سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(245) بعد بلوغت کے ہندہ کا نکاح سے راضی نہیں..الخ

  • 6837
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 920

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید نے اپنی لڑکی ہندہ کی عدم بلوغت کے وقت بکر سے شادی کرلی بعد بلوغت کے ہندہ  راضی نہیں۔  ازروئے شرع شریف کیافیصلہ ہے؟(خیر الدین سنتال پرگنہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہندہ کو بعد بلوغت نکاح فسخ کرانے کا اختیار ہے۔

شرفیہ

یہ مسئلہ بھی ہمارے اصحاب میں رائج ہوگیا ہے۔ مگر جس حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔ اس سے ثابت نہیں ہوتا۔ وہ حدیث خنساء بنت حرام کی ہے اس لئے کہ اس کا عدم بلوغ بوقت عقد نکاح ثابت نہیں بلکہ اس سے بوقت نکاح انکار وکراہتہ سے بلوغ ثابت ہے۔ پھر جملہ حالیہ وھی کارھۃ سے ثابت ہے وہ نکاح منقعد نہ ہوا تھا۔ معلق تھا۔ لہذا یہ استدلال فسخ باطل ہے۔ (ابو سعید شرف  الدین دہلوی)

تشریح مفید

الجواب۔ حنفیہ کے نزدیک جب صغیرہ کا نکاح اس کا باپ یا دادا کردیوے تو بعد بلوغ کے صغیرہ کو فسخ نکاح کا اخیتار باقی نہیں رہتا ہ اور اگر باپ یا دادا کے سوا کوئی اور ولی صغیرہ کا نکاح کردیوے۔ تو بعد بلوغ کے اس کو فسخ نکاح کا اختیار باقی رہتا ہے پس صورت مسئولہ میں حنفی مذہب سے یہ نکاح  جائز ہے۔ اور اس لڑکی بالغہ کو بعد بلوغ کے فسخ نکاح کا اختیار نہیں خواہ اس نکاح سے وہ راضی ہو یا راضی نہ ہو چاہےشوہر کے یہاں اس کے گزر کی صورت ہو یا نہ ہو۔ کچھ بھی ہو چونکہ یہ نکاح کیا ہوا باپ کا ہے۔ اس وجہ سے لازم ہوگیا۔ اب لڑکی کی منظوری وناراضی سے فسخ نہیں ہوسکتا۔ اور اہلحدیث کے نزدیک جب صغیرہ کا نکاح باپ یا دادا یا کوئی اور ولی کردیوے۔ تو وہ صغیرہ بالغ ہوکر اس نکاح سے راضی نہ ہو۔  تو اس کو  فسخ نکاح کا اختیار باقی رہتا ہے۔  چاہے وہ اپنے نکاح کو فسخ کرے یا باقی رکھے۔ پس صورت مسئولہ میں حدیث کی رو سے اس لڑکی کو بالغ ہونے پر اختیار ہے۔ چاہے اپنے اس نکاح کو فسخ کرڈالے۔ یا باقی رکھے اور یہی بات حق ہے۔ اور حنفیہ کا جو مذہب اوپر بیان ہوا ہے۔ اس کی کوئی دلیل صحیح نہیں ہے۔ بلوغ المرام میں ہے۔

عن ابن عباس ان جارية بكر اتت النبي صلي الله عليه وسلم فذكرت ان اباها زوجها وهي كارهة فخيرها رسول الله صلي الله عليه وسلم (رواه احمد وابوداود وابن ماجة سبل السلام ص 67 ج2) میں ہے۔

فالعلة كراهتها فعليها علق التخير لا نها المذكورة فكانه قال صلي الله عليه وسلم اذا كنت كارهة فانت باخيار وقول المصنف انها واقعة عين كلام غير صحيح بل حكم عام لعموم علة فاينما وجدت الكراهة ثبت الحكم وقد اخرج انسائي عن عائشة ان قتادة دخلت عليها قالت ان ابي زوجني من ابم اخيه يرفع في خيمه واناكارهة قالت اجلسي حتي ياتي رسول الله صلي الله عليه وسلم فاخبرته فارسل الي ابيها فدعاه فجعل الامر اليها فقالت يا رسول الله صلي الله عليه وسلم قد اجزت ما صنع ابي ولكن اردت ان اعلم النساء ان ليس لاباء من الامر شيئ والظاهر انها بكر  ولعلهاالبكر التي في حديث ابن عباس وقد زوجها ابو ها كفو ابن اخيه وان كانت ثيبا فقد صرحت انه ليس مرادها الااعلام النساء انه ليس لاباء من الامر شي ولفظ النساء عام للثيب والبكر وقد قالت هذه عنده صلي الله عليه وسلم فاقرها عليه والمراد ينفي الامر من الاباء نفي التزويج للكارهة لان السياق في ذلك فلا يقال هوعام لكل شي انتهي ما في السبل ص 67 ج 2 حررہ محمد علی  ت نجابی فیروز پوری عفی عنہ (فتاویٰ نذیریہ جلد 2 ص 164)

-------------------------------------------

1۔  روواه احمد وابوداود وابن ماجة قال الحافظ في بلوغ المرام واعل بالا رسال انتهي وقال  في للسبل واجيب عنه بانه رواه ايوب بن سويد عن الشوري عن ايوب موصوله وكذلك رواه معر بن سليمان الرقي عن زيد بن حبان عن ايوب موصولا واذا اختلف في وصل الحديث وارساله  فالحكم لمن وصله قال الصنف الطعن في الحديث لا معني له كان له طرقا يقوي بعضها ما بعضها انتهي(ابو سعید محمد شرف الدین عفی عنه)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص 197

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ