ ناجائز تھا۔ لیکن اگر وہ بھی مجبوری اور اضطرار کی حالت میں اس کا مرتکب ہوا تو قابل درگزر ہے۔
--------------------------------------------------
1۔ مفتی صاحب کو شاید یہ خیال نہیں رہا کہ آئمہ اربعہ میں سے بعض کا قول ایسی طلاق پر واحد رجعی کا بھی ہے مولنا عبدالحئی صاحب لکھنوی حاشیہ شرح وقایہ میں فرماتے ہیں۔ القول الثاني انه ازا طلق ثلاثا تقع واحدة رجعية وهذا هو المنقول عن بعض الصحابه وبه قال دائود الظا هري واتباعه وهو احد القولين لمالك وولبعض اصحاب احمد (ص٦٧ جلد ثاني حاشيه شرح وقايه) مطلب یہ ہے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے دو قولوں میں سے ایک قول ہی ہے کہ تین طلاق بیک وقت دی جایئں وہ دراصل شمار میں ایک ہی ہوگی اور عدت کے اندر رجوع ہوسکتا ہے۔ بلکہ اور آئمہ کا بھی یہی قول ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔
2۔ آئمہ اربعہ میں سے امام مالک کا بھی ایک قول ہے کہ طلاق رجعی پڑتی ہے۔ جیسا کہ مولانا عبد الحئی صاحب لکھنوی نے اختلاف آئمہ شرح وقایہ ص 67 ج2 پر زکر فرمایا ہے۔ اور دیگر آئمہ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔ جیسے کہ اس میں تفصیل گزر چکی ہے۔ 12۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب