سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(262) نامردی کی بنا پر عورت کا طلاق مانگنا کیسا ہے؟

  • 6854
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1733

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک لڑکی کی شادی بالغ ہوجانے پر ہوئی ہے۔ عرصہ تقریبا تین برس  ہوتا ہے۔  شادی کے قبل یہ معلوم ہوا کہ لڑکا نامرد ہے تو اس سے پوچھا گیا کہ تم نامرد ہو یا نہیں اس نے کہا نہیں یعنی اس کے کہنے پر شادی کردی گئی۔ دو چار مہینے بعد تحقیق کرنے پرمعلوم ہوا کہ لڑکا نا مرد ہے۔ لڑکی اپنے سسرال جاتی ہے۔ تو اس سے اس کا شوہر ناراض رہتا ہے۔ اور شوہر کی ماں بھی رخ نہیں کرتی ہے۔ لہذا عورت کاسسرال میں نباہ نہیں ہوسکتا ہے اب لڑکی طلاق چاہتی ہے تو اگر شوہر طلاق نہ دے اور پنچایئت بھی طلاق نہ دلوایئں تو قرآن وحدیث سے طلاق دلوانا چاہیے یا نہیں جواب قرآن وحدیث سے ہوناچاہیے ؟(ضمیر الحق سوداگر چیر کنڈا)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نکاح سے غرض فریقین کی رفع ضرورت خاصہ ہے۔ اس لئے فرمایا

وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ ﴿٢٢٨ سورة البقرة...

پس جو شخص نکاح کے قابل نہیں اگر ثابت ہوجائے کہ نکاح سے پہلے ہی  قابل نہ تھا تو اس سے عقد نکاح صحیح نہیں۔ کیونکہ وہ اہل نہیں ایسے نکاح میں طلاق کی حاجت نہیں۔ واللہ اعلم۔ (اہلحدیث 10 اگست 1933ء)

شرفیہ

میں کہتا ہوں کہ قبل نکاح اس کا ناقابل  ثابت ہونا کیسے معلوم ہو۔ یہ صرف محض مدعی کے دعویٰ ہی سے ثابت نہ ہوگا۔ بلکہ  تحقیق وتجربہ سے ثابت ہوگا۔ جس کا زکر آثارصحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  میں ہے وہ یہ ہے۔ کہ جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ووغیرہم سے ثابت ہے۔

اما اثر عمر فعند عبدالرزاق والد دارقطني من روايه سعيد بن المسيب قال قضي عمر في الهنين ان يوجل سنة راي للعلاج واخرج ابن ابي شيبه من وجه اخر ئك سعيد واخرجه محمد بن الهسن في الاثار عن حنيفه عن اسماعيل بن مسلم عن الحسن بن عمر قال اتت امراة فذكر القصة فلما مضي الحول خيرها  فاختارت نفسها ففرق بينهما واخرجه ابن ابي شيبة من وجه اخر احسن عنه عن الحسن عن عمر بوجل العنين سنة فان وصل اليها ‘غه فرشنهيا ومن طريق الشعبي ان عمر كتب الي شريح ان يوجل العنين سنة من يوم يرفع اليه فان استطا عها والا فخيرها

واما علي رضي الله عنه فاخرجه عبد الرزاق من طريق يحي الجزاء عنه واخرجه ابن ابي شيبه من طريق الضهاك عنه والا سنادان الضعيفان

واما ابن مسعود رضي الله عنه فااخرجه عبد الرزاق وابن ابي شيبة ودارقطني من طريق حسين بن قبيصه عنه قال يوجل العنين سنة فان جامع والا فرق بينها وفي الباب عن المغيره بن شعبه رضي الله عنه اني اجل العنين سنة اخرجه ابن ابي شيبه وداراقطني وزاد في روايه من يوم رافعه من طريق الشعبي والنخعي وابن المسيب وعطائ والحسن قالو ايوجل العنين سنة انتهي ما في الدراية تخريج الهداية للحافظ ابن حجر رحمة الله عليه ص ٢٣٢آ٢٣١)

پس ان آثار سے ثابت ہوا کہ صحیح جواب یہ ہے کہ ایسے مقدمات میں جس دن سے مرافعہ حاکم قاضی وجج مسلم کے پاس جاوے۔  اسی دن سے شوہر کو ایک سال کی مہلت اپنا علاج کرنے کےلئے دی جائے۔ اس مدت میں اگر وہ قابل جماع ہوجائے۔ تو نکاح باقی رہے گا۔ ورنہ عورت کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ اس کے عقد میں رہے یا فسخ نکاح کو اختیار کرے۔ یا حاکم ہی فسخ نکاح کا  حکم جاری کردے۔

تشریح مفید

سوال کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص کا نکاح اس وقت ہوا تھا جس وقت وہ نابالغ تھا۔ اس کے وارثوں نے نکاح قبول کیا تھا۔  جب وہ شخص بالغ ہوا تو وہ عین نامرد نکلا۔ جو عورت کے قابل نہیں ہے۔ اب اس عورت واسطے شرع  شریف سے کیا حکم ہے۔ آیا اس کی وہ عورت بیٹھی رہے یا دوسرا نکاح کرے۔ اور جو اس شخص سے کہا جاتا ہے کہ تو اس کو طلاق دے۔ تو وہ  اجہل طلاق دینے سے انکارکرتا ہے۔ جیسا کچھ حکم شرع شریف سے ہو ویسا ہی کیا جاوے؟

الجواب۔ صورت مسئولہ میں اس عورت کو چاہیے کہ حاکم وقت کے یہاں اس امر کی  درخواست کرے۔  کہ میرا شوہر عنین ہے پھر وہ حاکم موافق  فتویٰ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین  کے اس کے شوہر کو علاج کرنے کےلئے ایک برس کی مہلت دیوے اگر اس کا شوہر اس ایک برس کے اندر  اچھا ہوگیا۔ فبہا ورنہ وہ حاکم اس عورت اور اس کے شوہر میں تفریق کردے۔ پھر بعد تفریق کے وہ عورت اپنا دوسرا نکاح کرسکتی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  درایہ تخریج ہدایہ صفحہ 231 میں لکھتے ہیں۔

اما عمر فعند عبدالرزاق والدارقطني من رواية سعيد بن المسيب قال قضي عنر في العنين ان يوجل سنة واخرجه ابن ابي شيبه من وجه اخر عن سعيد واخرجه محمد بن الحسن في الاثار عن ابي حنفيه رحمة الله عليه عن ااسماعيل بن مسلم عن الحسن عن عمر رضي الله تعاليٰ عنه (اليٰ قولة) واخرجه ابن ابي شيبه من وجه اخر احسن عنه عن الهسن عنر عمر يوجل العنين سنة فان وصل اليها والا فرق بينها ومن طريق الشعبي ان عمر رضي الله تعاليٰ عنه كتب اليٰ شريح ان يوجل العنين سنة من يوم يرفع اليه فان استطاعها والافخيرها الي قوله واما ابن مسعود رضي الله تعاليٰ عنه فااخرجه عبدالرزاق وابن ابي شيبه والدارقطني من طريق حصين بن قبيصه عنه قال بوجل العنين سنة فان جامع والا فرق بينها وفي الباب عن المغيره بن شعبه اني اجل العنين سنة اخرجه ابن ابي شيبة والدارقطني وزاد في رواية من يوم رافعته ومن طريق الشعبي والنخعي وابن المسيب وعطا ء والهسن قالو ايوجل العنين سنة انتهي

(کتبہ محمد عبد الرحمٰن۔ المبارک فوری ۔ سید محمد نزیرحسین دیلوی فتاویٰ نزیریہ جلد دوم ص 1629

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص 211

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ