السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص نے اپنی جد کی زوجہ یعنی سو تیلی دادی سے نکاح کیا۔ اور عورت مذکورہ سے ملا اس سے حمل بھی ہوا۔ حمل سے لڑکا پیدا ہوا کیا یہ نکاح درست ہے؟ (صدرالدین از چنیوٹ)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجید میں ارشاد ہے۔
وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم
’’ترجمہ۔ تمہارے باپ دادوں نے جن عورتوں سے نکاح کیے ہیں۔ ان کے ساتھ تم نکاح مت کرو۔ ‘‘اس لئے سوتیلی دادی بھی مثل سوتیلی ماں کے حرام ہے۔ (18 جمادی الاول 39ء)
(نوٹ ) پہلے یہ مسئلہ کبھی اہلدیث میں غلط چھپ گیا تھا۔ علم ہونے پر فورا اس کی تصیح کردی گی تھی۔ (اہلحدیث مورخہ 3 شوال 1328ہجری) ملاحظہ ہو۔ (اہلحدیث 18 جمادی الاول 39ہجری)
رمضان 1328ہجری کے کسی پرچہ میں ایک فتویٰ چھپ گیا تھا کہ باپ کی سوتیلی ماں ممنوعات محرمہ کی فہرست میں بنیں۔ چونکہ یہ فتویٰ غلط تھا اس لئے فورا ً 3 اکتوبر 19ء کے اہلحدیث میں اس کی اصلاح کردی گئی۔ اور صاف لکھا گیا کہ سوتیلی دادی بھی
وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم
میں داخل ہے۔ اس کے بعد بھی اس پر اطلاع درج ہوتی رہی۔ آج پھر سن کو اس اصلاح کا اعلان کیا جاتا ہے۔ (18 مارچ 1932ء)
بالکل صحیح ہے اور یہ کہ شخص مذکورہ کا نکاح نہ تھا زنا تھا۔ اور حمل سے جو بچہ پیدا ہوا وہ حرام زادہ ہے۔ نسل صحیح نہیں نہ ترکے کا مستحق۔ (ابو سعید شرف الدین دہلوی)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب