السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر عورت صحیح داعیہ قوی سے خلع کرانا چاہے۔ اور مرد شرارتا بہ نیت ضرار خلع نہ کرے۔ تو فیصلہ کی کیا صورت ہو برخلاف عورت بوجہ غربت خاوند پیچھا چھڑاناچاہے تو ایسا قطع تعلق کیا جائز ہے۔ یا برخلاف لوگ عموماً ناچیز قصور پر بوجہ تعلق غیر اپنی منکوحہ بیوی کو بغیر داعیہ قوی طلاق دے دیتے ہیں۔ تو ایسی طلاق شرعا جائز ہے۔ طلاق اورخلع میں ہر دو کو کیا برابر اختیار ہے۔ (شیخ قاسم علی لدھیانوی)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وجوہات قویہ پر فیصلہ ہوتا ہے۔ محض ضرر کےلئے عورت کو روکنا خود قرآن مجید کی نص میں ممنوع ہے۔ ولاتمسكوهن ضراراً
اصل اصول یہ ہے سوء مزاجی موجب تفریق ہے۔ سوء مزاجی از جانب زوج پر عورت خلع کی درخواست کرے۔ تو حاکم بعد تحقیق سوء مزاجی کی معقول وجہ پائے تو خلع قبول کراکے جدائی کا حکم دے سکتا ہے۔ جس کو آج انگلستان میں طلاق از جانب زوجہ کہتے ہیں۔ عورت کی طرف سے سوء مزاجی ہو۔ تو مرد کو بااختیار خود طلاق دینے کا اختیار ہے ۔ کیونکہ مرد انسانی زندگی میں سینئر ہے۔ اور عورت جونیئر
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب