السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا تشہد میں انگلی کو مسلسل حرکت دینی چاہیے جیسا کہ علامہ البانی رحمہ الله کا موقف ہے یا صرف اشارہ ہی کافی ہے یعنی صرف انگلی کو اٹھا کر رکھا جائے جیسا کہ شیخ محب اللہ شاہ راشدی السندھی کا موقف ہے البانی صاحب رحمہ الله حرکت نہ دینے والی روایت کو شاذ (ضعیف) کہتے ہیں جب کہ راشدی صاحب رحمہ الله حرکت دینے والی روایت کو شاذ(ضعیف) کہتے ہیں مہربانی فرما کر صحیح موقف کی نشان دہی قرآن و سنّت کی روشنی میں کریں؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!کبار علماء کرام کے مواقف کے سامنے ہماری کیا حیثیت ہو سکتی ہے،لیکن ذاتی طور پر ہمارا رجحان بھی مسلسل حرکت دینے کی طرف ہے۔ نماز کا پہلا تشہد ہو یادوسرا اس میں سنت یہ ہے کہ پورے تشہد میں مسلسل شہادت کی انگلی سے اشارہ کیاجائے اورساتھ ہی ساتھ اسے مسلسل حرکت بھی دی جائے،یہ دونوں عمل احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں ،دلائل ملاحظہ ہوں: انگلی سے مسلسل اشا رہ کرنے کی دلیل:«عَن نُمَیْرٍرضی الله عنه قَالَ : رَأَیْتُ رَسُولَ الله صلی الله علیه وسلم وَاضِعًا یَدَہُ الْیُمْنَی عَلَی فَخِذِہِ الْیُمْنَی فِی الصَّلاَة ، وَیُشِیرُ بِأُصْبُعِه»صحابی رسول نمیررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:''میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازمیں اپنے داہنے ہاتھ کو اپنی داہنی ران پر رکھے ہوئے تھے اور انگلی سے اشارہ کررہے تھے۔(نسائی: کتاب السھو:باب الاشارة فی التشھد،رقم1271،و ابن ماجہ :کتاب اقامة الصلاة والسنة فیھا،رقم 911 والحدیث صحیح)۔ اس حدیث میں ''یشیر''(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ کرہے تھے)فعل مضارع استعمال ہواہے جوہمیشگی اورتسلسل کامعنی دیتاہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ کایہ عمل پور ے تشہد میں کرتے تھے۔ اورصحیح ابن خزیمہ کی ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں :''ثم حلق وجعل یشیر بالسباحة یدعو'' یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں بیٹھنے کے بعدشہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے لگے،(صحیح ابن خزیمة :ج 1ص353حدیث نمبر713)۔ اس حدیث میں ''یشیر'' فعل مضارع پر''جعل'' داخل ہے اوریہ کسی عمل کو شروع سے مسلسل کرنے پردلالت کرتاہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں بیٹھنے کے بعد اس عمل کوشروع سے لیکرتشہد کے اختتام تک مسلسل کرتے رہے۔ نیزابن خزیمہ کی اسی حدیث میں آگے ''یدعو''ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کی انگلی کے ذریعہ دعاکرنے لگے اورتشہد، پوراکا پورا دعاؤں پرمشتمل ہے، چنانچہ پہلے ''التحیات ''کی دعاء پھر''درود'' کی دعاء پھردیگر دعائیں ہیں ،اور اوپرکی حدیث سے معلوم ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعائیں شہادت کی انگلی کے اشارہ کے ساتھ ساتھ پڑھتے تھے،لہٰذا ثابت ہواکہ جس طرح پورے تشہد میں دعائیں پڑھی جاتی ہیں ایسے ہی پورے تشہد میں اشارہ بھی کیاجائے گا،کیونکہ یہ عمل (اشارہ) دعاؤں سے جڑا ہوا ہے،لہٰذاجب پورے تشہد میں دعاء ہے تو پورے تشہد میں یہ عمل (اشارہ کرنا)بھی ہے۔ تشہد میں انگلی سے مسلسل اشارہ کاثبوت ملاحظہ کرنے کے بعد معلوم ہوناچاہے،اس اشارہ کے ساتھ ساتھ اسے مسلسل حرکت دینے کاثبوت بھی احادیث صحیحہ میں موجودہے،ملاحظہ ہو: انگلی کومسلسل حرکت دینے کی دلیل:«عَنْ وَائِلَ بْنَ حُجْرصٍ قَالَ: قُلْتُ:لأَنْظُرَنَّ ا ِلَی صَلاَةِ رَسُولِ اللہِ صلی اللہ علیه وسلم کَیْفَ یُصَلِّی ؟ فَنَظَرْتُ ِلَیْه فَوَصَفَ ، قَالَ : ثُمَّ قَعَدَ وَافْتَرَشَ رِجْلَه الْیُسْرَی ، وَوَضَعَ کَفَّه الْیُسْرَی عَلَی فَخِذِہِ وَرُکْبَتِه الْیُسْرَی ، وَجَعَلَ حَدَّ مِرْفَقِه الأَیْمَنِ عَلَی فَخِذِہِ الْیُمْنَی ، ثُمَّ قَبَضَ اثْنَتَیْنِ مِنْ أَصَابِعِه ، وَحَلَّقَ حَلْقَةً ، ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَه فَرَأَیْتُه یُحَرِّکُها یَدْعُو بِها»صحابی رسول وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہاکہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکوضروردیکھوں گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نمازپڑھتے ہیں ،چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکودیکھا،پھرصحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکاطریقہ بیان فرمایااورکہاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اوربایاں پاؤں بچھایا،اوربائیں ہتھیلی بائیں ران اورگھٹنے پررکھی اوردائیں ہاتھ کی کہنی دائیں طرف کی ران کے برابرکی ،پھردوانگلی بند کرلی،اورایک حلقہ باندھ لیا،پھرانگلی اٹھائی تومیں میں نے دیکھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کوہلاتے تھے اوراس سے دعاء کرتے تھے۔(نسائی : کتاب السھو:باب قبض الثنتین من أصابع الیدالیمنی وعقد الوسطی،رقم1268،صحیح ابن خزیمہ ،رقم714، صحیح ابن حبان،رقم1860،المعجم الکبیر:2235واسنادہ صحیح)۔ اس حدیث میں شہادت کی انگلی کے ساتھ دو عمل کاذکرہے،ایک اشارہ کرنے کا،چنانچہ اس کے لئے کہاگیا:« ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَه»یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کی انگلی کواٹھایایعنی مسلسل اشارہ کرنے کے لئے جیساکہ آگے کے الفاظ اور اوپرکی احادیث سے اس کی وضاحت ہوتی ہے، اب اشارہ کاعمل ذکرہونے کے بعدآگے ایک اورعمل ذکرہے«فَرَأَیْتُه یُحَرِّکُها یَدْعُو بِها»یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم انگلی سے اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسے (مسلسل) حرکت بھی دے رہے تھے،اس حدیث سے ثابت ہواکہ تشہد میں انگلی سے مسلسل اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ، اسے مسلسل حرکت دینابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔ واضح رہے کہ اس حدیث میں بھی'' یُحَرِّکُہَا''(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرکت دے رہے تھے)فعل مضارع استعمال ہواہے جوہمیشگی اورتسلسل کامعنی دیتا ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرکت دینے کایہ عمل پور ے تشہد میں کرتے تھے۔ اوراسی حدیث میں آگے '' یَدْعُو بِہَا'' ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کی انگلی کوحرکت دے دے کر دعاکرنے لگے اورتشہد پوراکاپورادعاؤں پرمشتمل ہے،چنانچہ پہلے ''التحیات ''کی دعاء پھر''درود'' کی دعاء پھردیگر دعائیں ہیں ،لہٰذا ثابت ہواکہ جس طرح پورے تشہد میں دعائیں پڑھی جاتی ہیں ایسے ہی پورے تشہد میں انگلی کوحرکت بھی دیاجائے گا،کیونکہ یہ عمل دعاؤں سے جڑا ہوا ہے،لہٰذاجب پورے تشہد میں دعاء ہے توپورے تشہد میں یہ عمل(انگلی کو حرکت دینا) بھی ہے۔ غلط فہمیوں کاازالہ:بعض حضرات کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ انگلی کو حرکت دینااس حدیث کے خلاف ہے جس میں اشارہ کرنے کی بات ہے۔ عرض ہے کہ حرکت دینا اشارہ کرنے کے خلاف ہرگز نہیں ہے،بلکہ یہ اشارہ کے ساتھ ساتھ ایک دوسراعمل ہے،اوریہ دوسراعمل کرنے سے پہلے عمل کو چھوڑنا لازم نہیں آتا کیونکہ یہ دونوں عمل ساتھ ساتھ ہو رہاہے۔اوردیگرکئی ایسی مثالیں ہیں ،کہ اشارہ وحرکت پرساتھ ساتھ عمل ہوتاہے،مثلاہم روزمرہ کی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی دورکھڑے ہوئے دوسرے شخص کوہاتھ کے اشارے سے بلاتاہے ہے تواس کی طرف انگلیاں اٹھاتاہے ہے یہ'' اشارہ'' ہے اورساتھ ہی ساتھ پنجہ کی انگلیوں کوہلاتابھی ہے یہ '' حرکت'' ہے۔ معلوم ہواکہ اشارہ اورحرکت یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں ،بلکہ دونوں پربیک وقت عمل ممکن ہے،اوراحادیث میں دونوں کاثبوت ہے لہٰذا دونوں پرعمل کریں گے،چنانچہ جولوگ انگلی کو حرکت دیتے ہیں وہ دونوں پرعمل کرتے ہیں ،اشارہ بھی کرتے ہیں اورحرکت بھی دیتے ہیں ،لہٰذایہ کہنادرست نہیں کہ حرکت دینے والے اشارہ پرعمل نہیں کرتے ،کیونکہ بغیراشارہ کئے حرکت دیناممکن ہی نہیں ہے۔ پس اہل توحید الحمدللہ دونوں پرعمل کرتے ہیں ،کیونکہ دونوں احادیث سے ثابت ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ حدیث کی روایت کرنے والے امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں ایک مقام پرتشہدمیں انگلی سے اشارہ وحرکت ساتھ ساتھ کرنے کایہ باب قائم کیاہے:''باب موضع البصرعندالاشارة وتحریک السبابة''یعنی انگلی کواشارہ وحرکت دیتے وقت نگاہ کی جگہ کابیان، (سنن نسائی:کتاب السھو:باب39 قبل الرقم 1275) اور امام احمدرحمہ اللہ کابھی یہی فتوی ہے کہ تشہد میں اشارہ وحرکت دونو ں پرعمل کیاجائے گا چنانچہ امام احمدرحمہ اللہ سے اس سلسلے میں پوچھاگیاتوآپ نے فرمایا ''شدیدا''شدت کے ساتھ اشارہ کیاجائے ،اورشدت کے ساتھ تبھی اشارہ ہوسکتاہے جب اسے حرکت بھی دیاجائے،(ملاحظہ ہو:مسائل ابن ہانی:ص80)۔ امام احمد رحمہ اللہ کایہ فتوی سامنے آجانے کے بعدان لوگوں کواپنی زبان بندکرلینی چاہئے،جویہ دعوی کرتے ہیں کہ چاروں اماموں کی تمام باتیں حق ہیں ،کیونکہ امام احمدرحمہ اللہ کاشماربھی انہیں چاروں میں سے ہوتاہے۔ بعض حضرات ایک روایت پیش کرتے ہیں جس میں ہے ''لایحرکہا'' یعنی آپ حرکت نہیں دیتے تھے(ابوداؤد :رقم989) ۔ عرض ہے کہ اس کی سندمیں ابن عجلان مدلس ہے (طبقات المدلسین :ص149المرتبة الثالثہ) اور روایت عن سے ہے لہٰذا مردود ہے اس کے برخلاف صحیح حدیث میں حرکت دیناثابت ہے جیساکہ اوپرمذکورہے۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ تشہد میں انگلی کومسلسل حرکت دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ عرض ہے کہ تشہدمیں انگلی کوحرکت دینے کی دلیل توہم پیش کرچکے ،لیکن مخالفین کاجویہ کہناہے کہ ''أشھدأن لااله ''پراٹھاناچاہئے ،اور ''الاالله'' پرگرالینا چاہئے ، یہ کہاں سے ثابت ہے، کیااس قوم میں کوئی ایک بھی ذمہ دارشخص نہیں ہے جواپنے علماء کوپکڑکوپوچھے کہ ہمارے عمل کی دلیل کس حدیث میں ہے؟ہمارادعوی ہے کہ کہ کسی صحیح تو درکنار کسی ضعیف اورمردود حدیث میں بھی اس کانام ونشان نہیں ہے۔ بعض حضرات تشہد میں حرکت سبابہ کی سنت کامذاق اڑاتے ہیں ۔ عرض ہے کہ ہم نے اس کاسنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوناتوثابت کردیامگرجوحضرات وضوکے بعد،کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے پرکرکٹ کے امپائرو ں کے طرح انگلی اٹھاتے ہیں ،اس کاثبوت کون سی صحیح حدیث میں ہے،ان حضرات کی خدمت میں مؤدبانہ عرض ہے کہ تشہد میں حرکت سبابہ کا مذاق اڑانا چھوڑیں پہلے وضو کے بعد اپنی بے موقع ومحل امپائرنگ کاثبوت تلاش کریں ،اوراچھی طرح معلوم کرلیں کہ یہ کس کی سنت ہے....؟ واضح رہے کہ تشہدمیں انگلی ہلانے کی سنت سے چڑنایہ مردوداورلعین شیطان کا کام ہے، عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ اس سنت پرعمل کرتے اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے «لَہِیَ أَشَدُّ عَلَی الشَّیْطَانِ مِنَ الْحَدِیدِ یَعْنِی السَّبَّابَةَ»یعنی انگلی کایہ عمل شیطان کے لئے لوہے سے بھی زیادہ سخت ہے، دیکھئے: مسندأحمد:ج 2119 رقم 6000۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو شیطانی کاموں سے بچائے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں پرعمل کرنے کی توفیق دے ،آمین۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتاویٰ ثنائیہجلد 2 |