السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک مسماۃ کا نکاح ہمرا ہ ایک شخص کے ہوا جب کہ فریقین بحالت نابالغی تھے۔ اسی اثناء میں مسماۃ مذکور کو اس کے خاوند کا ولی اپنے گھر لے گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد بالغہ ہوگئی اور اس کا خاوند ابھی تک نابالغ تھا۔ نابالغ خاوند کا باپ لڑکی کو ناجائز فعل پر مجبور کرتا رہا وہ مار وغیرہ سے تنگ آکر اپنی بیوہ والدہ کے پاس چلی جاتی رہی۔ پھر خاوند کا باپ لڑکی والے گائوں میں آکر لوگوں کی منت سماجت کرکے پھر لے جاتا۔ اور اس کو فعل بد پر مجبور کرتا۔ اب وہ لڑکی کسی طرح اپنے خاوند کے باپ کے گھر جانے کو تیار نہیں خاوند نے اب دعویٰ دائرکردیا ہے۔ مگر شہادت نکاح کوئی نہیں۔ اگر دعویٰ خاوند مذکور کا خارج ہوجائے تو کیا وہ نکاح ثانی کرسکتی ہے۔ اگر کرسکتی ہے تو کتنی عدت کی ضرورت ہے۔ کیا دوران مقدمہ نکاح کرسکتی ہے۔ (سی ڈی معرفت بابو عالم خانصاحب)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت مرقومہ میں مسماۃ مذکورہ کو اختیار فسخ حاصل ہے۔ اس وجہ سے کے بوقت نکاح وہ نابالغہ تھی۔ عند الحنفیہ اس کی بھی ضرورت نہیں۔ والد ناکح کے فعل سے نکاح فسخ ہوگیا۔ اب اس کو اختیار ہے دوسری جگہ نکاح کرلے۔ بوجہ عدم ملاپ اصل خاوند کے عدت اس پر واجب نہیں ۔
صورت مذکورہ میں عدالت میں مقدمہ دائر کرکے فیصلہ کرایا جائے خواہ خلع ہو یا ایسے طلاق خواہ حاکم فسخ کردے۔ (ابو سعید شرف الدین دہلوی)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب