السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حیض ونفاس کی اقل واکثرمدت محدثین کے نزدیک کتنی ہے ؟کیاان ایام میں مساس وقراءت قرآن جائز ہے۔؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حیض کی اقل اوراکثرمدت میں اختلاف ہے ۔حنفیہ کہتے ہیں :اقل مدت تین دن ہیں اوراکثردس دن ہیں اورشافعیہ اورحنابلہ وغیرہ کہتےہیں کہ اقل ایک دن رات ہے اوراکثرپندرہ دن ہے
حنفیہ اپنے مذہب پرمندرجہ ذیل حدیث پیش کرتے ہیں :
«اقل الحیض للجارة البکروالثیب ثلاثة ایام واکثرعشرة ایام ۔»
’’یعنی کنواری اوربیوہ کےلیے اقل مدت حیض تین دن ہیں اوراکثردس دن ہیں ۔‘‘
اس کوطبرانی اور دارقطنی نے روایت کیاہے مگراس کى اسنادمیں عبدالمالک مجہول ہے اورعلاء بن کثیراورحفص بن عمرالعدل دونوں ضعیف ہیں ۔نیز یہ اسنادمنقطع ہے ۔اگرچہ اس حدیث کےقریب اور روایتیں بھی آئی ہیں مگروہ بھی سب ضعیف ہیں۔ چنانچہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے تخریج ہدایہ کے ص 44میں ان کی تفصیل کی ہے ۔مولوی عبدالحئی صاحب لکھنوی عمدۃ الرعایۃ حاشیہ شرح وقایہ کے ص 103 میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ روایات ضعیف ہیں مگرکئی سندوں سے مروی ہیں اس لیے ان کوقوت حاصل ہوگئی نیزانس رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ ،معاذ رضی اللہ عنہ اورعثمان بن ابوالعاص اور ان کے علاوہ دیگرصحابہ رضی اللہ عنہم کے فتاوی بھی ان روایتوں کے موافق ہیں۔اس سے بھی ان روایتوں کوتقویت ہوگئی۔
مولوی عبدالحئی صاحب نے جوکچھ لکھاہے اس میں کچھ شبہ ہےوہ یہ کہ کئی سندوں سے تقویت اس وقت ہوتی ہے جب سندوں میں تھوڑاتھوڑاضعف ہو۔ یہاں بہت زیادہ ضعف ہے اورفتاوی صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی کیئوں کی سندضعیف ہے ملاحظہ ہودارقطنی صفحہ 77اورکتاب الامام امام شافعی رحمہ اللہ جلداول ص 55 وغیرہ نیز صحابہ رضی اللہ عنہم میں اس مسئلہ میں اختلاف ہے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کاقول آگے آتاہے کہ اکثرمدت حیض کی پندرہ دن ہیں اوراقل ایک دن رات ہے اس لیے یہ تقویت مفیدنہیں ۔
نیزاس حدیث میں جوحنفیہ نے پیش کی ہے یہ لفظ ہیں:
«للجاریة والثیب التی قدالیست من الحیض» (دارقطنی ص 80)
یعنی کنواری اوربیوہ حیض سے ناامیدی کے زمانہ کوپہنچ گئی اس کے حیض کی اقل مدت تین دن ہیں اوراکثردس دن ہیں۔حالانکہ یہ کسی کامذہب نہیں کہ بیوہ ناامیدی کے زمانہ کوپہنچ جائے توپھراقل مدت تین دن ہیں اوراکثردس دن ہیں نہ حنفیہ اس کے قائل ہیں نہ کوئی اور۔پس اس حدیث کودلیل میں پیش کرنا ٹھیک نہیں ۔
شافعیہ اورحنابلہ وغیرہ اپنے مذہب پریہ حدیث پیش کرتے ہیں :
«تمکث احدهن شطرعمرہالاتصلی »
’’یعنی عورت اپنی نصف عمرنماز نہیں پڑھتی۔‘‘
اس کوعبدالرحمن بن ابی حاتم نے اپنی سنن میں روایت کیاہے ۔
اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے تلخیص الحبیریرص 60وغیرہ میں بیہقی سے نقل کیاہے کہ میں نے اس کوکتب حدیث میں نہیں پایا۔اسی طرح اوروں سے بھی نقل کیاہے کہ یہ حدیث ہمیں نہیں ملی ۔اورقاضی ابولعلی سے بحوالہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نقل کیاہے کہ اس حدیث کوعبدالرحمن بن ابی حاتم نےاپنی کتاب السنن میں روایت کیاہے ۔پھرکہاہے عبدالرحمن بن ابی حاتم کی کوئی کتاب نہیں جس کوسنن کہاجاتاہولیکن ہوسکتاہے کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ کوکتاب السنن کاپتہ نہ لگا ہو اور قاضی ابوالعلی کو لگ گیا ہو اورممکن ہےقاضی ابوالعلی کوکتاب کےنام میں غلطی لگی ہو۔بہرصورت اس میں شبہ نہیں کہ عبدالرحمان بن ابی حاتم اپنی کسی کتاب میں اس کوباسناد لائے ہیں۔ کیونکہ قاضی ابوالعلی جھوٹ نہیں کہہ سکتے ۔رہی یہ بات کہ یہ صحیح ہےیاضعیف ۔ تواس کامدار اس کی سندکےدیکھنے پرہے۔چونکہ کتاب کاملنا مشکل ہے ۔اس لیے اس پرکوئی حکم نہیں لگ سکتا ۔سردست اس کویوں ہی سمجھ لیاجائے کہ یہ ضعیف ہے۔
شیخ منصوربن یونس بہوتی نے شرح منتہی الارادات کے ص 94میں اورشیخ منصوربن ادریس نے کشاف القناع عن متن الاقناع کے ص 144میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کیاہے :
«مازادعلی خمسة عشراستحاضة واقل الحیض یوم ولیلة ۔»
’’یعنی جوپندرہ دن سے زیادہ ہوجائے وہ (حیض نہیں بلکہ بیماری کاخون)استحاضہ ہے اوراقل حیض ایک دن رات ہے۔‘‘
پھران دونوں صاحبان نے بحوالہ امام احمدرحمہ اللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک ماہ میں تین حیض آنے کاقول بھی نقل کیاہے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ ایک دن حیض آکر13دن بندرہا،پھرایک دن آکر13دن بندرہا،پھرایک دن حیض آگیا۔ پھرکہاہے اس میں رائے قیاس کاکوئی دخل نہیں توگویاحضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لیا ہے۔ اس سے بھی معلوم ہواکہ اقل مدت حیض کی ایک دن رات ہے۔
شیخ منصوربن ادریس رحمہ اللہ نے کشاف القناع کے صفحہ مذکورہ پرحضرت علی رضی اللہ عنہ کےقول کی تائیدمیں (کہ اکثرمدت حیض کی پندرہ دن ہیں) کتاب السنن عبدالرحمن بن ابی حاتم کے حوالہ سے اوپرکی حدیث بھی ذکرکی ہےیعنی عورت اپنی نصف عمرنماز نہیں پڑھتی ۔پھربیہقی رحمہ اللہ سے نقل کیاہے کہ میں نے اس حدیث کوکسی کتاب حدیث میں نہیں پایا۔ اور امام ابن منجا سےنقل کیاہے کہ یہ حدیث کسی طرح ثابت نہیں پھرکہا ہے :
’’قال فی المبدع وذکرابن منجاانه رواہ البخاری وهوخطاً ‘‘
یعنی مبدع میں کہاہے کہ ابن منجانےاس حدیث کوبخاری کی طرف منسوب کیاہے ۔حالانکہ یہ غلط ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہواکہ فریقین کی پیش کردہ احادیث ضعیف ہیں ۔جواستدلال کے قابل نہیں بلکہ حنفیہ نےجوحدیث پیش کی ہے وہ خودبھی اس کے قائل نہیں ۔کیونکہ اس میں بیوہ کے ساتھ ناامیدی کےزمانہ کوپہنچنے کی قیدہے ۔اوراقوال صحابہ رضی اللہ عنہم دونوں طرف ہیں ۔تواب فیصلہ کس طرح ہو؟ ہمارے خیال میں اب واقعات کی طرف رجوع کرناچاہیے ۔واقعات مذہب شافعیہ اورحنابلہ وغیرہ کوترجیح ثابت ہوتی ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ کتاب الام جلداول ص 55 میں فرماتے ہیں کہ ایک عورت کوہمیشہ ایک دن حیض آتاتھا۔اس پرکبھی زیادہ نہیں ہوا۔خوداس نے مجھے کہااورکئی اورکا ذکرکیاجن سے بعض کوتین روزسے کم حیض آتاتھااوربعض کوپندرہ روز اوربعض کو تیرہ روز۔
شیخ منصوربن ادریس رحمہ اللہ نے کشاف القناع جلداول ص 144میں عطا بن رباع سے نقل کیاہے کہ میں نے ایک عورت کو دیکھا اس کوپندرہ دن حیض آتاتھا اورابوعبداللہ الزبیری سے نقل کیاہے کہ ہماری عورتوں میں بعض کوایک دن حیض آتاتھا۔
دارقطنی کے ص 77میں ہے ۔شریک رحمہ اللہ کہتے ہیں :ہمارے ہاں ایک عورت ہے جس کاحیض تندرستی اورصحت کے ساتھ پندرہ دن رہتاہے ۔اوزاعی رحمہ اللہ کہتے ہیں :ہمارے ہاں ایک عورت ہے اس کوصبح سےحیض شروع ہوتاہے شام کوپاک ہوجاتی ہے۔
اس طرح کے بہت واقعات ہیں جن سےثابت ہوتاہے کہ حیض کی اقل مدت ایک دن رات ہے اوراکثرپندرہ دن ہےبلکہ امام اوزاعی رحمہ اللہ نے جوواقعہ ذکرکیاہے اس میں صرف ایک دن بغیررات کے مذکورہے۔کیونکہ اس میں ذکرہے کہ صبح سے شروع ہوکرشام کوبندہوجاتاہے ۔پس راجح وہی ہے جوواقعات سے ثابت ہے اورصحابہ رضی اللہ عنہم سے مختلف روایتیں آنے کا سبب بھی واقعات ہی ہیں جن صحابہ رضی اللہ عنہم نے اقل مدت تین دن اوراکثردس دن بتلائی ہے ان کوایک دن اور پندرہ دن کاواقعہ پیش نہیں آیا اس لیے انہوں نے یہی خیال کیا۔اورجوایک دن اورپندرہ دن کے قائل ہیں ۔ان کےمشاہدہ میں یہ شئے آگئی ۔پس ان کی بات معتبرہوگی۔
نفاس کی اقل مدت کی بابت ایک ضعیف حدیث حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے تخریج ہدایہ ص 44 میں ذکرکی ہے اس میں ہے:
«لانفاس دون اسبوعین ولانفاس فوق اربعین یوماً۔»
یعنی نفاس دوہفتوں سے کم نہیں اورچالیس دن سے زائدنہیں ۔اور ایک حدیث دارقطنی کے ص 82میں ہے ۔اس کے یہ الفاظ ہیں ۔
«اذامضی للنساء سبع ثم رات الطهرفلتغتسل ولتصل »
’’یعنی جب نفاس والی عورت پرایک ہفتہ گزرجائے پھرطہر دیکھے پس چاہیے کہ غسل کرے اورنماز پڑھے۔‘‘
اس روایت پردارقطنی نے کلام نہیں کی اس کی سندمیں بقیہ بن ولیدہے جس میں کلام ہے مگراس کےبغیربھی یہ حدیث روایت کی گئی ہے ۔نیزبقیہ جب عن کے ساتھ روایت کرے وہ زیادہ ضعیف ہوتی ہے۔یہ حدیث اخبرناکےساتھ روایت کی ہے۔
اکثرمدت نفاس چالیس دن ہے اس کےمتعلق بہت روایات آئی ہیں اورجمہورکامذہب بھی یہی ہے صرف حسن بصری رحمہ اللہ پچاس روزکہتےہیں اورعطاء اورشعبی ساٹھ روزکہتے ہیں ۔چنانچہ ترمذی میں ہے مگرترجیح چالیس کے قول کوہے اگرزیادہ خون آئے تواس کواستحاضہ (بیماری)کاخون سمجھے ۔اس میں نماز پڑھے اورقرأت وغیرہ بھی کرے اورخاوندبھی اس کے ساتھ جماع کرسکتاہے ۔حیض نفاس کے دنوں میں ان کاموں سے کوئی بھی درست نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب