السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا تراویح یا تہجد یا قیام الیل کی نماز ایک تسلیم سے چار رکعات پڑھ سکتے ہیں یا دو دو رکعات ہی پڑھی جائے؟ اگر چار پڑھ لے تو جائز ہیں یا حرام یا بدعت؟ قران اور سنت اور اثارِ سلف کی روشنی میں جواب دیجیے۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!نماز تراویح اور تمام نفلی نمازوں میں افضل یہ ہے کہ دو دو رکعت کر پڑھی جائے۔کیونکہ نبی کریم کا ارشاد گرامی ہے۔ «صلاة الليل مثنى مثنى. صحيح مسلم » كتاب صلاةالمسافرين وقصرها » باب صلاة الليل مثنى مثنى والوتر ركعة من آخر الليل»رات کی نماز دو دو رکعات ہے۔ اگر کوئی شخص دو کی بجائے چار چار پڑھتا تو بھی جمہور اہل علم کے نزدیک ایسا کرنا جائز ہے۔ کیونکہ چار چار پڑھنے کی حدیث بھی نبی کریم سے ثابت ہے۔ سیدہ عائشہ فرماتی ہیں۔ «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة، يصلي أربعاً لا تسأل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي أربعاً فلا تسأل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي ثلاثاً»رسول اللہ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے،آپ چار رکعات پڑھتے،آپ ان کی خوبصورتی اور طوالت کا نہ پوچھیں،پھر چار رکعات پڑھتے،آپ ان کی خوبصورتی اور طوالت کا نہ پوچھیں،پھر تین رکعات پڑھتے تھے۔ ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصوابفتاویٰ ثنائیہجلد 2 |