سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(265) ایک مجلس کی تین طلاق کے بعد یہ نکاح رہا یا نہیں؟

  • 6857
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 11342

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید نے مورخہ یکم اکتوبر کا لکھا ہوا طلاق نامہ جس میں تین طلاقیں تحریر تھیں۔ بکر کی معرفت اپنی منکوحہ بیوی کو بھیجا۔ اور بکر ساتھ یہ ہدایت لکھی یہ کہ طلاق نامہ جاکر میری بیوی کو دے دے مگر بکر نے کسی وجہ سے وہ طلاق نامہ اس کی بیوی کو نہیں دیا۔  بلکہ چند یوم کے بعد بکر نے اپنے ایک نزدیکی رشتہ دار سے زکر کیا اور اسی دوران لڑکی کوبھی اس کے طلاق نامے کا علم ہوگیا۔ طلاق نامہ کی تاریخ سے تقریبا ایک ماہ بعد زید کاایک خط بکر کو موصول ہوا۔ جس میں تحریر تھا۔ کہ ''اگر  تم نے طلاق نامہ میری بیوی کو نہ دیا ہو تو وہ ابھی مت دینا میں کچھ روپیہ آپ کے پاس بھیج رہا ہوں۔ وہ آپ میری بیوی کو دے دیں۔ میں نے اس وقت اشتعال میں وہ طلاق نامہ لکھ دیا تھا۔ جس سے میں خود نادم ہوں۔ اس دوران رشتہ داروں کی یہ کوشش رہی ہے کہ زید اپنی بیوی کو اپنے پاس بلالے مگر تیرہ سو میل کا فاصلہ تھا اس خیال سے کہ سفر خرچ بہت ہوگا زید بلاتا نہیں تھا۔ آخر خود رشتہ داروں نے بیوی کو زید کے پاس بھجوادیا۔ اب میاں بیوی راضی خوشی ہیں یہ نکاح رہا یا نہیں رہا۔ ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

محدثین کے نزدیک ایک مجلس میں دی ہوئی تین طلاقیں ایک طلاق رجعی کا حکم رکھتی ہیں۔

 لحديث ابن عباس كان الطلاق علي عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم وابي بكر وسنتين من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة (مسلم)

یعنی ’’آپ ﷺ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانوں میں تین طلاقیں مجلس واحد میں ایک سمجھی جاتی تھیں۔ ‘‘

مندرجہ سوال واقعہ میں تین طلاقیں مجلس واحد میں دی تھیں۔ اس لئے وہ ایک رجعی کے حکم میں ہیں۔ جس سے اس نے ایک ماہ بعد رجوع کرلیا۔ چنانچہ اس نے بیوی کوخرچ بھیجا اب وہ میاں بیوی آپس میں راضی ہیں تو کوئی گناہ نہیں ہمیشہ سلوک سے رہیں۔ (اہلحدیث 6 مئی 1938ء)

اعتراض منجانب ''القاسم''امرتسر

بعض حضرات غیر مقلدین سے سنا گیا ہے کہ وہ کہا کرتے ہیں۔ کہ ہمارا قول آئمہ اربعہ میں سے کسی نہ کسی امام کے قول کے مطابق ہوتا ہے۔ لیکن یہاں تو ان خدا کے بندوں نے نہ صرف امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی مخالفت کی ہے۔ بلکہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے مقلدین کے بھی خلاف کیا ہے۔ کیونکہ یہ تمام بزرگان ملت تین طلاقوں کے وقوع کے قائل ہیں۔

جواب

یہی سوال مدت سے ہمارے ایک قصوری دوست بھی کیا کرتے ہیں۔ مگر ان کی نیت اور ایڈیٹر قاسم کی نیت میں فرق ہے۔ بہرحال سوال ایک ہے۔

گو ہمارے نزدیک یہ مسلم نہیں کہ کسی مسئلے کی صحت کےلئے یہ شرط ہو کہ آئمہ اربعہ میں سے کسی نہ کسی کے موافق ضرور ہو۔ بلکہ مسئلہ کی صحت کےلئے قرآن وحدیث کا ہونا کافی ہے۔ چاہے دنیا بھر کے امامان دین یا مجتہدان اساطین کے خلاف ہو۔ لیکن واقعہ کے اظہار کےلئے اور اڈیٹر قاسم کی معلومات میں اضافہ کےلئے ہم ان کو مطلع کرتے ہیں۔ کہ مسئلہ ھذا میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ بلکہ خود امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ صاحب کے اقوال بھی اہلحدیث کی تایئد میں ہیں۔ ملاحظۃ ہو۔ اغاثۃ اللفہان۔ مصنف حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ مطبوعہ مصر ص 153 سے 157 تک یہ صفحات دیکھ کر اپنے پرچے میں اعلان کیجئے کہ''ہم اپنے اعتراض کو واپس لیتے ہیں''(اہلحدیث 30 رجب 1342ء)

شرفیہ

قول مجیب مرحوم کے محدثین کے نزدیک ایک مجلس میں دی ہوئی تین طلاقیں ایک طلاق ر جعی کا حکم رکھتی ہیں ۔ بحدیث ابن عباسرضی اللہ تعالیٰ عنہ

لحديث ابن عباس كان الطلاق علي عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم وابي بكر وسنتين من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة (مسلم)

اس استدلال میں بچندہ وجوہ کلام ہے۔

اول۔ یہ کہ اس میں مجلس واحد کا زکر ہی نہیں۔ عام اس سے کہ مجلس ایک ہویاتین بلکہ اظہار ثلثہ ہوں۔ یا نہ اور جس روایت مسند احمد میں مجلس واحد کا زکر ہے۔ وہ صحیح نہیں اس کی سند بروایت عکرمہ عن عمران بن حصین ہے۔ جس کو محدثین حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے لکھا ہے۔ کہ ایسی روایت خصوصا صحیح نہیں ہوتی۔ ملاحظۃ ہو تقریب التہذیب

دوم۔ یہ کہ محدثین نے اس میں کلام کیا ہے۔ جس کی تفصیل شرح صحیح مسلم امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری وغیرہ میں ہے۔ خصوصاً میری کتاب ''کتاب الطلاق ''ملاحظہ ہو۔

سوم۔ یہ کہ ا س میں یہ تفصیل نہیں ہے۔ کہ یہ تین طلاقوں والے مقدمات رسول اللہ ﷺ اور شیخین کے سامنے پیش ہوکر فیصلہ ہوتا تھا اور یہ کسی روایت میں نہیں ہے ۔ واذ لیس فلیس۔

چہارم۔ یہ کہ حدیث صحیح مسلم کی ایسی ہے۔ جیسے دوسری حدیث صحیح مسلم کی جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی سے ہے۔

قال عطا ء قدم جابر بن عبد الله رضي الله تعاليٰ عنه معتمل فجئنا في منزله فساله القوم عن اشياء ثم زكر المتعته فقال نعم استمعنا علي عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم وابي بكر رضي الله عنه وعمر رضي الله عنه انتهٰي في روايه اخري بعده ثم نهانا عمر فلم نعد لهما اي متعته النساء متعته الحج (صحيح مسلم مع شرح نووي ص ١٥١ باب النكاح المتعته)

پس جو جواب اس جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی متعۃ النساء کے جواز عدم کا جواب ہے۔ وہی حدیث ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے۔ اگر یہ جائز ہے تو پھر متعۃ النساء بھی جائز ہے۔

پنجم۔ اس سے ثابت ہو ا کہ یہ تین طلاقیں بحکم واحد یا متعة النساء بالا بالا لوگ بے خبری کرتے رہے۔ جس کا علم نہ رسول اللہ ﷺ کو ہوا نہ شیخین رضوان اللہ عنہم اجمعین کو آخر میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم ہوا تو منع کردیا۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث پر محدثین نے اور بھی کئی وجوہ سے کلام کیا ہے۔ جس کی تشریح کچھ تو امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح صحیح مسلم میں کی ہے۔ کچھ اور بھی میں نے اپنی کتاب میں محدثین سے نقل کیاہے۔

ششم۔ محدثین کی طرف مجلس واحد میں تین طلاق کو ایک شمار کرنے کی نسبت میں بھی کلام ہے۔ یہ سخت مغالطہ ہے۔ اصل بات یہ ہے  کہ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  وتابعین وتبع تابعین  سے لے کر سات سو سال تک سلف صالحین صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہ ومحدثین رحمۃ اللہ علیہ سے تو تین طلاق کا ایک مجلس میں واحد شمار ہونا تو ثابت نہیں۔

من ادعي فعليه البيان بالبرهان ودونه خرط القتاد

ملاحظ ہو موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ صحیح بخاری سنن ابی دائود وسنن نسائی جامع ترمذی سنن ابن ماجہ و شرح مسلم۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ وفتح البیان تفسیر ابن کثیر۔ وتفسیر ابن جریر وکتاب الاعتبار للامام الحازمی فی بیان الناسخ والمنسوخ من الاثار اس میں امام حازمی رحمۃ اللہ علیہ نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مسلم کی اس حدیث کو منسوخ بتایا ہے۔ اور تفسیر ابن کثیر میں بھی الطلاق مرتان الایۃ کے تحت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو صحیح مسلم کی حدیث تین طلاق کے ایک ہونے کا راوی ہے۔ دوسری حدیث نقل کی ہے۔ جو سنن ابوداؤد میں باب نسخ المراجعہ بعد النطلیقات الثلاث بسند خود نقل کی ہے۔

ان ابن عباس رضي الله تعالٰٰي عنه ان الرجل كان اذا طلق امراته فهو اهق برجعتها وان طلقها ثلث ننسخ ذالك فقال الطلاق مرتان فامساك بمعروف او تسريح باحسان انتهي

(عون المعبود ص 235 ج2)

امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی طرح ص 101 جلد 2 میں باب منعقد کیا ہے۔ اور یہی حدیث لائے ہیں۔ اور دونوں اماموں نے اس پر سکوت کیا ہے۔ اور ان دونوں کے نزدیک یہ حدیث صحیح اور حجت ہے۔ جب ہی تو لائے ہیں۔ اور باب منعقد کیا ہے۔ اور ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے بی سند ابی دائود ونسائی وابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ وتفسیر ابن جریر وتفسیر عبد الحمید ومستدرک حالم وقال الصحیح اسناد الترمذی مرسلاد مسند اً نقل کرکے کہا ہے۔ کہ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث کو آیت مذکورہ کی تفسیر بتاکر اسی کو پسند کیا ہے۔ یعنی یہ کہ پہلے جو تین طلاق کے بعد رجوع کرلیا کرتے تھے۔ وہ اسی حدیث سے منسوخ ہے۔ پس یہ حدیث مذکورہ محدث ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ و ابن جریررحمۃ اللہ علیہ دونوں کے نزدیک صحیح ہے۔ جیسے کہ مستدرک حاکم صحیح اسناد لکھا ہے۔ اور قابل اعتماد ہے۔ اور امام فخر الدین رازی کی تحقیق بھی یہی ہے۔ اور امام ابو بکر محمد بن موسیٰ بن عثمان حاذمی نے کتاب الاعتبار میں اپنی سند سے نقل کر کے لکھا ہے۔

فاستقبل الناس الطلاق جديد امن يومئذ من كان منهم طلق لولو يطلق حق وقع الاجماع فسخ الحكم الول ودل ضاهر الكتاب علي نقيضو جاءت السنة مفره للكتب صفغة رفع الحكم الاول الخ

 ص ١-٣ اور خود علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے زادلمعاد مصری ص 354 جلد 2 میں لکھا ہے۔

تفسير الصحابي حجة وقال الحاكم هوعند نا مرفوع انتهي

اور جب مسلم کی ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث مذکور اجماع کے خلاف ہوئی۔ تو خود شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول سے بھی اس پر عمل نہ ہوناچاہیے۔ اس لئے کہ فتاویٰ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ جلد دوم ص 359 میں ہے ۔

الخبر الواحد اذا خالف المشهور المستفيض كان شاذا وقد يكون منسوخا انتهي وهذا كذالك خافهم وتدبر

اور سنن ابی داؤد کی نسخ کی حدیث کی سند میں راوی علی بن حسین اور حسین بن واقد پرجو علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اعتراض یا کلام کیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ علی بن حسین کو تقریب تہذیب میں صدوق یھم لکھا ہے۔ وہم کے باعث ابو حاتم نے اس کی تصنیف کی ہے۔ مگر امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ جو بڑے متشدد ہیں۔ انہوں نے اور دوسرے محدثین نے کہا ہے۔ لیس یہ باس اور وہم سے کون بشر خالی ہے۔ لہذا یہ کوئی جرح نہیں راوی معتبر ہے۔ خصوصا جب محدثین مذکور نے حدیث کو صحیح تسلیم کیا ہے۔ اور حسین بن واقد کو تقریب میں ثقۃ لہ اوہام لکھا ہے۔ اور یہ راوی رواۃ صحیح مسلم سے ہے۔ اور یحیٰ بن معین وغیرہ محدثین نے اس کو ثقہ بتایا ہے۔ ملاحظہ ہو میزان الاعتدال باقی رجال دونوں کےثقات ہیں۔ لہذا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ قابل عمل وحجت ہے۔ اور خود راوی ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فتویٰ بھی اس کی صحت کا موید ہے۔ ملاحظہ ہوموطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ۔

اور یہ لغو اعتراض کے یہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سہو ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سہو ہوگیا تھا۔ تو پھر ان کی مسلم کی حدیث بھی سہو ہے۔ فلاحجۃ فیہ۔ اور امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر کبیر میں آیت مذکورہ کی تفسیر میں بحث کرکے جو اپنی تحقیق لکھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ آیت الطلاق مرتان سے پہلے

وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ۚ﴿٢٢٨سورة البقرة....

اس کے بعد ہے۔ الطلاق مرتان۔ الایۃ اس سے ثابت ہوا کہ پہلی آیت مجمل مفتقر الي البين كا يلعام مفتقر الي المخصص تھی۔ کہ بعول مطلقین کو بعد طلاق حق استرداد یعنی رجوع ثابت تھا۔ عام اس سے کے ایک طلاق کے بعد ہو یا دو کے یانین کے پاس آیت اطلاق مرتان نے واضح کردیا۔ کے مطلق کو رجوع ایک یا دو طلاق کے بعد ہے۔ اس کے بعد نہیں۔ پھر آگے جامع ترمذی کی حدیث سے منع ثابت کیا ہے۔ اور بعض اصحاب تفسیر کبیر سے اپنے مطابق قول کے بعد ھذا ھو الاقیس الخ کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ اور یہ نہیں سوچتے کہ اس قول کو امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دوسرے سے نقل کرکے اس کا رد کیا ہے۔ ملاحظہ ہو۔ ص 248 ج2) اور وجوہ کلام میں سے وجہ ہفتم یہ ہے کہ محدثین نے مسلم کی حدیث مذکور کو شاذ بھی بتایا ہے۔

ھشتم۔ یہ کہ اس میں اضطراب بھی بتایا ہے۔ تفصیل شرع صحیح مسلم نووی فتح الباری وغیرہ معطلولات میں ہے۔

نہم ۔ یہ کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مسلم کی حدیث مذکور مرفوع نہیں یہ بعض صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کا فعل ہے۔ جس کو نسخ کا علم نہ تھا۔

دھم۔ یہ کہ مسلم کی یہ حدیث امام حاذمی وتفسیر ابن جریر و ابن کثیر وغیرہ کی تحقیق سے ثابت ہے کہ یہ حدیث بظاہرہ کتاب وسنت صحیحہ واجماع صحابہرضوان اللہ عنہم اجمعین وغیرہ آئمہ رحمۃ اللہ علیہ محدثینرحمۃ اللہ علیہ کے خلاف ہے۔ لہذا حجت نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مجیب مرحوم نے جو لکھا ہے۔ کہ تین طلاق واحد کی محدثین کے نزدیک ایک کے حکم میں ہیں۔ اور یہ مسلک صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہ  وتبع تابعین رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ آئمہ محدثین رحمۃ اللہ علیہ متقدمین کا نہیں ہے۔ یہ مسلک سات سو سال کے بعد  کے محدثین کا ہے۔ جو شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کے فتویٰ کے پابند اور ان کے متقد ہیں۔ یہ فتویٰ شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ نے ساتویں صدی ہجری کے اخیر یا اوائل آٹھویں میں دیا تھا۔ تو اس وقت کے علمائے اسلام نے ان کی سخت مخالفت کی تھی۔

نواب صدیق حسن خان مرحوم نے اتحاف النبلاء میں جہاں شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کے متفردات مسائل لکھے ہیں۔ اس فہرست میں طلاق ثلاثہ کا مسئلہ بھی لکھا ہے۔ اور لکھا ہے کہ جب شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  نے تین طلاق کی ایک مجلس میں ایک طلاق ہونے کا فتویٰ دیا۔ تو بہت شور ہوا شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے شاگرد ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ پر مصائب برپا ہوئے۔ ان کو اونٹ پرسوار کر کے درے مار مار کر شہر میں پھرا کر توہین کی گئی قید کئے گئے۔ اس لئے یہ کہ اس وقت یہ مسئلہ علامت روافض کی تھی۔ ص 318 اور سبل السلام شرح بلوغ المرام مطبع فاروقی دہلی ص 98 جلد 2 اورالتاج المکلل مصنفہ نواب صدیق حسن خاں صاحب صفحہ 286 میں ہے کہ امام شمس الدین زہبی باوجود شیخ الاسلام کے شاگرد اور معتقد ہونے کے اس مسئلہ میں سخت مخالف ہیں۔ التاج الکلل ص 388۔ 289)

ہاں تو جب کہ متاخرین علماء اہلحدیث عموما شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کےشاگرد ابن قیمرحمۃ اللہ علیہ کےمعتقد ہیں۔ اس لئے وہ بےشک اس مسئلے میں شیخ الاسلام سے متفق ہیں۔ اور وہ اسی کو محدثین کا مسلک بتاتے ہیں۔ اور مشہور کردیا گیا ہے کہ یہ مذہب محدثین کا ہے۔ اور اس کے خلاف مذہب حنفیہ کا ہے۔ اس لئے ہمارے اصحاب فورا اس کو تسلم کرتے ہیں۔ اور اس کے خلاف کو رد کردیتے ہیں۔ حالانکہ یہ فتویٰ یا مذہب آٹھویں صدی ہجری میں وجود میں آیا ہے۔ اور آئمہ اربعہ کی تقلید چوتھی صدی کی ہجری میں رائج ہوئی اس کی مثال ایسی ہے۔ جیسے بریلوی لوگوں نے قبضہ غاصبانہ کرکے اپنے آپ کواہلسنت والجماعت مشہور کررکھا ہے۔ اوروں کو خارج یا جیسے مولوی مودودی کی جماعت نے اپنے آپ کو جماعت اسلامی مشہور کردیا ہے۔ باوجود یہ کہ ان کا اسلام بھی خود ساختہ ہے جو چودھویں صدی ہجری میں بنایا گیا ہے۔

ولعل فيه كفاية لمن له دراية ۔ ۔ والله يهدي من يشاء الي صراط مستقيم يسئلونك احق هو قل اي وربي انه لحق

(ابوسعید شرف الدین دھلوی)

سوال۔

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں زید نے کہ اپنی زوجہ کو تین طلاقیں بیک جلسہ دیں پس یہ طلاق بائن ہو یا رجعی بینوا توجروا۔

الجواب۔

یہ طلاق رجعی ہوئی اس واسطے کہ ایک جلسہ میں تین طلاق دینے سے صرف ایک طلاق رجعی واقع ہوتی ہے۔ صحیح مسلم میں ہے۔

عن ابن عباس رضي الله تعاليٰ عنه قال كان الطلاق علي عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم وابي بكر وسنتين عن خلافة عمر طلاق الثلاث واحده فقال عمر بن الخطاب رضي الله تعاليٰ عنه ان الناس قد استعجلوا في الامر كانت لهم فيه اناة فلوا مضينا علهيم فاءضاي عليهم

اور مسند احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ میں ہے۔

عن ابن عباس رضي الله تعاليٰ عنه قال طلق ركانة بن عبد يزيد اخوبني المطلب امراة ثلاثاني مجلس واحد فخون عليها حزنا شديد اقال فساله رسول الله صلي الله عليه وسلم كيف طلقتها ثلاثا قال فقال في مجلس واحد قال نعم قال فانما تلك واحده فارجها ان شئت قال فراجها فكان ابن عباس رضي الله تعاليٰ عنه يدي انما الطلاق عند كل طهر قاقل ابن القيم في العالم المعوقعين ‘قد صحح الامام هذا الاسناد وحسنه وقال الحافظ في فتح الباري بعد زكر هذا لاحديث اخرجه احمد وابو يعلي وححه من طيق محمد بن اسحاق وهذا الحديث نص في المسئله لا يقبل التاويل الذي في غيره من الروايات انتهي

فان قلت قال الهافظ في الفتح ان ابودائود رجح ان وكانه نا طلق امراته البتته كما اخرج من طريق ال بيت ركانة وهو تعليل قوي لجوزان يكون بعض رواة حمل البهه علي الثلاث فقال طلقيها ثلاثا فبيذي الن;جج يفف الاستدلال بحديث ابن عباس رضي الله عنه انتهي

قلت قال ابن القيم في الااغاثه ان بادائعد انمار جع حديث البتته علي حديث ابن جريج لانه روي حديث ابن جريج من طريق فيها مجهول ولم يرو ابو دائود الحديث الذي رواه احمد في مسنده من طريق محمد بن اسحاق ان ركانة طلق امراته ثلاثافي المجلس واحد فلذرار حج ابودائود حديث البتته ولم يتعرض لهذا الحديث ولا رواة في سنة ولا ريب انه اصح من الحديثين وحديث ابن جريج شاهد له وعا ضه فاذا انصتم حديث ابي الصبهيا الي حديث ابن اسحاق والي حديث ابن جريج مع اختللافات مخاربها وتعدد طرقيها افاد العلم بانها اقوي من البته بلا شك ولا يكن من شم روائع الحديث ولو علي يرتاب في ذالك فكيف يقدم الحديث الضعيف الذي ضعفه الائمة ورواية مجاهيل علي هذا الهديث انهتي كلام ابن القيم رحمة الله عليه

(کتبہ محمد عبد الرحمٰن المبارک فوری عفی عنہ)(فتاویٰ نزیہ جلد ثانی ص 179 180)

تشریح مسئلہ طلاق ثلاثہ در مجلس واحد

از قلم حضرت مولانا ظفر عالم صاحب مدرس جامعہ محمدیہ مالگاؤں

ھو الموفق۔ ایک جلسہ میں دی ہوئی تین طلاق ایک ہوتی ہے۔ یا تین اس میں اختلاف ہے۔ حنفیہ ا س کو طلاق بدعی ماننے کے باوجود تین کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک ایسی مطلقہ حلالہ کئے بغیر شوہر اول کو نہیں مل سکتی۔ بلکہ وہ بائنہ ہوجائے گی۔ اور عورت سے رجعت نہ ہوسکے گی۔

مگر محدثین فقہائ اور علماء محقیقن کے نزدیک یہ ایک رجع طلاق ہوگی جس میں شوہر کو اندرون عدت رجعت کرلینے کا حق ہے۔ یہی مسلک صحیح اور قدیم ہے جو کتاب وسنت کے مطابق ہے۔ حضرات صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  تابعین تبع تابعین اور ان کے بعد والے بعض احناف وشوافع اور موالک وحنابلہ بلکہ خاندان نبوت کے جگر پارے اہل بیت اور صدہارجال علم صدی در صدی علمائے کبار اسی کے قاہل رہے۔ اور آج تک اسی پر مفتی حضرات فتوے دیتے رہتے ہیں۔

در اصل اس اختلاف کی اصل ابتداء عہد فاروقی میں ہوئی۔ ورنہ جب سے محبط وحی پر احکام طلاق کا نزول ہوا غالبا 15 ہجری؁ تک کو ئی اختلاف نہ تھا۔ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات 13 ہجری میں ہوئی۔ اور اسی سن میں خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سر پر آرائے خلافت ہوئے۔ مسلم شریف کی حدیث کی رو سے دو یا تین سال اوائل خلافت فاروقی میں بھی ایسی طلاقیں ایک ہی سمجھی جاتی تھیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ تین کا رواج 16 ہجری میں ہوا۔ مگر  ایسا کیوں ہوا اس کا جواب خود اسی حدیث میں مذکور ہے۔

فقال عمر ان الناس قد استعجل‘ا في امر كانت لهم فيه اناه فلوا مضيناه عليهم فامضاه علهيم

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا لوگ اس کام میں جلدی کرنے لگے ہیں۔ جس میں ان کو مہلت کرنا چاہیے تھی یعنی یہ لوگوں پر لازم تھا کہ طلاق عدت سے دیں۔ پس اس غلطی کو روکنے کےلئے اگر ہم طلاق ثلاثہ کا حکم نافذ ہی کردیں۔ تو لوگ فوری طلاق ثلاثہ دینے سے رک جایئں گے۔ چنانچہ آپ نے اس کو نافذ کردیا۔ یہ الفاظ بھی ہیں۔

فلما راي الناس تتابوا قال اجيز هن عليهم

آپ نے جب دیکھا کہ لوگ طلاقیں بہت دینے لگے ہیں۔ تو آپ نے ان پر تینوں کےنفاظ کا حکم صادر فرمادیا۔

اس بیان سے معلوم ہوا کہ وقتی روک  ھام کےلئے بطور سرزنش حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسا کیا مقصد اس سے یہ تھا کہ لوگ عورتوں کی مدامی جدائی دیکھ کر فوری طلاق ثلاثہ کے بول دینے سے رک جایئں گے۔ اوراصل شریعت الٰہی پر قائم رہ کر طلاق عدت سے دینے لگیں گے۔ خلیفہ ثانی کے تین کے نفاذ کی وجہ احناف بھی یہی مانتے ہیں۔

واعلم ان في الصدر از اول اذا ارسل الثلاث جمله لم يحكم الا بوقوع واحده الي زمن عمر رضي الله تعاليٰ عنه ثم حكم بوقوع الثلاثه لكثرة بين الناس تهديدا

یعنی صدر اول سے زمانہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک جب کوئی شخص تین طلاق ایک مجلس میں دیتا تھا۔ تو ایک ہی طلاق رجعی کے واقع ہونے کا حکمدیا جاتا تھا۔ پھر جب لوگوں نے اس میں کثرت کردی۔ تو ڈرانے کےلئے تین واقع ہونے کا حکمدیا۔ (مجمع الانہر ص 382) اور بھی سنیئے۔

انه كان في الصدر اول اذا ارسل الثلاث جمله لم يحكم الا بوقوع واحدة الي ذمن عمر رضي الله تعاليٰ عنه ثم حكم بوقوع الثلاثه سياسة لكثرته بين الناس

حاصل یہ ہے کہ عہد نبوی ﷺ وصدیقی میں ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک رجعی ہوتی تھیں۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو سیاسۃ تین قرار دیا۔ (طحاوی صفحہ 150)

مگر یہ بیان کسی حاشیہ کا محتاج نہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو کچھ کیا اجتہاد ۔ سیاست۔ اور تعزیر وتحدید کے خیال سے کیا۔ مگر بالا اخر خلافت کے آخری دور میں پچھتادے۔ چنانچہ حدیث کی بہت معتبرکتاب (مسند اسماعیل ) میں ہے۔

وقال عمررضي الله تعاليٰ عنه ما ندمت علي شي ندامتي علي ثلاث الا ان نكون حرمت الطلاق الخ

مجھے تین مسئلوں میں بڑی ندامت ہوئی جن میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے۔ (بحوالہ غافۃ الہان ص 181۔ ص 182)حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس مقولہ کے بعد اب کسی کو یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے۔ کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں اجماع ہوچکا اور نسخ ہوچکا لہذا اب تین طلاقوں کے بعد رجعت جائز نہیں۔ یہ کہنا سراسرغلط ہے۔ اس لئے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقیم الشریعت تھے۔ نہ کہ ناسخ الشریعت یہ بات صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کی شان میں گستاخی ہے۔ کہ وہ شریعت کے کسی مسئلے کو منسوخ کردیں۔ اوراجماع کی صورت اسی لئے نہیں کہ اگر تین پراجماع واتحاد اور اتفاق ہوتا تو صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین اور آئمہ عظام کے اقوال مختلف ومتناقض نہ ہوتے۔ جیسا کہ مطولات میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ دیکھو (نیل الاوطار جلد 6)ومسک الختام جلد 2 اور الروضۃ الندیہ جلد 2 ودیگر کتب (اغاثۃ اللفہان) و اعلام الموقعین وغیرہ۔

پس اندریں صورت حق یہ ہے کہ خلیفہ ثانی کا یہ فعل ایک وقتی تھا۔ نہ وہ واجب العمل ہوسکتا ہے۔ اور نہ قابل حجت بلکہ مسئلہ نزاعی میں حق دہی ایک طلاق رجعی ہے۔ کتاب وسنت میں بالکل واضح ا س پر دلائل موجود ہیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں مسئلہ طلاق کو قریب چودہ جگہ زکرکیا گیا ہے۔ مگر رجعت کو ہرطلاق میں مشروع فرمایا ہے۔ بجز طلاق ایسی صورت کے جس سے صحبت نہ ہوئی ہو یادوبارہ طلاق دے کر تیسری بار طلاق دی ہو۔ اور قرآن میں سوا ان دو صورتوں نے اور کوئی طلاق نہیں ونیز طلاق میں عدت کا مد نظر رکھنا واجب و لازم ٹھرایا ہے۔ بلحاظ عدت وطلاق نہ دیناحدود الٰہی سے تجاوز گناہ ہے۔

 وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ

’’جن کو طلاق دی گئی وہ رجوع کی امید کےلئے تین حیض تک انتظار کریں۔ اور ان تین حیضوں میں جو قریب تین مہینے ہیں۔ جن میں دو دفع طلاق واقع ہوگی۔ یعنی ہر حیض کے بعد خاوند عورت کو طلاق دے۔ اور جب تیسرا مہینہ آوے تو شوہر کو ہوشیار ہوجانا چاہیے۔ کہ اب یا تو تیسری طلاق دے کر احسان کے ساتھ دائمی جدائی ہے۔‘‘ یا تیسری طلاق سے رک جاوے۔ پس معلوم ہوا کہ یکبارگی تین طلاقوں بول دینے سے اگر تینوں واقع ہوجایئں اور عورت پہلے خاوند کی طرف رجوع نہ کرسکتی۔ تو پھر اللہ تعالیٰ کا تین حیض تک انتظار کروانا فوری مطلقہ ثلاثہ سے اٹھا دیتا۔ حالانکہ اس نے کسی جگہ ایسا نہیں فرمایا۔ بلکہ آیت۔

وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ

فروعہ میں صاف ظاہر کردیا۔ کہ تین حیض کامل کرنے تک مطلقہ پہلے شوہر سے رجوع کرسکتی ہے۔ اس حکم کی تعمیل میں آپﷺ نے در مجلس واحد تین طلاق دینے والے کو رجوع کرایا۔ چنانچہ (نسائی جلد 2 ص 95) میں ہے۔ کہ ایک شخص نے اپنی عورت کو تین اکھٹی طلاق دیں۔ اور یہ خبر جب آپﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ سخت ناراض ہوئے۔ کیونکہ حضور ﷺ تو رب کی طرف سے مبلغ اور مامور باقامت دینیہ تھے۔ اس واسطے غیض وغضب کی حالت میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا۔

ايلعب بكتاب الله وانا بين اظهر

(کیا میری موجودی میں کتاب اللہ سے تمسخر کیاجاتا ہے)

وقال اشوكاني في النيل ج ٦ ص ) عن ابن كثير انه قال اسناده جيد

اور ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے (بلوغ المرام رقم 1105 ص 324 ) میں کہا ہے۔ ورادتہ موثقون اور علامہ محمد حامد الفقی مازہری (تعلیق بلوغ المرام ص 225 میں رقم فرماتے ہیں۔

محمود بن لبيد ابي رافع الانصاري الشهلي

ور عہد آپﷺ مولود شدہ وحد یثہا از وے ﷺ روایت نمودہ۔ بخاری گفت اور اصبحت است۔ روایت مذکورہ میں اگرچہ طلاق دہندہ کا نام نہیں۔ مگر میں کہتا ہوں۔ ''شاید یہ'' رکانہ'' ہی ہوں۔ اسی لئے ہم نے پیچھے رجوع کا لفظ بولا ہے۔ اور اگر کوئی ددسراشخص ہے۔ تو پھر بھی گمان غالب قریب بہ یقین یہ ہے کہ آپ نے رجوع کا حکم دیا ہوگا۔ اسی لئے کہ یہ آپﷺ پر کسی طرح گمان نہیں کیا جاسکتا۔ کہ اس تمسخر عن کتاب اللہ کو جائز رکھیں۔

دوسری حدیث۔ عن ابن عباس رضي الله تعاليٰ عنه قال طلق ركانةل بن عبد يزيد اكو بني مطلب امراته ثلاثاني مجلس واهد فحزن عليها حزنا شديد اقال فساله رسول الله صلي الله عليه وسلم كيف طلقتها ؟ قال طلقتها ثلاثا قال فقال في مجلس واحد قال نعم قال فانما تلك واحدة فارجعها ان شئت قال فرجعها

يعنی ’’ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں۔ کہ رکانہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی عورت کو تین طلاق دی۔ آپ نے پوچھا کہ کیا ایک جلسہ میں؟انہوں نے کہا ۔ ہاں۔ آپ نے فرمایا ایک جلسہ کی تین طلاق ایک ہوتی ہے۔ لہذا اگر تہمارا دل چاہے تو رجوع کرلو۔ رکانہ نے رجوع کیا۔ (مسند احمد ج 1 ص 256)‘‘

یہ قصہ مختلف روایتوں اور متباین سندوں سے مذکور ہے۔ مگر یہ روایت اصح احسن اور واضح ہے۔ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے (اغاثہ اللفہان ص 156) میں نقل کیا کہ ضیا المقدمی نے اس کو اپنی کتاب ''ختارہ'' میں روایت کیا ہے۔ اور یہ کتاب مستدرک حاکم سے زیادہ صحیح ہے۔ اور نقل کیا ہے شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے (نیل جلد 6 ) میں کہ ابو یعلیٰ نے بھی اس کوروایت کیا اور صحیح کہا ہے ونیز نقل کیا ہے۔ جلا ل الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے (الدرالمنشور جلد 1 ص 275) میں اور اسی طرح آلوسی نے تفسیر جلد 1 ص 431) میں کہ بہقی نے بھی اس کوروایت کیا ہے۔ اور جصاص نے احکام القرآن میں جلد نمبر 1 ص 388 میں نقل کیا ہے۔ کہ ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا الثلاث تردد الی الواحدۃ اور اسی حدیث سے حجت فرماتے ہیں۔ غرض یہ ہے کہ یہ روایت صحیح ہے۔ اور دلیل ہے کہ پیغمبر ﷺنے تین مجمعوعی طلاقوں کو ایک رجعی قرار دیا ہے۔ قائلین ثلا ث کی کٹ حجتی متن وسند کے لہاظ سے پادر ہواہوگئی۔

علامہ محمد حامد الفقی الازہری تعلیقات بلوغ المرام رقم 1107 ص 225 میں فرماتے ہیں کہ ابن اسحاق انما يجهم بالتدليس اذا عنعن فقط والا فهوا مام ثقه یہ کہ ابن اسحاق جو مسند ہیں۔ اس حدیث کے راوی ہیں۔ اس وقت بتدلیس مہتم ہوتے ہیں۔ جب کے صرف عنعنہ سے روایت کرتے ہیں۔ ورنہ امام ثقہ ہیں۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ مسند احمد کی اس حدیث میں انہوں نے حدثنی کے ساتھ بیان ہے۔ اسی طرح ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ (اغاثہ ) میں فرماتے ہیں۔

وقد ذالت تهمته تدليس ابن اسحاق بقوله حدثني

یعنی تہمت تدلیس حد فنی سے جاتی رہی۔ مولوی امیر علی مرحوم (تعقیب التقریب ص 435 ) میں فرماتے ہیں۔  

محمد بن اسحاق الطلبي وثق وهو مدلس عنه مسلم مقرونا

حاصل یہ کہ ان کی روایتیں مسلم میں بھی ہیں پس حاصل یہ نکلا کہ یہ روایت صحیح ہے۔ اور تایئد میں دوسری روایت بھی ہے۔ اس لئے اعتراض کوئی گنجائش نہیں ہے۔

تیسری حدیث۔ عن ابن ابي مليكه ان ابا الجوزاء اتي ابن عباس رضي الله تعاليٰ عنه فقال اتعلم ان ثلاثا كن يردون علي عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم الي واحده قال نعم قال الحاكم هذي حديث صحيح الاسناد

 ابو الجوزا ء نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ تین طلاق ایک تھی۔ حضور ﷺ کے عہد مبارک میں فرمایا ہاں ۔ (مستدرک حاکم جلد 2 ص 196) حاکم نے اس حدیث کو صحیح الاسناد کہا ہے۔ علامہ سید احمد شاکر لکھتے ہیں۔

وفي اسناده عبد الله بن المومل تكلم فيه بعضهم والحق انه ثقه

یہ کہ عبد اللہ بن مومل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں بعض نے کلام کیا ہے۔ مگر حق یہ ہے کہ وہ ثقہ ہیں۔

چوتھی حدیث۔ عن ابن عباس رضي الله تعاليٰ عنه كان الطلاق علي عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم و ابي بكر وسنتين من خلافة عمر رضي الله عنه طلاق الثلاث واحدة فقال عمر رضي الله عنه بن خطاب ان الناس قد استعجلوا في امر قد كانت لهم فيه اناءة فلو امضينا ه علهيم فامضاه علهيم رواه احمد في المسند (درقم ٢٨٧٧ جلد نمبر ١ ص ٣١٤)اور رواه مسلم في الصحيحه (جلد ١ ص ٤٣٣ ...٤٣٤ والحاكم في المستدرك جلد ٢ ص ١٩٦)وفي رواية مسلم ايضا عن طائوس ان ابا الصبهاء قال لا ابن عباس رضي الله تعالي ٰ عنه اتعلم انما كانت الثلث تجمل واحده علي عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم وابي بكر رضي الله تعاليٰ عنه وثلاثا من امارة عمر رضي الله عنه تقال ابن عباس رضي الله عنه نوم وفيه ايضا عن طائوس ان ابا لصبهاء قال لا ابن وعباس هات من هناتات الم يكن الطلاق الثلاث علي عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم و ابي بكر رضي الله عنه واحده فقال قد كان زلك فلما ;هك في عهد عمر رضي الله عنه تتابع الناس في الطلاق فاجاز علهيم

 ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺکے زمانہ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں اور دو سال حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں تین طلاقیں ایک ہی شمار کیجاتی تھیں۔ پس حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ لوگ اس کام میں جلدی کرنے لگے ہیں جس کام میں ان کو مہلت کرنی چاہیے تھی۔ یعنی لوگوں پر لازم ہے۔ کہ طلاق عدت سے دیں۔ پس اس غلطی کو روکنے کےلئے اگر ہم طلاق ثلاثہ کا حکم نافذ ہی کردیں۔ تو لوگ رک جایئں گے۔ پس بدیں وجہ نوری طلاق ثلاثہ کا حکم نافذ فرمادیا۔ مسلم ہی میں یہ بھی ہے۔ کہ صبہا کے باپ نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ کیا تم جانتے ہو کہ عہد نبوی ﷺ اور صدیقی میں اورتین سال عہد فاروقی میں فوری طلاق ثلاثہ کو ایک ہی شمار کیاجاتا تھا۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ہاں۔ یہ بات واقعی درست ہے۔ کہ ایسا ہوا کرتا تھا۔ اور مسلم ہی میں یہ بھی ہے۔ طائوس کہتے ہیں۔ کہ صبہاء نے باپ نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہا کہ صدراول ودوم وسوم کی باتیں بیان کرو۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ عہد نبوی ﷺ میں وصدیقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں  تین طلاقیں ایک ہی شمار کیجا تی تھیں۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ہاں ایسی بات تھی۔ پس جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں لوگ طلاق ثلاثہ یک بارگی بول دینے کے عادی ہوگئے۔ تو انہوں نے ان کے تین طلاق کے واقع ہونے کا امر نافذ فرمادیا۔‘‘

مسک الختام جلد 2 ص 477 میں نواب بھوپالی تحریر فرماتے ہیں۔ بعد درود این حدیث درمسلم چہ جائے ایں سخن است کہ ایں حدیث مختلف فی الصحۃ است ۔ یعنی ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث مسلم شریف میں آجانے کے بعد کیا مجال سخن ہے۔ کہ حدیث کی صحت میں اختلاف ہو حقیقت بھی یہی ہے۔ کہ صحیح مسلم نے مصنف نے صحیح حدیث کا بڑا التزام فرمایا ہے۔ اسی واسطے یہ بات مسلمات سے ہے۔ کہ

اصح الروايات ما انفق علي الشيخان ثم ما انفرديه البخاري ثم ما انفرديه المسلم (مقدمه الضيب الشذي ص ٣)

میں ہے کہ صحیحین کی بابت تمام محدثین کا اتفاق ہے۔ کہ اس میں جس قدر مرفوع متصل حدیثیں ہیں وہ قطعا بلاریب صحیح ہیں۔ اور یہ کہ دونوں اپنے مصنفین تک تواتر کا درجہ حاصل کرچکی ہیں۔ اور یہ کہ جو شخص ان دونوں کتابوں کی احادیث کی صحت کی بابت منہ آئے گا اور ان کی توہین کرے گا۔ وہ بدعتی اور غیر مسلموں کی راہ کا متبع ہے۔ سبحان اللہ کس قدر عمدہ فیصلہ ہے۔ کہ مسلم شریف ایسی کتاب نہیں جس پر زبان کھولی جائے ورنہ وہ بدعتی ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ طلاق ثلاثہ فوری چونکہ کتاب وسنت کے خلاف ہے اور اس میں بڑی بڑی خرابیاں ہیں اس لئے ایسی طلاق خواہ مجلس میں ہو یا مجلس میں ایک ہی طلاق رجعی ہوگی۔ اور اندرون عدت طلاق اپنی عورت سے رجوع کرلینے کا مجاز ہوگا باقی جو کچھ قائلین ثلاث کے عذرات ہیں وہ سب مجروح ار ناقابل اعتماد ہیں۔ چنانچہ اس پر سیرہ حاصل بحث تالیفات ابن القیمرحمۃ اللہ علیہ (اٖغاثہ اللفہان) اور (اعلام الموقعین ) ونیز (ذاد المعاد وغیرہ میں کی گئی ہے۔ خود میری تالیف کتاب الطلاق بزبان اردو جو زیرتسوید ہے۔ اس کے مالہ وما علیہ پر کافی ہے۔ طلاق ثلاثہ فوری کے ایک ہی ہونے پر ایک اور زبردست دلیل یہ ہے کہ مسند امام اعظم ص 48 میں حدیث لکھی ہے۔

الطلاق ثلاثها السكني والنفقة یعنی مطلقہ ثلاثہ فوری کےلئے خاوند طالق پر مکان رہائشی اور خرچ دینا لازم ہے۔ شارح ملا علی قاری لکھتے ہیں۔ خواہ وہ عورت حاملہ ہو یا غیر حاملہ مکان ونفقہ طالق پر لازم ہے۔ پس اس سے صاف ثابت ہوتا ہے۔ کہ مطلقہ ثلاثہ فوری اگر قابل رجعت نہ ہوتی۔ تو طلاق دہندہ پر مکان ونفقہ کا لزوم کیوں ہوتا۔ چنانچہ امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ اعلام الموقعین جلد 2 ص 185) میں تحریر فرماتے ہیں۔

المطلقه بائنه لا نفقه لها ولا سكني بسنة رسول الله صلي الله عليه وسلم

یعنی مطلقہ بائنہ کے واسطے طالق پر خرچ اور مکان ر ہائش بموجب سنت نبوی ﷺ لازم نہیں ہے۔ پس اس سے صاف ثابت ہوگیا۔ کہ مطلقہ ثلاثہ فوری کےلئے حق رجوع ہے اس لئے اس کا نفقہ وسکونت طالق کے زمہ ہے۔ اور چونکہ مطلقہ ثلاثہ متفرق کے لئے حق رجوع نہیں رہتا۔ اس واسطے اس کا نفقہ ومکان طالق کے ذمہ نہ پڑا۔ نواب بھوپالی فرماتے ہیں کہ مسئلہ طلاق نزاعی ہے امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کو صبر آزما تکلیف پہنچیں مگر حق انہیں کے ہاتھ رہا فرماتے ہیں

وقد امتحن بهذه السئله جماعة من لعلماء منهم شيخ السلام ابن تيمية وجماعة من بعده والحق بايدهيم (الروضة النديه ج ٢ ص ٥٣) هذا ما عندي والله اعلم وعلمه التمّ

(ابو المکارم ظفر عالم خطیب مسجد اہلحدیث مرتی پورہ مالیگائوں الجواب صحیح حضرت مولنا سید عبد اللہ مدنی مدرسہ لطیفیہ شولاپور)

فتویٰ حضرت استاذ العلماء مولنا ابو القاسم صاحب سیف بنارسی رحمۃ اللہ علیہ

(بروایت مولانا عبد الاخر صاحب دام فضلہ)

ایک جلسہ کی تین طلق ایک رجعی ہوتی ہے۔ صحیح مسلم شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔

كانت الطلاق علي عهد رسول الله صليٰ الله عليه وسلم وابكر رضي الله عنه وصدر ا من خلافة عمر رضي الله عنه طلاق الثلث واحده

(ص 277ج1)یعنی رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں اور شروع خلافت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں تین طلاق ایک ہوا کرتی تھی۔ یہی مذہب ہزارہا صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  کا تھا۔ جیسا کہ تعلیق المغنی شرح دار قطنی میں ہے۔

هذا حال كل صحابي من عهد الصديق اليٰ ثلاث سنين من خلافة عمر رضي الله عنه وهم يزيدون علي الالف (ص ٤٢٤)

یعنی حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے تین سال تک ہزارہا صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کا یہی فتویٰ رہا۔ کہ ایک جلسہ کی تین طلاق ایک ہی ہوتی ہے۔ جب کثرت سے لوگوں نے طلاق دینی شروع کی۔  تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سیاسۃ تین طلاق کو تین کردیا۔ جیسا کہ اسی صحیح مسلم میں ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود فرماتے ہیں۔

ان لاناس قد استعجلوا في الط قد كانت لهم فيه اناة فلوا مضيناه علهيم الخ

 لیکن جب اس ترکیب سے طلاق میں کمی نہیں ہوئی ہے۔ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت پچھتائے اور اس سے رجوع فرمالیا۔ جیسا کہ حدیث کی بہت بڑی کتاب مسند اسماعیل میں ہے۔ دیکھو اغاثہ اللفہان مصری ص 181 ۔ 182۔ (پورا فتویٰ الاثار المتبوعہ صفحہ 10 پرملاحظہ فرمایئے)

دیگر

مذہب منصور نص صریح کے مطابق ہے۔ ارشاد ہے۔

الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَان ۔ (الی ان قال) حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۔ وغیرہ۔ اس آیت کریمہ سے صاف طور پر ثابت ہے۔ کہ طلاق بدفعات دی جائے۔  تاکہ رجعت کا اختیار باقی رہے۔ ایک ساتھ تین طلاق دینے سے رجعت کا اختیار سلب ہوتا ہے۔ اور ایسا کرنا آیت کی صریح مخالفت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ساتھ تین یا دو طلاق دینے کاز کر قرآن پاک میں کہیں نہیں آیا ہے۔ اس لئے مجوزین ایسی طلاق کو بدعی کہنے پر مجبور ہوئے پھر کل بدعۃ ضلالۃ کا اس ےفرد کیوں پر قرار دیا جائے الیٰ آخرہ (الا ثار المتبوعہ) خاکسار محمد منیر خان عفی عنہ مدرس اول مدرسہ اسلامیہ وعربیہ بنارس)

از حضرت العلام مولانا عبد اللہ صاحب شائق (مولوی فاضل )

(صدر اساتذہ جامعہ فیض عام میو)

علمائے احناف نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ گویا ہمارا یہی مذہب ہے۔ لیکن بوقت ضرورت دیگر آئمہ مذہب پر عمل کرتے ہوئے رجعت کرسکتا ہے۔ مولانا عبد الحئی صاحب لکھنوی مجموعہ فتاویٰ ص 66 میں تحریر فرماتے ہیں۔ سوال وجواب ملاحظہ ہو۔

سوال۔ زید نے اپنی عورت کو حالت غضب میں کہا کہ میں نے طلاق دیا۔ میں نے طلاق دیا میں نے طلاق دیا۔ پس اس تین بار کہنے سے تین طلاق واقع ہوگی یا نہیں اور اگرحنفی مذہب میں واقع ہو اور شافعی میں نہ واقع ہو تو حنفی کو شافعی مذہب پر اس صورت خاص میں عمل کرنے کی رخصت دی جائے گی یا نہیں؟

ھو المصوب۔ اس صورت میں حنفیہ کے نزدیک تین طلاق واقع ہوگی۔ اور بغیر تحلیل کے نکاح درست نہ ہوگا۔ مگر بوقت ضرورت کے اس عورت کا علیحدہ ہونا اس سے دشوار ہو۔ اور احتمال مفاسد زائدہ کا ہو تقلید کیس اور امام کی اگر کرے گا۔ تو کچھ مضائقہ نہ ہوگا۔ نظیر اس کی مسئلہ نکاح زوجہ مفقودہ ممتدہ الطہر موجود ہے۔ کہ حنفیہ عند الضرورت قول امام مالک رحمۃ اللہ علیہ پر عمل کرنے کو درست رکھتے ہیں۔ چنانچہ رد المختار (شامی ) میں مفصلا موجود ہے لیکن اولیٰ یہ ہے کہ و ہ شخص کسی عالم شافعی سےف استفسار کرکے اس فتویٰ پر عمل کرے۔ واللہ اعلم۔ (حررہ محمد عبدالئی عفاللہ اعنہ (الاثاار المتبوعہ)

سیشن جج امرتسر کا فیصلہ باب طلاق ثلاثہ

امرتسر میں ایک مقدمہ مدت سے دائر تھا۔ ایک شخص مسمی جلال الدین ولد ساون قوم بڑھئی ساکن امرتسر کٹرہ مہا سنگھ نے اپنی عورت کو مجلس واحد میں تین طلاقیں دے کر بموجب فتویٰ اہلحدیث پھر ملاپ کرلیا تھا۔ مگر عورت مذکورہ کے والدین نے عورت کو اپنے گھر میں روک لیا اس پرجلال الدین مذکور نے دعویٰ باز کیا۔ عدالت میں فریقین کی طرف سے علماء پیش ہوئے جنھوں نے اپنے اپنے مذہب کے مطابق شہادت دی۔ جلال الدین مدعی اہلحدیث ہے اس نے اپنی طر ف سے جناب مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی کو اور فریق ثانی نے مولوی نور احمد صاحب حنفی امرتسری کو پیش کرایا۔ مگر ڈپٹی پیر قمر الدین صاحب نے مدعی کا دعویٰ خارج کردیا۔ اس پر مدعی نے سیشن جج کے ہاں اپیل کیا سیشن جج نے بعد دیکھنے میں اور سننے میں بیان فریقین کے حکم یکم جون سنہ رواں کو فیصلہ کیا کہ اپیل منظور اور حکم عدالت ما تحت منسوخ گویا سیشن جج نے اس بات کا فیصلہ کردیا کہ مجلس واحد کی تین طلاقیں ایک ہی ہیں۔ جیسا کہ اہل حدیث کا مذہب ہے۔ (اخبار اہل حدیث ص 736 29 جون 1906ء)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیاں اسلام اس بارے میں کہ زید نے اپنی منکوحہ کوکسی نزاع کی بنا پر ایک وقت اور ایک ہی مجلس میں تین مرتبہ طلاق دے دی چند روز کے بعد زید کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اب وہ دونوں میاں بیوی آپس میں بسائو چاہتے ہیں مگر اکثر مولویوں کا کہنا ہے کہ تین دفعہ ایک ہی دفعہ میں طلاق دے دی جائے تو وہ عورت اس مرد کےلئے قطعا حرام ہوجاتی ہے۔ اور بغیر حلالہ کے اب وہ اسکے گھر واپس نہیں آسکتی۔ اس بارے میں کتاب اللہ وسنت رسول اللہ ﷺ سے اسلام کا صحیح فیصلہ کیا ہے۔ امید ہے کہ مفصل ومدلل جواب سے مشکور کریں گے۔ بینوا توجروا۔ (المستفتی عبد الستار مومن پورہ بمبئی نمبر 11)

سبحانك لا علم لنا الا ما علمتنا انك انت العليم الحكيم!

 مسطورہ مسئولہ میں واضح دلیل ہو کہ زید نے اگر اپنی منکوحہ کو کیس نزاع پرا یک مجلس میں بغم واحد یا طھر واحد میں تین طلاقیں دے دی ہیں۔ اور پھر وہ نادم پشیمان ہوتا ہے۔ تو اپنی منکوحہ کو وہ عدت میں رجوع کرسکتا ہے۔ اور یہ تین طلاقیں حکم میں ایک طلاق رجعی کے ہیں۔ اور اگرعدت کے ایام گزر گئے ہیں تو وہ اپنی منکوحہ کو بتجدید نکاح رجوع کرسکتا ہے۔ اور بغیر حلالہ کے اپنے گھر میں و اپس لاسکتا ہے۔ یہ مسئلہ حدیث نبوی ﷺ اور اجماع صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین سے ثابت ہے۔

 لحديث رواه ابن عباس رضي الله عنه قال كانت الطلاق علي عهد رسول الله صليٰ الله عليه وسلم وابي بكر رضي لله عنه سنتين من خلافه عمر رضي الله عنه طلاق الثلاث واحده فقال عمر بن خطاب رضي الله عنه ان لناس قد استعجلوا في امر كانت لهم فيه اناة فلوا مضيناه علهيم قامضاه علهيم (رواه مسلم في صحیحہ ج١ص ٤٧١)

’’یعنی روایت ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ تھی طلاقیں تین زمانہ آپﷺ میں اور خلافت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دو سال خلافت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں ایک طلاق رجعی پھر جب جلدی کی لوگوں نے اس امر میں جس میں ان کےلئے مہلت وتاخیر تھی۔ تو حضرت عمر نے ان پر طلاق ثلاث کو (سیاسۃ) جاری فرمادیا ۔ یہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک سیاسی مصلحت تھی۔ اس لئے کہ لوگوں نے جو شرعی طریقہ طلاق کا تھا۔ یعنی ہر طہر پرطلاق دینے کا وہ چھوڑدیا تھا۔‘‘

لقوله تعاليٰ وطلقوهن لعدتهن اي حال كونهن مستقبلات لعدتهن بالحيض الثلاث بان يكون الطلاق في طهر لم يمس فيه وهو الطلاق السني (تفسير كليمي ص ٤٤٨)

اور یہ حدیث صحیح ہے۔ ا س پر کوئی جرح نہیں جن لوگوں نے اس پر جرح کی ہے۔ وہ ان کی جہالت اور تعصب مذہبی پر مبنی ہے۔ اور اس حدیث کی تایئد میں ایک حدیث مسند احمد ص 265 جلد ایک میں بھی ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور مروی ہے۔

قال طلق ركانه امراه في مجلس واحد ثلاثا فعزن عليها فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم انهيا واحدة رواه احمد وابويعليٰ وصححه من طريق محمد بن اسحاق وقال ابن الهمام ريئس الفقها ان هحمد بن اسحاق ثقه ثقه ثقه عند المحققين

دیکھو فتح القدیر اور امام ذہبی میزان الاعتدال ص 24 میں لکھتے ہیں۔

 فالذي يظهر لي ان ابن اسحاق حسن الحديث صالح الحال صدوق انتهي

 نیز صحیح مسلم جلد اول صفحہ 471 میں خود حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔

ان ابا الصبهاء قال لا بن عباس رضي الله عبنه اتعلم ان ما كانت الثلاث تجعل واهده علي عهد النبي صلي الله عليه وسلم و ابي بكر رضي الله عنه وثلاثا من اماره عمر رضي الله عنه فقال ابن عباس رضي الله عنه نعم

ہاں تین طللاقیں اکھٹی دینا خلاف سنت ہے۔ ہر طہر پر طلاق ہے۔

فكان ابن عباس رضي الله عنه يروي انما الطلاق عند كل طهر

(دیکھو مسند احمد ص 265 جلد اول ) مگرایسی تین طلاقیں مذکورہ ایک طلاق رجعی کے حکم میں ہے۔ عدت کے اندر اندر تک تو خاوند کو اختیار ہے کہ رجوع کرلے اور بعد عدت بترا ضی طرفین جدید نکاح سے رجوع کرسکتا ہے ۔ بغیر حلالہ کے۔

اب رہا اجماع صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  تو سنیئے۔ جب اس پر خلافت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں خلافت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک عمل رہا تو یہ اجماع سکوتی ہوا کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خلافت صدیقہیہ میں اس کا خلاف نہیں پایا گیا۔ چنانچہ نواب صدیق حسن خان صاحب فرماتے ہیں۔

''وہم چنیں ہر صحابی از زمانہ خلافت صدیق تاسہ سال از خلافت عمر برہمیں بود کہ سہ طلاق یک طلاق است ازروئے فتویٰ وافراد سکوت وبعضے اہل علم بریں دعویٰ اجماع قائم کردہ اند واجماع نہ کردہ اندو اللہ الحمد برخلاف این بلکہ ہمیشہ درامت کسے بود کہ فتویٰ واوہ است بایں قرنابعد قرن تا امروز چنانچہ فتویٰ داد بان ترجمان قرآن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ الخ (مسک الختام شرع بلوغ المرام ص 451)''

اور یہی مذہب ہے۔ عبد للہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ وزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ودیگر صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کا کہ ایک جلسہ کی تین طلاقیں ایک رجعی ہوتی ہیں۔ دیکھو تعلیق المغنی علی الدارقطنی صفحہ 444 وفتح لباری ص 163 پارہ 22 ونیل الاوطار ص 54 اور 155 جلد 2 ومسک الختام ص 473 جلد 2)

حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلے میں ایک بسیط کتاب لکھی ہے۔ جس کا نام اٖغاثہ اللفہان ہے چنانچہ حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے اسی کتاب اغاثہ اللفہان میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک ر وایت مسند ابو بکر  اسماعیل سے نقل کی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ تین طلاق جاری فرماکر پشیمان ونادم ہوئے اور فرمایا۔

ماندمت علي شي ندامتي علي ثلاث ان لا اكون حرمت الطلاق وان لا اكون انكحت الموالي وعلي ان لا اكون قتلت النوائع اخرجه ابو بكر الاسماعيل في مسند عمر * كزا في اغاثه اللفهان ص ١٨١ مطبوعه مسر

کیونکہ جس غرض سے آپ نے یہ حکم سیاسی جاوی کیا تھا بعد میں وہ حاصل نہیں ہوئی تو آپ نادم ہوئے۔ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ یہ حرمت کا فتویٰ آپ کا اجتہادی تھا چنانچہ کتب فقہ سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے۔

ان في صدر الاول اذا ارسل الثلاث جملة لم يحكم البوقوع واحده الي زمن عمر رضي الله تعاليٰ عنه شم حكم (اي عمر رضي الله عنه) بوقوع الثلات الكثرتة بين الناس تهديدا انتهي

(دیکھو مجمع النہر شرح منتقی الابحر مطبوعہ روم ص 190 )

پس جو عورت مطلقہ ثلاث مجلس واحد میں بفم واحد یا طھر واحد ہے۔ اس سے بغیر حلالہ کے طلاق دہندہ رجوع کرسکتا ہے۔ فقط۔ ھذ ا ما عندی من الجواب واللہ اعلم بالصواب (کتبہ ابو محمد عبد الجبار السلفی اکھندیلوی الجیفوری مورخہ یکم جمادی الثانی ص 73 ہجری )

الجواب واللہ الموفق للصواب

صورت مسئولہ میں ائمہ فقہ کا بہت بڑا اختلاف ہے۔ اختلاف کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں حرام وبدعت ہیں۔ مگر حکما یہ طلاقیں واقع ہوجایئں گی۔ اور طلاق ثلاثہ سمجھی جایئں گی۔ شوہر کو رجوع کا حق نہیں ہے۔

کتاب وسنت کی روشنی میں ایک مجلس کی تین طلاقین خواہ الگ الگ الفاظ ہیں ہوں جیسےطلقتك طلقتك طلقتك يا ايك  ہی لفظ ہوں۔ جیسے طلقتك ثلاثا دونوں صورتوں میں ایک مجلس کی یہ طلاقیں ایک ہی شمار ہوں گی۔ عہد رسالت مآب ﷺ میں اور خلافت صدیقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں وصدر خلافت فاروقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں اس طرح کی ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار کی جاتی رہیں کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اس عہد تک کوئی اختلاف منقول ومروی نہیں گویا یہ اجمتاعی مسئلہ ہے۔

ہاں جب لوگوں نے معاملہ طلاق کو بازیچہ اطفال بنالیا۔ اس کی شرعی اہمیت اور وزن کا احساس کم ہوگیا۔ اور بعض افراد اس تقین کی بنیاد پر کہ تین طلاق ایک مجلس کی عورت مغلظہ نہیں ہوتی بلکہ شوہر کو حق رجعت باقی رہتا ہے۔ ایک ایک مجلس میں تین تین طلاق دینے لگے نو عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے آخری دور خلافت میں عام اعلان کردیا کہ اگر کسی نے ایک مجلس میں تین طلاقیں دیں تو تینوں نافذ شمار ہوں گی۔ اور عورت سے رجوع کا حق نہیں رہے گا۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ حکم سیاست پر مبنی تھا۔ مصالح وقت کے پیش نظر ایسا کیا تھا۔

ایک مجلس کی تین طلاقوں کے ایک طلاق شمار کئے جانے پر دلیل مسلم و ابودائود وگیرہ کتب احادیث میں ابو رکانہ کا واقعہ ہے۔ مسک الختام شرح بلوغ المرام میں تفصیلات ملیں گی فقط۔ العبد عبد الجلیل الرحمانی دارلعلوم بستی (21 فروری ص 54ء)

الجواب

ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک طلاق رجعی کے حکم میں ہیں۔ شوہر کو ایسی طلاق کے بعد رجعت کا حق حاصل ہے۔ صحیح مسلم شریف میں ہے۔

لحديث رواه ابن عباس رضي الله عنه قال كانت الطلاق علي عهد رسول الله صليٰ الله عليه وسلم وابي بكر رضي لله عنه سنتين من خلافه عمر رضي الله عنه طلاق الثلاث واحده فقال عمر بن خطاب رضي الله عنه ان لناس قد استعجلوا في امر كانت لهم فيه اناة فلوا مضيناه علهيم قامضاه علهيم (رواه مسلم في صحیحہ ج١ص ٤٧١)

یعنی’’ ایک مجلس کی تین طلاقیں عہد نبوی ﷺ وخلافت صدیقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دو سال خلافت فاروقی میں ایک طلاق شمار ہوتی تھی۔ پھر فرمایا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں نے اس امر میں جلدی کی جس میں ان کو شرعاف مہلت تھی۔ پس اگر ہم ان کو جاری کردیں۔ تو بہتر ہے پس بعد میں انہوں نے جاری کردیا۔‘‘

 عن ابن عباس رضي الله تعاليٰ عنه قال طلق ركانة بن عبد يزيد اخو بني عبد المطلب امراة ثلاثا فحزن عليه حزنا شديد اقال فساله رسول الله صليٰ الله عليه وسلم كيف طلقتها قال طلقتها ثلاثا فقال في مجلس واحد قال نعم قال فانما تلك واحده فارجعها ان شئت قال فراجعها

’’یعنی رکانہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپن بیوی کو تین طلاق دے دیں۔ پھر بہت نادم ہوئے آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم نے کس طرح طلاق دی ہے۔ انہوں نے کہا تین طلاق پھر آپ نے پوچھا کہ کیا ایک مجلس میں ؟ تو انھوں نے جواب دیا ہاں تو آپ نے فرمایا کہ یہ ایک طلاق ہوئی اگر تم چاہو تو رجوع کرلو چنانچہ رکانہ نے رجوع کرلیا۔‘‘

یہ دونوں روایتیں صحیح ہیں۔ پہلی روایت تو مسلم شریف کی ہے۔ جس کی صحت پر اجماع ہے اور دوسری روایت مسند احمد کی ہے۔ محدثین کی ایک جماعت نے اس کی تصیح کی ہے۔ غرض یہ کہ عہد نبوی ﷺ اور عہد صدیقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ عہد فاروقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ابتدائی دور میں اسی پر عملدراآمد رہا۔ البتہ جب لوگوں نے کثرت سے طلاق دینی شروع کی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عہد میں تینوں کو نافذ کردیا۔ اور ان کا ایسا کرنا سیاسۃ تھا۔ نہ کہ تشریعا کیونہ اگر کوئی ناسخ حدیث ہوتی تو اس کو ضرور پیش کرتے۔ نہ اس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پیش کیا۔ اور نہ کسی دوسرے صحابی نے اس کو بیان کیا۔ بلکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اظہار تمناکیا۔ کہ کاش میں ان کو نافذ کردیتا۔ برخلاف اس کے جب متعہ کے مسنسوخ ہونے کا حخم سنایا تو رسول اللہ ﷺ کے حکم کا حوالہ دے کر سنایا اور پر زور الفاظ میں خطبہ دیا۔ ابن ماجہ میں ہے۔

 عن ابن عمر رضي الله عنه قال ان عمر رضي الله عنه خطب الناس فقالج ان رسول الله صليٰ الله عليه وسلم اذن لنا في المتعة ثلاثا ثم حرمها والله لو اعلم احدا يتمتح وهو محصن لا رجمنه بالحجارة الا ان ياتيني باربعة يشهدون ان رسول الله صلي الله عليه وسلم احلها بعد اذ حرمها

خلیفہ وقت کو اختیار ہے۔ کہ وہ ایک مباح اور حلال چیز کی تعزیر کے طور پر کسی اور مصلحت کی بنا پر بند ش کرسکتا ہے۔  خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس واقعہ طلق کے علاوہ بعض مباح اور حلال چیزوں کو تعزیرا بند کردیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک عورت لائی گئی۔ جس نے اپنے غلام سے نکاح کیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان دونوں میں تفریق کرادی اور تعزیرا آئندہ کےلئے دوسرے خاوندوں سے نکاح اس پر حرام کردیا۔ (کنز العمال)

حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدائن میں ایک یہودن سے شادی کی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھا کہ اس کو طلاق دے دو یہ مسلمان عورتوں کے لئے بہت بڑا فتنہ ہے۔ حالانکہ اہل کتاب سے نکاح کرنا نص قرآنی سے ثابت ہے۔ (ازالۃ الخفاء)

جب اس ترکیب سے بھی طلاق میں کمی نہ ہوئی۔ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس پر نادم ہوئے ۔ علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے مسند عمر کے حوالے سے نقل کیا ہے۔

قال عمر بن لخطاب ما ندم علي شي ندامتي علي ثلث ان لا اكون حرمت الطلاق (اغاثه لفهان)

اگر واقعی یہ شرعی حکم تھا تو اس امضائے ثلث پر نادم ہونے کے کیا معنی ؟ خود فقہائے احناف میں بھی بعض لوگ اس کے قائل ہیں۔ کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ حکم سیاسی تھا۔ مجمع النہر شرح منتقیٰ الابحر ص 383 میں ہے۔

واعلم انه في الصدر الول اذا ارسل الثلث جملة لم يحكم الا بوقوع واحدة الي زمن عمر رضي اله عنه ثم يحكم بوقعوع الثلث لكثرته بين الناس تهديدا

اسی طرح طحاوی وغیرہ میں بھی ہے۔

شریعت مطہرہ نے طلاق کے معاملہ میں جو آسانی ااور مہلت رکھی ہے تینوں کے وقوع کی صورت میں وہ فوت ہوجاتی ہے۔ ارشاد ہے۔

 الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ

اس آیت کریمہ سے صاف واضح ہوتا ہے کہ طلاق بدفعات دی جائے۔ تاکہ رجعت کا اختیار باقی رہے۔ ابو دائود شریف میں رکانہ کے واقعہ طلاق میں یہ الفاظ مروی ہیں۔

فقال اني طلقتها ثلاثا يارسول الله قال قد علمت (اجعها وتلايا۔ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ

اس موقع پر آپ ﷺ کا آیت مذکورہ کی تلاوت فرمانا اس امر کی دلیل ہے کہ طلاق دینا عدت کےلئے ہے۔ جب عدت ختم ہونے کے قریب ہو تو رجوع کرلے۔ یا اس کو چھوڑ دے ۔ عدت اسی لئے مشروع ہے۔ کہ اس طلاق دینے والے کےلئے یہ آسانی اور گنجائش رکھی گئی ہے۔ کہ اگر طلاق کے بعد ندامت محسوس کرے۔ توعدت کے اندر رجوع کرلے ۔ لعل الله يحدث بعد ذلک امرا۔ وقوع ثلث کی صورت میں یہ آسانی فوت ہوجاتی ہے۔ اور ايسا كرنا شريعت كے منشاء کے خلاف ہے۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ کہ تینوں کا ایک طلاق رجعی کے حکم میں ہونا ہی قیا س کے موافق ہے۔

هم اختيار كثير من علمائ الدين انه لو طلقها اثنين او ثلاثا لا تقع الا الواحده وهذا القول هو الاقيس لان النهي يدل علي اشتمال المنهي عنه علي مضده راجعة والقول بالوقوع سعي في ادخال تلك المفسدة في الوجود وانه غير جائز فوجب ان يحكم بعد م الوقوع (تفسیر کبیر جلد 2)

نیل الاوطار جلد 6 میں ہے۔

ذهبت طائفة من اهل العلم الي ان الطلاق لا يتبع الطلاق بل يقع واحده فقط وقد حكي زالك صاحب البحر عن موسيٰ ورواية عن علي رضي الله عنه وطائوس وعطا وجابر بن زيد والهادي والقاسم والباقر والنا مكرو احمد ن عبسي وعبد الله بن موسيٰ ورواية عن زيد بن علي واليه ذهب جماعة من المتاخرين منهم ابن تيمة وابن القيم وجماعة من المحققين وقد نقله ابن مغيث في كتاب الوثائق عن محمد بن وضاح ونقل الفتويٰ بذلك ين جماعة من مشائخ قرطبة كمحمد بن تقي ومحمد بن عب السلام وغيرهما نقيله ابن المنذر عن اصحاب ابن عباس كعطار وطايوس وعمر بن دينار وعطاء بن المغيث ايضا في ذلك الكتاب عن علي و ابن مسعود وعبدا لرحمٰن بن بن عوف الذبير

صحابہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ زبیر بن عوقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہی مسلک ہے۔ ایسے ہی تابعین ودیگر محدثین کی ایک بڑی جماعت کا یہی مسلک ہے۔ مثلا جابر رحمۃ اللہ علیہ زید رحمۃ اللہ علیہ طائوس رحمۃ اللہ علیہ عبرو بن دینار رحمۃ اللہ علیہ عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ عطا بن رباح رحمۃ اللہ علیہ امام نخعی رحمۃ اللہ علیہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ (فی روایۃ) دائود ظاہری رحمۃ اللہ علیہ ) اور ان کے متبعین احمد بن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ جاج بن ارطاۃ رحمۃ اللہ علیہ محمد بن مقاتل رحمۃ اللہ علیہ محمد بن تقی مخلد رحمۃ اللہ علیہ محمد بن عبد السلام خشنی رحمۃ اللہ علیہ ہادی رحمۃ اللہ علیہ قاسم رحمۃ اللہ علیہ باقر رحمۃ اللہ علیہ ناصر رحمۃ اللہ علیہ احمد بن عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ عبد اللہ بن موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ زید بن علی رحمۃ اللہ علیہ خلاس بن عمر رحمۃ اللہ علیہ حارث عکلی رحمۃ اللہ علیہ بعض اصحاب ۔ احمد رحمۃ اللہ علیہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ ار مشائخ قرطبہ کی ایک جماعت۔ اکثر نام نیل الاوطار کی مذکورہ عبارت میں آگئے ہیں۔ بقیہ نام فتح الباری عمدۃ القاری اعلام الموقعین عمدۃ الرعایہ وغیرہ سے معلوم کیے جاسکتے ہیں۔ ایک طلاق کے قائلین کی یہ جو فہرست پیش کی گئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسلک کے قائلین ہر زمانے میں کثرت سے رہے ہیں۔ اب اس موقع پرحال کے علمائے احناف کے اقوال پیش کئے جاتے ہیں۔ تاکہ اس مسئلے کی حقانیت اچھی طرح وضح ہوجائے۔

مولانا عبدا لئی صاحب حنفی لکھتے ہیں۔

القول الثاني انه اذا اطلق ثلاثا تقع واحده رجعية وهذا هوالمنقول عن بعض الصحابه وبه قال دائود الظاهري وتباعه وهوا احد لقولين لمالك وبعض اصحاب احمد (عمدة الرعاية جلد ٢)

حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب حنفی مرحوم

ایک استفار کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں۔

الجواب۔ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے سے تینوں طلاقیں پڑ جانے کا مذہب جمہور علماء کا ہے۔ اور آئمہ اربعہ اس پر متفق ہیں جمہور علماء اور آئمہ اربعہ کے علاوہ بعض علمائ اس کے ضرور قائل ہیں۔ کہ ایک رجعی طلاق ہوتی ہے اور یہ مذہب اہل حدیث نے بھی اختیار کیا ہے۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور طائوس رحمۃ اللہ علیہ اور عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ وابن اسحاق سے منقول ہے۔ پس کسی اہل حدیث کو اس حکم کی وجہ سے  کافر کہنا درست نہیں اور نہ وہ قابل مقاطعہ ہے اور نہ مستحق اخراج عن المسجد ہے۔ (محمد کفایت اللہ عفاعنہ ربہ (منقول از اخبار الجمیعۃ دہلی۔ ص 44 جلد 14 مورخہ 6 شعبان 1350ہجری)

بلکہ بعض علمائے احناف نے یہ فتویٰ دیا ہے۔ کہ بوقت ضرورت اس مسلک پر عمل کرتے ہوئے رجعت بھی کرسکتا ہے۔

مولانا حبیب الرحمٰن صاحب حنفی

مدرسہ امینیہ دہلی ایک استفسار کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں۔

الجواب۔ بعض سلف صالحین وعلمائے متقدمین میں سے اس کے بھی قائل ہیں کہ صورت مرقومہ میں ایک ہی طلاق پڑتی ہے۔ اگرچہ ائمہ اربعہ میں سے یہ بعض نہیں ہیں۔ اور مفتی اہل حدیث پر اسی اختلاف کی بنا پر کفر ومقاطعہ واخراج از مسجد کا فتویٰ غیر صحیح ہے ۔ بوجہ شدت ضرورت وخوف مفاسد کے اگر طلاق ثلاثہ دینے والا ان بعض علماء کے قول پر عمل کرلے گا۔ کہ جن کے نزدیک اس واقعہ امر مرقومہ میں ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے۔ تو خارج مذہب حنفی میں سے نہ ہوگا۔ کیونکہ فقہائے حنفیہ نے بوجہ شدت ضرورت کے دوسرے امام کے قول پر عمل کرلینے کو جائز لکھا ہے اور اسی فروعی اختلاف کی وجہ سے بعض علمائے محدثین یا دیگر علماء کی توہین کرنا بڑا سخت کبیرہ گناہ ہے۔ (منقول از رسالہ حق وصداقت کی عظیم الشان فتح ص 807)

ان حضرات کا یہ فرمانا کہ ائمہ اربعہ اس پر متفق ہیں۔ صحیح نہیں۔ مولانا عبد الحئی حنفی صاحب کی عبارت نقل کی جاچکی ہے۔ کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول یہ بھی ہے۔ کہ ایک طلاق واقع ہوگی۔ ۔ اگرآئمہ اربعہ اس پرمتفق ہوں۔ تب بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ حق آئمہ اربعہ میں دائر نہیں ہے۔ خود متاخرین احناف نے مسئلہ ت تحلیف شہود میں آئمہ اربعہ کے متفقہ مذہب کے خلاف قاضی ابن ابی لیلیٰ کے مذہب پرفتویٰ دیا ہے۔ (اشباہ ونظائر ص 160)(عبد العزیز اعظمی استاد جامعہ رحمانیہ بنارس 73ہجری ۔ اصحاب من اصحاب ۔ قاری احمد سعید صاحب جامعہ رحمانیہ ب بنارس (18جمادی الاول 73ہجری۔ )مسلک اہل حدیث کے مطابق جواب بالکل صحیح ہے۔ (حضرت مولانا شیخ الحدیث نزیر احمد صدرس مدرس مدرسہ رحمانیہ  بنارس

جواب۔

زید طلاق دہندہ اگر آئمہ اربعہ میں سے اگر کسی ایک امام کا مقلد نہیں ہے۔ بلکہ عقیدۃ وعملا طلاق سے پہلے اہل حدیث ہے تو صورت مسئولہ میں اس کوشرعا رجوع کرنے کا حق واختیار ہے۔ کیونکہ صورت مسئولہ میں ذیل کی دو صحیح حدیثوں کی رو سے ااس کی بیوی ہندہ پر صرف ایک طلاق رجعی واقع ہوتی ہے۔

1۔ عن ابن عباس قال طلق ركانه بن يزيد اخويتي مطلب امرة ثلاثا في مجلس واحد نحزن عليها حزنا شديد اقال فساله رسول الله صلي الله عليه وسلم كيف طلقتها قال طلقتها ثلاثا قال فقال في مجلس واحد قال نعم قال فانما تلك واحده فارجعها ان شئت قال فرجعها (مسند احمد ج ١ ص ٢٦٥)

2۔ عن ابن عباس رضي الله تعاليٰ عنه  قال كان الطلاق علي عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم وابي بكر رضي الله عنه وسنتين من خلاة عمر رضي الله عنه طلاق الثلث واحدة مسند احمد ج١ ص ٣١٤ مسلم ج١ ص ٤٣٣ ...٤٣٤ مستدرك حاكم ج١ ص ١٩٦)

ایک مجلس کی تین طلاق بیک لفظ ہو۔ مثلا انت طالق ثلاثا یا 3 لفظ ہو۔ جیسے انت طالق ۔ انت طالق۔ انت طالق۔ ہردونوع بدعی ہے۔ اور آیت۔

الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ

۔ کے خلاف ہے۔ تفصیل زاد المعاد ص 51 و ص 53 جلد نمبر 1 جلد 3 نظام الطلاق نے الاسلام میں ملاحظہ کی جائے۔ (عبید اللہ رحمانی مبارک پوری 9 7/73ہجری)

جمہور آئمہ کے نزدیک تینوں طلاقیں پڑ گئیں۔ اور بغیر شرعی حلالہ کے زوج اول کے لئے درست نہیں ہے۔ اور اہلحدیث کے نزدیک ایک رجعی طلاق پڑی ہے۔ عد ت میں رجوع کرسکتا ہے۔ عدت ختم ہونے کے بعد تجدید نکاح کی ضرورت پڑے گی۔ نبی کریم ﷺ کے مبارک زمانہ میں ایک د فعہ ایک مرتبہ کی تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھیں۔ (مسلم شریف )(اہلحدیث دہلی 15 جنوری 52ء)(شیخ الحدیث مولانا عبد السلام صدر مدرس مدرسہ ر یاض العلوم دھلی۔

الجواب۔

صورت مرقومہ بالا میں واضح ہو کہ اسلام کے جہاں اور مراسم جاہلیت کو مٹایا وہاں اس رسم بد کو بھی مٹایا جس سے لوگ اس صنف نازک پرظلم ڈھایا کرتے تھے اور اس کو تنگ وپریشان کیاکرتے تھے۔ اسلام سے پہلے اہل جاہلیت کا یہ طریقہ تھا کہ طلاق کی کوئی حد متعین نہ تھی۔ جتنی چاہتے طلاقیں دیتے چلے جاتے۔ اور رجوع کرتے جاتے حتیٰ کے ایک ایک آدمی اپنی بیوی کو سو سو طلاق دے دیتا پھر بھی وہ اس کی بیوی ہی رہتی شرو ع اسلام میں بھی مسلمان ایسا کرتے رہے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے۔

عن عائشه كان الناس والرجل يطلق امراته ماشاء ان يطلق وهي امراته ازا ارتجعها وهي في العده وان طلقها ما ئة مرة او اكثر حتي قال الرجل لامراته والله لااطلقك نتبنين من ولا اووديك ابدا قالت وكيف زاك قال الطلقك نكلما همت عدتك ان تنقضي راجعتك فذهبت المراة حتيٰ دخلت علي عائشه فاخبر تها فسكتت عائشه حتيٰ جائ النبي صلي الله عليه وسلم فاخبرته فسكت النبي صلي الله عليه وسلم حتي نزل ......آیت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ......قالت عائشہ رضی اللہ عنہا فاستانف الناس الطلاق مستقبلا من کان طلق ومن لم یطلق (ترمذی)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فر ماتی ہیں۔ کہ (زمانہ جاہلیت) میں لوگوں کا یہ حال تھا۔ کہ مرد اپنی بیوی کو جتنی چاہتاطلاق دے دیتا پھر بھی وہ اس کی بیوی رہی رہتی جب کہ وہ عدت میں اس سے رجوع کرلیتا اگر چہ وہ اس کو سو یا اس سے بھی زیادہ طلاق دے چکا ہو۔ حتیٰ کہ زمانہ اسلام میں ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ خدا کی قسم نہ تو میں تجھے طلاق ہی دوں گا۔ تاکہ تو مجھ سے علحیدہ ہوجائے۔ نہ تجھے بسائوں گا اس کی بیوی نے کہا یہ کیونکر ہوگا۔ اس نے کہا میں تجھے طلاق دو ں گا جب تیری عدت ختم ہونے کو ہوگی تجھ سے رجوع کرلوں گا۔ پھر وہ عورت حضرت عائشہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے پاس گئی۔ اور اپنا سارا ماجرا بیان کیا۔ حضرت عائشہ   رضی اللہ تعالیٰ عنہا سن کر خاموش ہوگئیں۔ اتنے میں حضور ﷺ تشریف لے آئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ ﷺ کو اس عورت کا حال سنایا آپﷺ سن کرخاموش ہوگئے۔ حتیٰ کہ قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی۔ طلاق رجعی دو بار ہے۔ پھر اگر رکھنا ہے تو اچھی طرح رکھو اور چھوڑنا ہے تو اچھی طرح چھوڑ دو'' اس کے بعد لوگوں نے خواہ طلاق دے چکے تھے یا طلاق نہ دی تھی۔ نئے سرے سے (شرعی طور پر) طلاق دینی شروع کی۔

طلاق شرعی جس کو طلاق سنی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ہے کہ جب عورت حیض سے پاک ہو بحالت طہر اس کو ایک طلاق دے۔ اور اس سے جماع نہ کرے۔ پھر دوسرے مہینے میں جب حیض سے پاک ہو تو دوسری طلاق دے۔ پھر تیسرے مہینے میں حیض سے پاک ہونے کے بعد تیسری طلاق دے۔ یہی طلاق محرمہ اور طلاق قطعی ہے۔ اس طریقہ سے جوشخص طلاق دے گا۔ تو اس کی بیوی تیسری طلاق کے بعد اس پر حرام ہوجائے گی۔ اب تا وقت یہ کہ حلالہ شرعی نہ ہو وہ عورت اس کے لئے حلال نہیں ہے۔ اور حلالہ شرعی یہ ہے کہ وہ عورت اپنے طور پر کسی سے نکاح کرے۔ اور خاوند ثانی اس سے جماع بھی کرے۔ پھر وہ اپنے طور پر اس کو طلاق دے دے۔ تو خاوند اول کےلئے وہ عورت حلال ہوگی۔

اس کے خلاف جو لوگ اکھٹی تین طلاقیں دیتے ہیں۔ وہ طلاق بدعی اور غیر شرعی ہے۔ اسی طرح طلاق دینی ہی نہیں چاہیے۔ اگر طلاق دینے کی ہی ضرورت ہو تو طلاق شرعی بطور مذکور دینی چاہیے۔ اور اگر کوئی شخص تینوں طلاقیں اکھٹی دے گا۔ تو وہ مجموعی تین طلاقیں طلاق قطعی نہ ہوں گی۔ جن کے بعد عورت حرام ہوجاتی ہے۔ بلکہ ایک طلاق رجعی کے حکم میں ہوں گی۔ جس کے بعد خاوند کو عدت کے بعد رجوع کرنے کا پورا اختیار ہے۔  اور انقضاء عدت کے بعد تجدید نکاح کے ساتھ اپنے نکاح میں لا سکتا ہے۔ جیسا کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک طلاق دے یا دو طلاق دے تو اس کی عدت کے اندر بالاتفاق رجوع کرنے کا اختیار ہے۔ اور عدت گزرجانے کے بعد تجدید نکاح اس عورت کو بیوی بنانے کا حق ہے۔ کیونکہ اللہ نے رسم جاہلیت کو مٹا کر تین طلاقیں معین فرمادیں۔ اور اس کا طریقہ یہ بتلادیا۔ کہ علحدہ علحدہ مرہ بعد مرۃ دی جایئں اکھٹی نہ دی جائیں جیسا کہ آیت شریفہ ۔ الطلا ق مرتان

سے ظاہر ہے۔ کیونکہ مرتان لغت میں اس امر کے لئے آتا ہے۔ جس کا وقوع علحدہ علھدہ مرۃ بعد مرۃ ہوا ہو نہ کہ مجموعہ جیسے آیات ذیل اس پر شاہد ہیں۔

1۔ قال الله تعالي سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ اي مرة بعد مرة

2۔ أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ

3۔ أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ

پھرثلث مرات کی تفسیر آگے آیت میں تین اوقات عشاء دوپہر نماز فجر سے قبل کے ساتھ فرمائی۔

خلاصہ کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ نے تین طلاقیں رکھیں اور ان کے دینے کا شرعی طریقہ یہ بتایا کہ علیحدہ علحدہ بحالت طہر دی جایئں۔ اوردو طلاق تک رجوع کرنے کا اختیار دیا۔ اس میں حکمت ومصلحت یہی ہے کہ زوجین کو سوچنے اورسمجھنے کا موقعہ ملے اور خاوند اپنی غلطی پر نادم ہوکر اپنی بیوی سے رجوع کرلے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے طلاق کے سلسلہ میں خاوندوں کو اتنی مہلت دی ہے۔ کہ وہ سوچ بچار کرلیں۔ اور جلد بازی سے کام نہ لیں۔ اور یہ حق رجوع اور مہلت اسی وقت ہوسکتی ہے کہ جب مجلس واحد کی مجموعی تین طلاقوں کو ایک طلاق رجعی مانا جائے۔ اور اگر مجلس واحد کی تین طلاقوں کو تین قطعی محرمہ مانا جائے۔ جیسا کہ حنفیہ کا مذہب ہے۔ تو خاوندوں کا حق رجوع جو دو طلاق تک رکھاہے۔ وہ اس صورت میں قطعا ً سلب ہوجاتاہے۔ اور طلاق ایک ایسی فوری چیز بن جاتی ہے۔ کہ جس کے زبان کے نکلنے کے بعد خاوند کواپنی بیوی رجوع کرنے کا حق ہی رہتا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے سو ا طلاق شرعی قطعی کے رجوع کا پورا پورا حق اور اختیار دیا ہے۔ پس صحیح ومحقق قرآن وحدیث کی روشنی میں یہی ہے کہ مجلس واحد کی تین طلاقیں ایک طلاق کے حکم میں ہے۔ پس زیر صورت مرقومہ فی السوال میں بلاشک وشبہ عدت کے اندررجوع کرسکتا ہے۔ اور انقضاء عدت کے بعد بتجدید نکاح اپنے نکاح میں لاسکتا ہے۔ اس پرزیل کی دو حدیثیں بصراحت دال ہیں۔

عن ابن عباس قال كان الطلا ق علي عهد رسول الله صليٰ الله عليه وسلم وابي بكر رضي الله عنه وسنتين من عمر خلافه عمر طلاق الثلاث واحدة فقال عمر بن خطاب رضي الله عنه ان لناس قد استعجلوا في امر كانت لهم فيه اناة فلوا مضيناه علهيم فامضاه علهيم (مسلم )

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ عہد نبویﷺ او عہد ابو بکر رضی اللہ عنہ او ر دو سال خلافت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں تین طلاقیں مجلس واحد کی ایک شمار ہوتی تھیں۔ جب لوگوں نے غیر شرعی طور پر تین طلاقیں اکھٹی کثرت سے دینی شروع کیں۔ تو حضرت فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا لوگوں نے ایسے کام میں جس میں ا ن کے لئےمہلت تھی۔ جلد بازی شروع کردی۔ پس اگر ہم ان پر تین طلاقوں کو جاری کردیں۔ اور (رجوع نہ کرنے دیں) تو مناسب ہے۔ پس حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان پر جاری کردی۔ یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مجموعی طلاق ثلاثہ کو جاری کرنا شرعی حیثیت سے نہ تھا بلکہ محض انتظامی وتادیبی طور پر اس مصلحت کے ماتحت تھا۔ کہ لوگ طلاق دینے کے اس غیر شرعی طریقے سے باز آجایئں۔ اور طلاق کے صحیح شرعی طریقے کو اختیار کریں۔ جیسے کہ خود ان کے کلام سے ظاہر ہے۔

2۔ جواس سے بھی واضح ہے۔ جس میں تاویل کی گنجائش ہی نہیں

قال ابن عباس رضي الله عنه قال طلق ركانة عبد يزيد اخو بني المطلب امراته ثلاثا في مجلس واهد فحزن عليها حزنا شديد اقال فساله رسول الله صليٰ الله عليه وسلم كيف طلقتها قال طلقتها ثلاثا قال فقال في مجلس واحد قال نعم قال فانما تلك واحده فارجعها ان شئت قال فراجها فكان ابن عباس رضي لله عنه يراي انما اطلاق عند ل طهر

’’ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رکانہ بن عبد یزید اخو بنی مطلب نے مجلس واحد میں اپنی بیوی کو تین طلاق دیں۔ اس پروہ سخت غمگین ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تو نے کس طرح طلاق دی اس نے عرض کی میں نے ا س کو تین طلاقیں دیں۔ آپﷺ نےفرمایا ایک مجلس میں؟اس نے کہا ہاں ایک مجلس میں آپﷺ نے فرمایا سوائے اس کے نہیں کہ یہ ایک ہے۔ اگر تو چاہے تو اس سے رجوع کرلے۔ ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں اس نے اپنی بیوی سے رجوع کرلیا۔ ا س بنا پر کے مجلس واحد کی تین طلاقیں غیر شرعی اور ایک طلاق کے حکم میں ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خیال تھا کہ طلاق شرعی وہی ہے۔ جو طہر میں دی جائے‘‘ (مسند احمد)

قال ابن القيم في اعلام الموقعين وقد صهح الامام هذا الاسناد حسنه وقال الحافط في فتح الباري بعد زكر في هذا الحديث اخرجه احمد وابو يعليٰ وصححه من طريق محمد بن اسحاق وهذا الحديث نص في المسئلة لا يقبل لاتاويل الزي في غيره من الروايات انتهي فقط والله اعلم

(حررہ العاجز ابو محمد عبد الجبار غفرلہ الغفار صدر مدرس مدرسہ دارلعلوم شکراوہ ضلع گوڑ گائوں (مشرق پہنجاب)

الجواب

صورت مسئولہ عنہا میں زید کی تینوں طلاقیں واحدہ رجعیہ ہیں۔ اگر زوجین ایک دوسرے سے رازی ہیں۔ تو ازروئے شریعت حقہ محمدیہ (ﷺ)زید کو دوران عدت میں رجوع عن الطلاق کا حق حاصل ہے۔ اور بعد عدت وہ نکاح جدید سے اپنی زوجیت میں لاسکتا ہے۔

اس بارے میں علمائے احناف کا فتویٰ حرمت سراسر زیادتی اور تجاوز عن الحق ہے۔ صریح احادیث اور قرآنی آیات مبین ہیں کہ خیر القرون میں ایک مجلس کی تین یا زائد طلاقوں کو خود آپﷺ نے واحدہ رجعیہ قراردے کر رجوع کا حکم فرمایا ہے اس مسئلہ میں علمائے احناف

اولا آیت کریمہ الطلاق مرتان الاية اور دوسری آیت طلاق کے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ارسال طلاق دفعۃ ومفرقتہ ہردو طرح درست ہے اور کسی بھی آیت سے ایک طلاق وتین طلاق کے ایقاع میں فرق ثابت نہیں ہے بلکہ بقول علامہ کرمانی الطلاق مرتان الاية کے لفظ سے دو طلاقوں کے بیک جلسہ واقع ہونے کی دلیل ملتی ہے۔ پس جبکہ جلسہ دو طلاقیں واقع ہوسکتی ہیں۔ تو تین طلاقیں بھی واقع ہوسکتی ہیں۔

مگر یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔ علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ عسقلانی فرماتے ہیں۔ کہ جن آیات سے علمائے احناف استدلال کرتے ہیں۔ وہ آیت الٹا ان کے دعوے کی تردید کرتی ہیں۔ کیونکہ آیات طلاق عام مخصوص ہیں۔ اور ان کی تخصیص ان احادیث سے ہوتی ہے جن سے بصراحت ثابت ہے۔ کہ مجلس واحد کی تمام طلاقیں ایک شمار ہوں گی رہا علامہ کرمانی کا یہ کہنا یہ جب الطلاق مرتان الاية  دو طلاقوں کے دفعۃ وقوع پردلالت کرتی ہے تو تین کے وقوع پر کیوں نہیں دلالت کرے گا۔ تو یہ کہنا صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اول تو یہ لفظ مستدل کے دعویٰ کو صریح مخالفت کرتا ہے۔ دوسرے اگر اس سے دو طلاقوں کے دفعۃ وقوع پر استدلال لایا بھی جائے۔ تو اس سے کامل جدائی لازم نہیں آتی۔ بخلاف اس کے طلاقات ثلاثہ سے کامل جدائی لازم آجاتی ہے۔ پس پہلے پردوسرے کو قیاس کرنا کیونکر صحیح ہوسکتا ہے۔ ؟

ثانیاً۔ وہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔

كانت قال طلق جدي امراة له الف تطليقه فانطلق الي رسول الله  صليٰ الله عليه وسلم فزكر له زالك فقال ما اتقي الله جدك اما ثلاث فله واماتسع مائة وسبع وتعرن فعد وان وظلم ان شاء الله عذبه وان شاء غفرله اخرجه عبد الرزاق

لیکن اس حدیث سے بھی استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی سند میں یحیٰ بن علاء عبید اللہ بن ولید ہالک اور ابراہیم بن عبد اللہ مجہول راوی ہیں اور طاہر ہے کہ ایسی روایات قابل احتجاج نہیں ہوسکتی۔

سطور بالا سے یہ بات واضح ہوچکی ہے۔ کہ علمائے احناف کے استدلالات صحیح بنیاد پر قائم نہیں ہیں۔ بخلاف اس کے محدثین کرام کا مسلک صحیح احادیث سے ثابت ہ چنانچہ

حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔

 كان الطلاق علي عهد رسول الله صليٰ الله عليه وسلم وابي بكر وسنتين من خلافه عمر طلاق الثلث واحده فقال عمر بن الخطاب ان الناس قد استعجلوا ني امركانت لهم فيه اناة فلوا امضيناه علهيم فامضاه علهيم (رواه احمد ومسلم)

اس روایت سے بعض لوگوں میں یہ غلط فہمی پید ا ہوگئی ہے۔ کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں عہد نبوت ﷺ خلافت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ او سنتین من خلافہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں تو ایک ہی شمار ہوئیں لیکن اس کے بعد عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فاروق نے ان کو نافذ کردیا۔ لہذا اب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہی قول وفعل مفتی بہ اور قابل عمل ہوا۔ اور اس نے رسول اللہ ﷺ کے قول وفعل کو منسوخ کردیا۔ نعوذ باللہ اس قسم کی حرکت کرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ وہ شارع علیہ السلام کے قول وفعل کو صحابی کے قول وفعل سے منسوخ قرار دے کر کتنی بڑی زیادتی کا ارتکاب کررہے ہیں۔

2۔ حضرت ابو صبہاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔

انه قال لابن عباس هات من هناتك الم نكن طلاق الثلث علي عهد رسول الله صليٰ الله عليه وسلم وابي بكر واحده قال كان ذالك (رواه مسلم)

حضرت رکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔

انه قال يا رسول الله صليٰ الله عليه وسلم اني طلقتها ثلاثه قال قد علمت ارجعها ثم تلا واذا طلقتم النساء فطلقوهن لعدتهن واحصو االعدة الخ (رواه ابودائود)

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔

طلق ابو ركانة ام ر كانه فقال له رسول الله صلي الله عليه وسلم راجع امراتك فقال اني طلقتها ثلاثا قال قد علمت راجعها (رواه احمد والحاكم)

یہ اور ان جیسی دوسری روایات سے بصراحت ثابت ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مجلس کی تمام طلاقوں کوواحدہ رجعیہ قرار دیا ہے ا ور خیرالقرون میں صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کا اسی پر تعامل رہا۔

پس ہرمسلمان کو چاہیے کہ وہ کتاب اللہ وسنت رسول اللہ کو اپنے لئے قانون زندگی اور مشعل راہ ہدایت سمجھ کر اس کے مطابق اپنی زندگی گزارے اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں کودین کی سمجھ اور اس پرعمل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین

(العاجز عبد الرحمٰن سلفی۔ رجوروی مدرس دارالعلوم احمدیہ سلفیہ لھو یا سرائے در بھنگہ (9مارچ 54ء)الجواب ۔ صحیح۔ محمد ادریس اذاد رحمانی۔ جواب صحیح ہے۔ عبید الرحمٰن رحمانی احمدیہ سلفیہ الجواب صحیح۔ محمد عبدلحئی سلفی مدرس دارلعلوم احمدیہ سلفیہ

مسئلہ

طلاق کی آیت کریمہ اور احادیث نبوی ﷺ کو بغوردیکھا جائے۔ تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایک مجلس کی متعدد طلاقیں شرعی طور پر ایک ہی کا حکم رکھتی ہیں۔ قرآن مجید میں ہے۔ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ

یہاں’’مرتان ‘‘ پر غور کیجئے۔ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پربھی مرتان کا لفظ آیا ہے۔ جیسے سنعذبھم مرتین ظاہر ہے کہ یہ دونوں تعذیب ایک د وسرے کے بعد ہوں گی۔ بیک دفعہ نہیں ہوں گی۔ دوسری جگہ ہے

أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ۚ مِّن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ

یہاں پر اللہ تعالیٰ نے مرات کی تفصیل بھی بیان فرمادی ہے غور کرنے والے کو یہ وقفے صاف بتارہے ہیں۔ کہ یہ تینوں مرات تین اوقات میں ہیں ایک ہی وقت میں نہیں ہیں۔

صحیح احادیث میں اس تصریح مفصل موجود ہے جن میں سے بعض احادیث کوفاضل مجیب نے نقل بھی کیا ہے۔ ان میں سے بعض احادیث تو اتنی واضح ہیں کہ اس میں کوئی تاویل کی گنجائش نہیں ہے۔ چنانچہ احمد ابو یعلیٰ وغیرہ میں صحیح روایت ہے اس طرح ہے

طلق ركانة بن عبد يزيد امراته ثلاثا في مجلس واحد فحزن علهيا حزنا شديدا فساله النبي صلي الله عليه وسلم انما تلك واحدة فارتجعها الحديث

اس قسم کی صاف اور واضح حدیثوں کے بعد کس مومن کی مجال ہے۔ کہ انکار کردے۔ اور تاویل کی راہیں تلاش کرے۔ چنانچہ علامہ ابن حجر عسقلانیرحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو فتح الباری میں نقل کرتے ہیں۔ اور ا س کے بعد فرماتے ہیں۔

هذا الحديث نص في المسئلة لا يقبل التاويل

خود امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے امامو ں کا قول موجود ہے۔ کہ جب کوئی حدیث مل جائے۔ تو میرے قول کوچھوڑ کر حدیثوں پرعمل کرو۔ اور کیوں نہ ہو۔ جب کہ قرآن مجید ناطق ہے۔

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ

 جولوگ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فیصلے سے استدلال کرتے ہیں۔ ان کو یہ غور کرنا چاہیے کہ تمام اہل سنت والجماعت کا متفق علیہ قول ہے۔ کہ قرآن وحدیث صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کے فتاوے پر مقدم ہے۔ جب کوئی حکم صریح طور پرقرآن اور حدیث میں موجود ہو تو صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے قول سے فیصلہ کرنا اور استدلال کرنا بہتر نہیں۔ پھر اس مسئلہ میں یہ کس طرح درست ہوگا۔ کہ قرآن وحدیث کے ہوتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فیصلہ پر عمل کرنے لگیں۔

بعض اس وہم میں مبتلا ہیں۔ کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فیصلے پر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا اجماع ہوگیا تھا۔ مگر یہ بات عقل سے کس قدر بعید ہے۔ کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو مکہ کے مفتی رہ چکے ہیں۔ وہ حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بہت دنوں بعد تک مکہ میں مسند افتاء پرفائز تھے۔ وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف حدیثیں روایت کریں۔ اور دوسرے صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فیصلہ پر متفق ہو جایئں۔ یہی وجہ ہے کہ مدنیہ کے مفتی حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے علاوہ بڑے بڑے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کا مسلک یہی رہا ہے۔ کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوں گی جیسے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف عطاء طائوس وغیرہ۔

علاوہ ازیں ایک حق پرست کے لئے صرف یہ کافی ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ قرآن وحدیث میں کیا موجود ہے۔ کس نے کیا کہا اور کتنے اس کو کیا کہہ رہے ہیں۔ یہ حق کی کسوٹی نہیں ہے۔ حق کی کسوٹی دلائل ہیں۔ اور صرف قرآن وحدیث کے نصوص قطعیہ جو لوگ تفقہ کا ادعاء کرتے ہیں۔ وہ اس پر کبھی غو ر نہیں کرتے۔ کہ زوجین کی تفریق ابدی کےلئے ایک ہی بار طلاق دینا کافی کیوں نہیں سمجھاگیا۔ تین بار موقع کیوں دیا گیا۔ اس میں کون سی مصلحت اور حکمت ہے ظاہر ہے کہ انسان قوت غضبیہ اور جذبات سے کبھی مغلوب ہوجاتا ہے۔ رشتہ دائمی محض ایک بار کے بے سوچے سمجھے فیصلہ سے کاٹ دیا جائے۔ تو کس قدر حرج ہوگا اور زوجین کی زندگی کس قدر تلخ ہوجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ حکیم اکبر نے تین بار موقع دیا ہے۔ کہ تم سوچو اور بار بار سوچ کر قطعی فیصلہ آخر میں کرلو یہ تیسرا فیصلہ تمہارا قطعی فیصلہ ہوگا۔ پھر اس کے بعد تم کو کبھی بھی موقعہ نہیں دیا جائےگا۔

یہ بات کس قدر مضحکہ خیز ہے۔ کہ کوئی ناواقف غصہ میں یا جذبات سے مغلوب ہوکر اپنی بیوی سے کہہ دے۔ کہ ’’ میں نے تم کو تین طلاقیں دے دیں‘‘ اس کے دس منٹ کے بعد اس کا غصہ فرو ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے کہنے پر نادم ہے۔ اپنے معصوم اور ننھے بچوں کودیکھنا ہے۔ اور پھر اپنی راحت جاں بیوی کی وفاداری کو یاد کرتا ہے۔ تو فورا کسی فقیہ کے پاس آتا ہے وہ فقیہ یہ جواب دیتے ہیں کہ یہ بیوی تمہارے لئے ہمیشہ کے لئے حرام ہوگئی۔ البتہ تم حلالہ کرالو۔ تو وہ تمہارے نکاح میں آسکتی ہے۔ وہ غریب اپنے بچوں اور بیوی کے تعلقات تو دیکھتا ہے۔ اپنی اور اپنی رفیقہ کی زندگانی کی تباہی نظر کے سامنے آجاتی ہے۔ یہ سوچتے ہی اس کے پائوں تلے سے زمین نکل جاتی ہے۔ ناچار وہ اس فقیہ کے بناوٹی فتویٰ ''حلالہ''(جو حقیقت میں فحش کاری دیوثی ہے۔ ) پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ غو ر کیجئے کہ کیا شریعت حقہ عقل وفہم سے اس قدر بعید ہے ؟کیا اسلام اس عصمت ریزی کو پسند کرتا ہے؟

اصل بات یہ ہے کہ فقہاء نے طلاق کے اس مسئلہ کے سمجھنے میں کوتاہی کی ہے۔ اور جب انہیں اس معاملہ میں دشواری نظر آئی تو انہوں نے ’’حلالہ‘‘ کی اجازت دے دی۔ جوشریعت میں قطعا ً حرام ہے۔ اور جس کے کرنے والے پر اللہ اور اس کے رسول نے لعنت بھیجی ہے۔ انا اللہ ونا الیہ راجعون

کوئی ان فقہیوں سے یہ نہیں پوچھتا ہے کہ حضرت آپ کے یہاں یہ مسئلہ ہے کہ جو شخص یوں قسم کھائے کہ ''احلف باللہ ثلاثا'' تو آپ یہ فتویٰ دیتے ہیں۔ کہ ا س قسم ایک ہی شمار ہوگی۔ حالانکہ لفظ''ثلاثا'' کا معنی''تین''آتاہے۔ اور جب کوئی اپنی بیوی کو کہہ دے۔ طلقتک ثلاثہ''سےآپ ''واحدا'' مراد لیتے ہیں۔ اور دوسری جگہ ثلاثا سے ثلاثا مراد لیتے ہیں۔

دوستو! خدا اور اس کے رسولﷺ کا حکم موجود ہے۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کا حکم ہم سب کےلئے ذریعہ نجات ہے۔ اس کے علاوہ جتنے قول اور باتیں ہیں۔ وہ سب خرافات ااور گمراہ کن ہیں۔ الحذر ! الحذر !ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب (محمد ظہور رحمانی  رجوروی مدرس دارالعلوم احمدیہ سلفیہ لھو یا سرائے در بھنگہ۔ )

تین طلاقیں اور حنفی مذہب

از قلم حضرت خطیب الہند مولنا محمد صاحب جونا گڑھی رحمۃ اللہ علیہ

اہل حدیث تو اس صحیح حدیث کے مطابق جو مسلم وغیرہ میں ہے کہ تین طلاقیں ایک ساتھ دی ہوئیں نبی کریمﷺ کے زمانہ میں ایک ہی شمار کی جاتی تھیں۔ اور اس حدیث کے مطابق جو ترمذی ابودائود وغیرہ میں ہے کہ حضور ﷺنے ایسی تین طلاقوں والی ایک صحابیہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں اس کے خاوند کو لوٹا لینے کا حکم دیا تھا اپنا مذہب یہ رکھتے ہیں۔ کہ ایسی حالت میں عدت کے اندر رجوع کا ار بعد عدت اگر میاں بیوی رضا مند ہوں تو نئے نکاح سے بسنے کا اختیار ہے۔

لیکن حنفی مذہب کہتا ہے کہ ایسی صورت میں جب تک وہ عورت دوسرے مرد سے نکاح اور مجامعت نہ کرے۔ اگلے خاوند کے لئے حلال نہیں  ہوسکتی کہنے کو تو یہ ایک مسئلہ کہہ گئے لیکن پھر مشکلات جو سامنے آیئں تو کیا کیا مسائل ایجاد کرنے پڑے۔ انہیں دیکھئے! میرا تو خیال ہے کہ جو حیلے اس کے لئے ایجاد کئے گئے ہیں وہ جہاں بے دلیل بلکہ قرآن وحدیث کے خلاف ہیں وہاں مہذب انسان اور متمدن دنیا کے ماننے کے قابل بھی نہیں ہیں خیال فرمایئے۔

1۔ در مختار مصری جلددوم ص 584 میں لکھتے ہیں۔ اس کے لئے ایک بہترین لطیف حیلہ یہ ہے کہ اس عورت کا نکاح کسی فریب بلوغت غلام سے کردیاجائے اور دو گواہ کرلیے جایئں جب وہ دخول کرے۔ تو اس عورت کی ملکیت میں اس غلام کوکردے تو نکاح باطل ہوجائے گا۔ پھر وہ عورت اس غلام کو کسی اور شہر میں بھیج دے۔ تاکہ یہ معاملہ پوشیدہ رہے لیکن اس عورت کا ولی بھی اس نکاح پر رضا مند ہونا چاہیے۔

2۔ صفحہ 586 پر لکھتے ہیں۔ کہ گو اس شرط پر نکاح کرنا کہ میں تجھ سے نکاح کرتا ہوں۔ اس لئے کہ اگلے خاوند پر حلال ہوجائے۔ ہے تو مکروہ تحریمی لیکن اگر ایسا کرے تو عورت اپنے اگلے خاوند کےلئے حلال ہوجائے گی۔

3۔ پھر لکھتے ہیں کہ اگر یہ بات زبان پر نہ لائے جائے صرف دل ہی دل میں طے شدہ رلے تو کچھ کراہیت بھی نہیں۔ بلکہ اس صورت میں اس شخص کو خدا کی طرف سے بھی اجر ملے گا۔

4۔ پھر صفحہ 587 میں لکھتے ہیں۔ کہ ایک لطیف حیلہ اس کا یہ ہے۔ کہ نکاح کرنے والا کہے میں تجھ سے نکاح کرکے مجامعت کروں تو تجھے طلاق بائن ہے۔

5۔ یا یہ شرط کرے۔ کہ اگر میں تجھے نکاح کرکے تین دن سے زیادہ رکھوں تو تجھ پر طلاق بائن ہے۔

6۔ ایک اور صورت یہ ہے کہ عورت کہے میں تجھ سے نکاح کرتی ہوں۔ اس شرط پر کہ میرا اختیار میرے ہاتھ میں ہوگا۔ یعنی جب میں چاہوں اپنے تیئں طلاق دے دوں۔ (میں نے عربی کی عبارتیں بخوف طوالت چھوڑ دی ہیں۔ )یہ صورتیں تو آپ نے پڑھ لیں۔ اب ان حدیثوں پر بھی ایک نظر ڈالئے۔

حضور اکرم فرماتے ہیں۔ لا طلاق قبل نکاح یعنی نکاح سے پہلے طلاق نہیں(شرح السنہ) اور حدیث میں ہے۔ لا طلاق فیما لا یملک یعنی جس چیز کا مالک نہ ہو اس میں طلاق نہیں (ترمذی وغیرہ) اور حدیث شریف میں ہے۔

لعن رسول الله صلي الله عليه وسلم المحلل ولامحلل له

یعنی ’’اس شخص پر کہ جو کسی کی بیوی سے صرف اسی لیے نکاح کرے۔ کہ وہ اس پرحلال ہوجائے اس پر اور جس کےلئے یہ کیاگیا ہے۔ اس پر اور دونوں پررسول اللہ ﷺ نے لعنت کی ہے۔‘‘ (ابن ماجہ وغیرہ) پھر نکاح سے پہلے کی طلاق اور اس کی شرطیں اور ایسا کرنے اور ایسا کرانے والا ملعون اور پھر خود حدیث میں اس سے چھٹکارے کی بہترین صورت یعنی ان تین کو ایک گن لینے کی موجود۔ اب میں اپنے زمانے کے مقلدین احناف سے پوچھتا ہوں۔ کہیے آپ کی طبعیت ان مسائل کی طرف جھکتی ہے۔ جو فقہاء نے بیان فرمائے ہیں۔ یا ان کی طرف جو حدیث میں آئے ہیں۔ ؟میں تو آپ کو خیر خواہانہ مشورہ دوں گا۔ کے صرف فرمان رسول ﷺ کے پابند وعامل بن جائو فقہاء کو اسی درجے پر رکھو جو ان کا ہے۔ جس طرح ان کا گھٹانا بُرا ہے اسی طرح ان کا بڑھانا بھی بُرا ہے۔ فقہ کی کتابیں کچھ خدائی کتابیں تو ہیں ہی نہیں جو غلطی سے پاک صاف ہوں۔ مجتہد ااور آئمہ کچھ نبی تو نہیں جو وہ معصوم محض ہوں۔ گو آئمہ اپنی غلطی پر بھی ثواب پایئں۔ لیکن ہم آپ کی حدیث کے خلاف کس کی مان پر خُدا کے ہاں کیا منہ دکھائیں گے۔ پس جس کا قول مطابق قول پیغمبر ہو لے لو۔ ورنہ بزرگی مسلم اور قول نا مسلم حنفی عالمو! خدارا میری نصیحت پر عمل کرو۔ اس غلط مسئلے کو اور ان حیلوں کو چھوڑ دو۔ اور حدیث کے مسئلوں کوبرحق مان لو۔

لایا تو ہے نصیب ہمیں کوئے یارتک       دیکھیں گذر ہویا نہ ہوا س گلزار تک

حضرت ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔ کے ابو رکانہ نے اپنی بیوی ام رکانہ کوطلاق دے کر قبیلہ مزنیہ کی ایک عورت سے نکاح کرلیا۔ پس آپ نے فرمایا تو اپنی بیوی ام رکانہ سے رجوع کرلے اس پر ابو رکانہ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ میں تو اسے تین طلاقیں دے چکا ہوں۔ آپ نے فرمایا قد علمتُ راجعھا مجھے معلوم ہے جائو تم رجوع کرلو۔ پھر آپ نے آیت ۔ ۔ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ پڑھی۔ (ابودائود)یعنی اے نبی ! جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دو۔ تو ان کی عدت میں دو قرآن فرماتا ہےيَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ۔ (پ 28 سورۃ طلاق آیت 1)اس آیت کو حضور نے حضرت رکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طلاق کا مسئلہ بتلاتے وقت پڑھا تھا۔ جس سے آیت کا صاف مطلب یہ ہوا کہ تین طلاقیں دینے والا عدت میں باقاعدہ طلاق دیا کرے۔ یعنی ہر طہر میں بلا مجامعت حیض کے بعد ایک طلاق ۔ نہ کہ تینوں طلاقیں ایک ساتھ خود قرآن اور جگہ فرماتا ہے۔ الطلاق مرتان یعنی طلاق دو مرتبہ ہے پھر فرمایا۔ ۔

حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۔ یعنی پھر اگر طلاق دے دے۔ تو اب اسے اس عورت سے نکاح کرنا حلال نہیں ہے۔ جب تک کہ وہ دوسرے کے نکاح میں نہ چلی جاوے۔ (پھر وہ دوسرا مرجاوے یا اپنی خوشی سے الگ کردے)  پس ثابت ہوا کہ پہلی دو طلاقیں ایسی ہیں جن میں رجوع کا اور بلا کسی اور کے نکاح میں گئے طلاق دینے والے کے نکاح میں چلے جانے کا اختیار باقی ہے۔ چنانچہ دو طلاقوں کے زکر کئے بعد فرمایا۔الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ ﴿٢٢٩ سورة البقرة....یعنی ’’ان دو طلاقوں کے بعد یا تو اچھائی سے رکھے یا عمد گی سے چھوڑ دے‘‘ اور آیت میں ہے۔

وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ۚ﴿٢٢٨سورة البقرة....

یعنی ’’عدت کے اندر اندر ان کے خاوند کو ان کو لوٹا لینے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔‘‘ پس یہ ہے تین طلاقیں دینے کا شرعی قاعدہ حضور ﷺکے زمانے میں جس نے اس کا خلاف کیا تھا۔ اس پر آپ ناراض ہوئے اور فرمایا میری موجودگی میں تم کتاب اللہ کے ساتھ کھیل کرنے لگے ہو۔

برادران احناف! آئو میں تمھیں ایک بتائوں۔ یہ تو آپ نے معلوم کرلیا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنی خلافت کے تین سال تک ہی حکم رکھا۔ کہ تین طلاقوں کو جو ایک ساتھ دی جایئں ایک شمار کیجائے پھر تین سال بعد کسی وحی کے زریعے تو یہ حکم بدلا نہیں تو آج آپ کو اس کابدلہ ہوا اور سنت رسول ﷺ کونسخ شدہ کیوں مانیں؟اگر حضرت  عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فی لواقع اسے تین ہی جانتے۔ تو مان لو کہ محمد رسول اللہﷺ کے زمانے میں بادل نخواستہ خاموش رہے۔ خلافت صدیقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں باوجہ ماتحتی کے چپ رہے لیکن آخر خود مختاری کے زمانے میں تین سال تک ایک حلال کو حرام قرار دینا کہاں تک اپنے اندر ندرت رکھتا ہے۔ آج کونسی وجہ مانع تھی؟اصل بات یہی ہے جو منقول ہے۔ اور جسے آپ ابھی اوپر پڑھ کرآئے۔ کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہ تو شروع خلافت کے زمانے میں ایسی طلاق دینے والے پراس کی عورت حرام سمجھی۔ نہ بعد از شرع خلافت حرام سمجھی۔ ہاں لوگوں کی حالت بدل جانے سے ایک ایسا حکم جاری کیا۔ جس سے پھر وہ اپنی اصلی حالت پر آجایئں۔ دوستو اگر اسی پر اصرار ہے۔ کہ جنھیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ فتویٰ ابدا آباد کےلئے شرعی طور پر ہی دیا ہے۔ تو ہم کہتے ہیں۔ پھر آپ اور ہم اسے کیوں مانیں۔ ہم فاروقی تو نہیں محمدی ہیں۔  ہم نے ان کا کلمہ تو نہیں پڑھا۔ آپﷺ کا کلمہ پڑھا ہے۔ جس طرح حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ااس قول کو ہم نے نہیں مانا کہ حج میں تمتع نا درست ہے وغیرہ۔ اسی قول کو بھی ہم کیوں نہ چھوڑ دیں؟کہ ایسی تین طلاقیں تین ہی ہوجاتی ہیں۔ اور بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کئی ایک مسائل ہیں۔ جنھیں حنفی اور اہل حدیث دونوں نے بوجہ مخالفت حدیث چھوڑ رکھا ہے۔  پس آئو اسی قول کو بھی اسی باعث چھوڑدیں۔ اور خدا کی رخصت کو تنگی سے نہ بدلیں۔

سویت کہ پیام مارساند        ایں قصہ مگر صبار ساند

برادران میں مانتا ہوں۔ کہ بزرگوں کی بزرگی ماننا ضروری ہے۔ ان کی بات سر آنکھوں پررکھنا ہم چھوٹوں کا کام ہے۔ لیکن ذات کی بزرگی اور بات کی بذرگی میں حضرت محمدرسول اللہﷺ سے بڑھ کر کوئی نہیں اسی لئے ہم اہل حدیث تو یہی کرتے ہیں۔ کہ بزرگوں کی جو باتیں خلاف حدیث پایئں انہیں چھوڑ دیں۔ تاکہ رسول خداﷺ کی بات کی بزرگی جوں کی توں قائم رہے۔ سب بزرگوں کی بزرگی کریں۔ لیکن نہ اتنی کہ جتنی رسول اللہ ﷺکی کرتےہیں۔ یہی نصیحت آپ کو بھی ہم کرتے ہیں۔ کہ فقہائے کرام نبی نہیں جو وہ غلطی سے معصوم ہوں۔ امام صاحب بھی ایک مجہتد ہیں۔ اور خود حنفی مذہب کا اصول ہے۔ کہ المجتهد يخطي ويصيب یعنی مجتہد سے غلطی ہوتی بھی ہے۔ اور نہیں بھی ہوتی۔ تو اگر مان لیں کہ یہی مذہب فی الواقع اما م صاحب کا ہے۔ جب بھی ہم تو درد دل سے آپ کو خیر خواہانہ دعوت دیتے ہیں۔ کہ اس مسئلے میں جن جن مجتہدین اور فقہاء کے اقوال خلاف حدیث ہیں ان سب کو چھوڑ دو۔ اور حدیث کو لے لو۔ خدا کرے یہ آواز تمہارے کانوں تک پہنچے۔ اور دل میں اثر کرے۔

لئے جانا ہے نامہ بیکس         بال بیکا نہ ہو کبوتر کا

اس میں شک نہیں کہ تین طلاقیں جس عورت کو الگ الگ مطابق سنت باقاعدہ پکی ہوں۔ اس عورت کا اگر کسی اور سے نکاح ہوجائے۔ پھر وہ دوسرا اپنی خوشی کسی ان بن کی وجہ سے چھوڑ دے۔ یا مرجائے تو یہ عدت پوری کرکے اپنے اگلے خاوند سے نکاح کرسکتی ہے۔ خود قرآن فرماتاہے۔فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ ﴿٢٣٠سورة البقرة

لیکن یہ دوسرا نکاح بھی ویسا ہی ہو جیسے پہلے ہی تھا نہ کہ حلالہ کا حیلہ۔

مسلم بھایئو! آئو میں تم کو بخاری شریف کی ایک حدیث سنائوں۔ جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جاہلیت کے نکاحوں کا بیان کرتی ہیں۔ پھر فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو بھیج کر ہر طرح کے نکاح باطل کرادیئے۔ بجز اس ایک نکاح کے جو آج مشہور ومعروف ہے۔ پس ظاہر ہے کہ حلالے کا یہ نکاح بھی باطل ہے۔ اور نکاح کا کوئی طریقہ شرعا نکاح کہلوانے کا استحقاق نہیں رکھتا۔ بجز اس ایک طریقے کے جو آج مسلمانوں میں مشہور ومعروف ہے۔ پس اے غیر مند! مسلمانوں خدا کے حرام کو حلال کرکے زنا کو نکاح نہ سمجھو۔ اولا تو یہ بات خلاف شرع کہ تین طلاقیں ایک ساتھ دیں۔ حالانکہ یہ خلا ف شرع طریقہ تھا۔ پھر دوسرا خلاف یہ کیا کہ ان کو تین کو تین ہی شمار کیا۔ حالانکہ یہ بھی خلاف شرع طریقہ تھا۔ چھوتھا خلاف یہ کیا کہ اسے موجب حلت سمجھا حالانکہ یہ بھی خلاف شرع طریقہ تھا۔ پھر ان سب سے بڑھ کر خلاف یہ ہوگا ہ ان احادیث ودائل کو سن کر بھی اسی پر قائم رہا جائے اس لئے میں تو کہوں گا۔ کہ ابھی ابھی توبہ کرلو۔ اورحنفی مذہب کے اس مسئلے کو غلط جان کو ترک کرکے اہل حدیث کے مسلک کے مطابق قرآن وحدیث کے اس مسئلے کو مان لو۔ اللہ ہدایت دے آمین۔

اب آپ کے سامنے تین صورتیں ہیں۔ یا تو یہ کہ ایسی تین طلاقوں کو خلاف حدیث تین شمار کرکے میاں بیوی میں حرمت کا فتویٰ دے کر امت پر ایک بہت بڑا بھاری بوجھ دلا دیں۔ اور سختی اور سعوبت تنگی اور مصیبت بے چارگی اور شدت ہائے وائے اور مشقت کا دروازہ ان پر کھول دیں۔ یا مکروہ فریب دھوکہ بازی اور حیلے نفاق وزنا کاری حدود اللہ کے ساتھ کھیل آیات قرآنی کے ساتھ مذاق غیروں کا موردطعن وتشنیع بے حیائی اور بے باکی کی انہیں تعلیم دیں۔ اور حلالے کی طرف راغب کریں۔ یا مطابق قرآن وحدیث مطابق اجماع صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین وسلف صالحین کی ان کے سامنے وسعت وفسحت آسانی اور سہولت رکھدیں۔ اور کھلے الفاظ میں کہہ دیں کہ تین طلاقیں ایک ساتھ دینی منع ہیں۔ اور اگر کوئی دے دے تو وہ انھیں ایک شمار کرکے عد ت کے اندررجوع کا اور بعد از عدت بہ رضا ورغبت نئے نکاح سے بسنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اللہ ہمیں اپنے رسولﷺ کا سچا تابعدار بنادے۔ آمین

حنفی مذہب کے علماء کرام کا فتویٰ

کیا ایسی تین طلاقیں ایک ہی حکم میں ہیں۔ ؟

ناظرین کرام! میں اوپر لکھ چکا ہوں۔ کے حنفی مذہب کے اس غلط مسئلے کو مصر کے حنفی چھوڑ چکے اور انہوں نے اپنا دامن جھاڑ لیا۔ اب میں آپ کو بتلائوں کے آپ کے ہندوستان کے سمجھ دار حنفی بھی اس مسئلہ سے بیزار ہوچکے ہیں اور انہوں نے بھی اس کے خلاف اپنے فتاوے شایع کردیئے ہیں۔ میرے سامنے اس وقت ایک حنفیوں کا مطبوعہ رسالہ بنام''حق وصداقت کی عظیم الشان فتح'' رکھا ہوا ہے۔ جس می اسی مسئلہ پر موجودہ احناف کے فتاوے درج ہیں۔ اس  لئے میں نے مناسب جانا کہ ان فتووں کو ناظرین محمدی تک پہنچادوں۔ اس لئے کہ اس مسئلے کی پوری حقیقت ان کے سامنے آجائے۔ اور اس لئے بھی کہ اس سے ظاہر ہوجائے۔ کے خدا کے فضل وکرم سے باخبر حضرات تقلید جامد کو کس طرح چھوڑ رہے ہیں۔ اور اس لئے بھی کہ حنفی مذہب کے دوراز عقل ونقل مسائل کو زمانہ تھپیڑیں مار مار کر زمانہ کیسے چڑا رہا ہے۔ ہم اپنے زمانے کے بیدار مغز زمانہ شناس حنفی علماء کو مذید توجہ دلاتے ہیں۔ کہ اسی طرح وہ لوگوں کو کتب فقہ کے ایسے مسائل کی قید وبندسے رہائی دلایئں۔ اور قرآن وحدیث کے ماتحت انھیں لوگوں کے مقرر کردہ قوانین کی مشکلات سے آذادی عطا فرمایئں اس رسالہ کی عبارت مع سوال وجواب ملاحظہ ہو۔

سوال ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین بیچ اس مسئلے کے کہ ایک حنفی نے اپنی عورت کو ایک مجلس میں سات طلاقیں دیں۔ اہلدیث مذہب کے موافق بن کر ا س نے اپنا نکاح ثانی کرایا۔ کیا اس کا نکاح مذہب حنفی میں جائز ہے یا نہیں۔ ؟2۔ عامی (جاہل)آدمی اپنے آپ کو حنفی کہلاسکتا ہے یا نہ بینوا توجروا

الجواب۔ طلاق مذکورہ میں اہلسنت والجماعت میں اختلاف ہے۔ حنفیہ تین طلاق کے وقوع کے قائل ہیں۔ حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بعض حنفیہ سے ایک طلاق کاہونا نقل کیا ہ مثل محمد بن مقاتل (فتاویٰ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ جلد ثالث ص 17)

وهوا قول محمد بن مقاتل الرازي من ائمه الحنفيه

یعنی حنفی مذہب کے اماموں میں سے امام محمد بن مقاتل رازی کا بھی یہی مذہب ہے۔ اور فرقہ اہلدیث اور اہل ظاہر اور ایک جماعت حنفیہ اور مالکیہ اور حنابلہ اور امام جعفر صادق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور امام محمد باقر رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر اہل بیت تین کے وقوع کے قائل ہیں۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔

وقال اخرون (في الطلاق البدعة) لا يقع مثل طائوس وعكرمه وخلاص وعمر ومحمد بن اسحاق وحجاج بن ارطاة واهلل الظاهركدئواود اصحابه وطائفه من اصحاب ابي حنفيه ومالك

یعنی دوسری جماعت کہتی ہے۔ کہ ایسی تین طلاقیں تین نہیں ہوتیں۔ طائوس۔ عکرمہ۔ خلاص۔ عمر۔ محمد بن اسحاق۔ حجاج بن ارطاۃ۔ اور ظاہری مذہب والے یعنی داؤد۔ اور ان کےساتھی اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھیوں کی ایک جماعت کا بھی یہی مذہب ہے۔ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھیوں اور شاگردوں کا بھی یہی مذہب ہے۔

مولنا عبد الحئی صاحب مرحوم لکھنوی نے شرح وقایہ کے حاشیہ پر لکھا ہےکہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ایک قول یہی ہے۔

القول الثاني انه اذا طلق ثلاثه تقع واحدة رجعية وهذا هوا المنقول عن بعض الصحابه وبه قال دائود الظاهري واتباعه وهو احد القولين لمالك و بعض اصحاب واحمد ص ٦٧ جد ثاني حاشيه شرح وقاييه

یعنی قول ثانی یہ ہے کہ تین طلاقیں ایک ساتھ دینے سے ایک ہی پڑتی ہے۔ اور عدت کے اندر رجوع کر لینے کا حق حاصل رہتا ہے۔ یہی منقول ہے بعض صحابہ سے اور یہی ہے قول امام دائود الظاہری اور ان کے متبعین کا اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور بعض اصحابرضوان اللہ عنہم اجمعین امام احمد کے دو قولوں میں سے ایک قول یہی ہے۔

حنفی کا اہلحدیث ہونا اور اہلحدیث بن کر نکاح کرنا بروایت شامی صحیح ہے۔

حكي ان رجلا من اصحاب ابي حنيفه خطيب الي رجل من اصحاب الحديث ابنته في عهد ابو بكر الجوز جاني فابي الا ان يترك مذهبه فيقرا خلف الامام ويرفع يديه عند لا نحطاط ونحوذ لك فاجابه فووجه فقال الشيخ بعد ما سئل عن هذه واطرف راسه النكاح جائز

(شامی باب التغریر ص 294)

چونکہ اس شخص نے مذہب حنفی ہونے کی توہین کی ہے۔ اس واسطے اس آدمی پر دس آدمیوں کا کھاناکھلانا تاوان کے طور پر مقرر کیاجاتا ہے۔ عربی عبارات کا مطلب یہ ہے کہ ایک حنفی نے ایک اہل حدیث کے ہاں نکاح کرنا چاہا تو اس نے اس شرط پر نکاح کیا کہ آج سے وہ حنفی اہل حدیث بن جائے یعنی امام کے پیچھے الحمد پڑھے۔ اور رفع یدین کرے وغیرہ یہ واقعہ ابو بکر زوجانی کے وقت کا ہے شیخ سے جب اس مسئلہ کا سوال کیایا و سوچ سوچ کرجواب دیا کہ نکاح جائز ہے۔

3۔ عامی شخص کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اس واسطے اس کا حنفی کہلانا ایساہے۔ جیسے کوئی بلا نحو پڑھے۔ اپنے آپ کو نحوی کہلائے۔

قلت وايضا قالو اللعامي لا مذهب لا بل مذهبه مذهب مفتيه وعلله في شرح التحرير بان المذهب انما يكون لمن له نوع نضر واستدلال وبصر بالمذهب علي حسبه او لمن قرا كتابا في فروع زلك المذهب وعرف فتاويٰ امامه واقواله واما غيره ممن قال انا حنفي وشافعي لم يصر كن لك بمجر دا القول كقوله انا فقيه اونحوي (شامی باب التغرير)  

 یعنی عام لوگوں کا کوئی مذہب نہیں ان کا مذہب تو صرف ان کے مفتی کا مذہب ہے۔ وجہ یہ ہے کہ مذہب اس کا ہوتا ہے۔ جو اپنے مذہب میں قدرے غور وخوض اور استدلال کی قابلیت رکھتا ہو۔ یا اپنے مذہب کی کتاب پڑھے ہوئے ہو اور اپنے امام کے فتووں اور اس کے اقوال کوجانتا ہو۔ باقی جو شخص ایسا نہ ہو اور کہے کہ میں حنفی شافعی نہ ہو تو وہ در اصل حنفی یا شافعی بن نہیں جاتا جیسے کہ وہ یہ دعویٰ کرے کہ میں فقیہ ہوں۔ یا نحوی ہوں۔ تو فقیہ اور نحوی بن نہیں سکتا۔ اس صورت میں تو عامی  پر تاوان بھی ہے۔ اس کو جماعت سے روکنا حرام ہے۔ اورقطع تعلق کرنا ناجائز ہے۔

(حررہ خادم لعلما حکیم محمد قائم الدین حنفی فقہ بندے از جوال 22 رجب سن 1350 ہجری۔ عبد الغفور مولوی فاضل عطا محمد از جہادریاں)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص 214

محدث فتویٰ

 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ