سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(226) مسئلہ کفاءت اور اسلام

  • 6779
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2670

سوال

(226) مسئلہ کفاءت اور اسلام

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسئلہ کفاءت اور اسلام


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسئلہ کفاءت اور اسلام

(از مولانا عبد الجلیل صاحب ناظم دارلعلوم ششھنیاں ضلع بسق)

اسلام ہی وہ مذہب ہے جسے تمام محاسن وکمالات ساری دلربایئوں اور خوبیوں کا جامع کہنا درست ہے۔ اس کے   تمام اصول اورقوانین عین فطرت نیچر کے مطابق ہیں۔ بنا بریں کفاءت کامسئلہ محض ایک معاشرتی اخلاقی اور  سوسائٹی۔  کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے کوئی شرع اہمیت حاصل نہیں۔ ورنہ یہ مسئلہ اسلام کے نقارہ عام اس کی مساوات  عامہ اور عالم گیر دعوت کے سخت منافی ہوگا۔

کیونکہ عہد رسالت ﷺ کے عظیم الشان مجمع میں کالے گورے عربی عجمی ہندی ترکی کے قومی امتیازات اورحسب ونسب ذات پات کے تفاخر وتبختر کو حرف غلط کی طرح مٹادیا گیا۔ سیادت وشیخیت کے باطل اور جاہلانہ عقیدے کو محو کرکے صرف خشیۃ اللہ اور التقاہی کو وجہ تفوق اور موجب تفضل قراردیا گیا۔

لافضل لعربي علي عجمي ولااحدعلي اسود كلكم من ادم وادم م تراب

کےاندر اسی  طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ نیز آج سے چودہ سو قبل نیز فضائے عرب میں اقوام عرب خصوصا قریش جیسی متکبر ومغرور قوم کے سامنے رسالت مآب ﷺ نے خطیبانہ شان وشوکت سے حسب نسب کے تفاخرخاندنی اور آبائی نخوت وغرور اورقومی سبب وتکبر کے استیصال وبیخ کنی کا اعلان فرمایا !

يامعشر قريش ان الله قد اذهب عنكم نخوة الجاهلية وتعظها بالا باء اللعجب كل العجب

 مسلمانوں کی شو مئی قسمت کو دیکھئے۔ جہاں ان میں ہزاروں انواع اقسام کے اختلافات موجود تھے۔ وہاں مسئلہ کفاءت کی بنیاد رکھ کر اختلاف وتفریق کی خلیج کو اور زیادہ وسیع کیا گیا۔  مسئلہ زیر بحث میں جس غلوسے کام لیا گیا۔  اور جن طویل وعریض تفریحات اور فقہی موشگافیوں کا مظاہر ہ کیا گیا ہے۔ ان کی تفصیل کےلئے شرح وقایہ ص 20 و 21 ج2 نیز بحر فتح بنایہ۔ جامع الرموز قاضی خان۔ بدائع ظہیر یہ وغیرہ کتب فقہ کا مطالعہ کیجئے۔ جن میں نہایت تفصیل کے ساتھ لوہار دریان سائنس دھنیا درزی سقہ صراف بزاز عطار حجام جولاہا وغیرہ کی تقسیمات وتفریحات سے سینکڑوں اوراق مملو نظر آیئں گے۔  اتنے بڑے اہم مسئلہ کی بنیاد جن دلائل  و براہین پرہے۔  ہم زیل میں ان فقہاء کے دلائل پر تنقیدی نظر ڈالتے ہیں۔ ناضرین کرام غور  سے مطالعہ کریں۔

پہلی حدیث

تخير والنطفكم وانكحزا الاكفاء

یعنی ’’اپنے نطفوں کے لئے اچھی عورتوں کا انتخاب کرو اور  نکاح کفو سے کرو۔‘‘

اس حدیث کو بروایت ام لمومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  حاکم اور ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ  نے نقل کیا ہے۔ اگرچہ اس حدیث کو فقہاء نے استدلال میں پیش کیاہے۔  مگر اس حدیث کے جتنے بھی مختلف طرق ہیں۔  سب ضعیف ومخدوش ہیں۔ اس کے رواۃ صارف بن عمران سلمان بن عطاء محمد بن مروان عکرمہ بن ابراہیم ہیں ۔ مگر سب ضعیف ہیں۔

حارث بن عمران جعفی کے متعلق لکھا ہے۔  ضعيف ورماه ابن حبان بالوضع تقريب تفصیل کےلئے دیکھو اسماء الرجال نیز اس حدیث کو علامہ حافظ محمد بن طاہر رحمۃ اللہ علیہ  مقدسی نے اپنی کتاب  تزکرۃ الموضوعات میں         موضوعات کے تحت میں بیان کیا ہے۔ اور حافظ زہبی  نے اس کے ایک راوی کو ضعیف اور دوسرے کو متہیم بتایا ہے۔ ابن ابی حاتم نے بے اصل منکر اور باطل ٹہرایاہے۔

دوسری حدیث

الا لا يزوح النساء الا لا وليا ء ولا يزوجن الامن الاكفاء

’’یعنی عورتوں کا نکاح اولیاء ہی کریں۔ اور ان کی شادی کفو ہی سے ہونی چاہیے۔ ‘‘

یہ حدیث حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے منقول ہے۔ اس کی سند میں دو راوی ضعیف ہیں ایک مبشر بن عبید دوسرے حجاج بن ارطاط۔ مبشر بن عبید زیا تفاق محدثین ضعیف اور متروک ہے۔  نیز وضع حدیث کے ساتھ بھی متہم کیاگیا ہے۔ البتہ حجاج بن ارطاط کو بعض لوگوں نے کچھ ثقہ بھی بتایا ہے۔ مگراکثر آئمہ  نے مدلس اور ضعیف کہا ہے۔ اس لئے اس جرح مفصل کے مقابلہ میں بعض کی توثیق زیادہ قابل اعتماد نہیں۔ مبشر بن عبید کو تو امام المحدثین امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ نقادان نے ساقط الاعتبار بتایا ہے۔ اسی لیے یہ حدیث کسی طرح قابل حجت نہیں۔ نیز اسی حدیث کی ایک سند ابن ابی حاتم سے بھی منقول ہے۔ اور بغوی وغیرہ نے اگرچہ حسن بھی کہا ہے۔ مگر تمام تر محدثین نے بالکل ضعیف بتلایا ہے۔ اس حدیث کا ایک راوی عباد بن منصور نہایت ہی ضعیف اور منکر الحدیث ہے۔ چنانچہ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔ قابل حجت نہیں امام ابن معین  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔ قوی نہیں۔ بلکہ محض لاشئے ہے۔ بقول ابن سعد محدثین نے منکر الحدیث اور بالکل ضعیف بتلایا ہے۔ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ  نے اسے موضوعات میں شامل کیا ہے۔  نیز ائمہ حدیث سے اس کے متعلق مختلف اقوال بھی نقل فرمائے ہیں۔ اس کے علاوہ  دیگر مختلف اسانید سے بھی یہ حدیث منقول ہے۔ مگر بقول ابن عدی کوئی بھی طریقہ صحیح نہیں۔ کیونکہ ہر ایک کا راوی مبشر بن عبید ہے۔ جو کہ کذاب اوروضاع حدیث بتلایا گیا ہے۔ بہقی اور دارقطنی نے بھی اپنی سنن میں اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ مگر ساتھ ہی ضعیف اور متروک بھی ٹھرایا ہے۔

تیسری حدیث

عن ابن عمر قال  قال رسول الله صلي الله عليه وسلم العرب بعضهم اكفاء بعض والموالي بعضهم اكفاء بعض الاحائكا اوحجاما

اس  حدیث کو امام حاکم نےعبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے نقل کیا ہے۔ فقہاء اس استدلال میں برابر پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ ان کے طریق استدلال کے خلاف ہے کیونکہ یہ حدیث قابل  احتجاج نہیں۔ اس حدیث کی سند میں ایک راوی مجہول ہے۔ نیز اس حدیث کے متعلق ابن ابی حاتم نے اپنے باپ سے پوچھا انہوں نے جواب دیا۔

هذا اكذب لااصل له وقال في موضع باطل

یعنی یہ حدیث سراسر جھوٹ بے بنیاد اور باطل ہے ۔ ابن عبد البر کے تمہد میں دوسرے طریق سے بھی اس حدیث کی تخریج کی ہے۔ مگر اس طریق میں ایک راوی عمران بن ابی الفضل ہے۔ ابن حبان اس کے متعلق لکھتے ہیں۔

يروي الموضوعات عن الثقات

یعنی موضوع حدیثیں روایت کرتا تھا۔ نیز حافظ ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ ھذا منکر موضوع یہ منکر اور موضوع ہے۔ یہی وہ روایت ہے جسے ہشام بن عبید اللہ راوی نے عام مجمع میں بیان کما اور ( وباغ) کا لفظ بھی بڑھادیا۔ جس سے وباغیوں نے حملہ کیا اور ایک جماعت ٹوٹ پڑی۔ یہاں تک کہ ان ک قتل کےلئے تیار ہوگئے۔ اسی حدیث کو ابن عدی اور دارقطنی نے دوسرے دو طریق سے بھی روایت کیا ہے۔ مگر دونوں طریقے ساقط الاعتبار ہیں۔ ایک طریق میں علی بن عروہ ہیں جن کو ابن حبان نے وضاع کہا ہے۔ اور دوسرے طریق میں محمد بن فضل بن عطیہ ہیں۔  ان کو بھی متروک الحدیث کہا گیا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ اس حدیث کے بہت سے طرق ہیں۔ مگر تمام کے تمام طریقے ضعیف اور مردود ہیں۔ اسی واسطے حافظ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ  تمہید میں لکھتے ہیں۔

هذا منكر موضوع وله طرق كلها واهية

یعنی اس حدیث کے بہت سے طریقے ہیں۔ مگر سب واہی اور بے کار ہیں۔ کوئی بھی قابل احتجا ج نہیں۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی مذکورہ بالا حدیث کی متابعت میں مسند بزار کی وہ حدیث جو معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے۔ پیش کی جاتی ہے۔ مگرحدیث معاذ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا شاہد ٹھرانا باطل وعبث ہے۔ کیونکہ مسند بزار کی یہ روایت خود منقطع ہے۔ خالد بن سعدان کا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے سماع ثابت نہیں۔  نیز اس میں ایک رواوی سلمان بن ابی الجون ہے۔ جس کو ابن القطان لکھتے ہیں۔ لا یعرف یعنی مجہول ہے۔ دیکھو تفصیل کے لئے نیل الاوطار ص 36 جز 6 مصری وسبل اسلام ص 7 جز 2 فاروقی ۔ )

مسند بزار کی حدیث جسے حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا شاہد بتلایا جاتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  فتح الباری میں اسی حدیث معاذ شاہد کے متعلق لکھتے ہیں۔

واما اما اخرجه البوار من حديث معاذ رفعه العرب بعضهم اكفاء بعض والموالي بعضهم اكفاء بعض باسناده ضعيف

یعنی مسند بزار کی وہ حدیث جو معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مرفوعا مروی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اہل عرب عرب کے کفو ہیں۔ اور غلام غلام کا کفو ہے۔ یہ حدیث ضعیف ہے۔

چوتھی حدیث

يا علي ثلث لا توخرها الصلوة اذا اتت والجنازة اذا حضرت والايم اذا وجدت لها كفوا

یعنی’’ اے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  تین چیزوں میں تاخیر مت کرنا اولا نما ز ہے۔ جب وقت آجائے تو تاخیر مت کرنا دوسرے جب جنازہ حاضر ہوجائے تو جلدی کرنا تیسرے جب کسی بیوہ کا کفو مل جائے تو تاخیر مت کرنا ‘‘

اعتبار کفو کے بارے میں سب سے قوی دلیل علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی یہ حدیث ہے۔ جسے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  اور حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اپنی کتاب میں روایت کیا ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے تو اس  حدیث کو غریب کہاہے۔ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  کی اس سند میں سعید بن عبد اللہ الجہنی  ہے جو کہ بالکل ضعیف ہے۔ البتہ حاکم  کی روایت میں سعید بن عبد اللہ بن لجہنی کے بجائے سعید بن عبد لرحمٰن جہنی کا نام آیا ہے۔ جو کہ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ   یا خود امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک معتبر ہے۔  نیز ابن ماجہ اورابن حبان میں بھی یہ روایت موجود ہے۔ علاوہ ازیں اگر ہم رواۃ کی جرح وقدح تعدیل وتوثیق سے قطع نظر کرلیں۔ جب بھی مخالف کامقصد پورا نہ ہوگا۔  کیونکہ اس  صورت میں یہ ثابت کرنا پڑے گا۔  کہ حدیث مذکورہ میں کفو کے معنی وہی ہے جو اصطلاح فقہ میں مستعمل ہے۔ نیز جو معنی فقہ کے دفتروں میں آپ ﷺ کے وصال کے صدیوں بعد بیان کیا گیا۔ وہی معنی آپﷺ نے لئے اور یہ بھی خیال رہے کہ آپ ﷺکے ذاتی نمونے اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  کے عملی کارنامے اسی صورت میں حدیث کے مصداق کے خلاف تو نہیں؟ ودونہ خرط القتاد ہمارے نزدیک تو اس روایت میں کفو ہے۔ عمر اور دینی صلاحیت وغیرہ میں مساوات مراد ہے۔ کفو بمعنی مساوی قرآن مجید میں بھی آیا ہے۔  وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ

پانچویں حدیث

عن عبد الله بن بريده عن ابيه قالت جاءت فتاة الي رسول الله صلي الله عليه وسلم  فقالت ان ابي زوجني ابن اخيه ليرفع بي خية ال فجعل الامر  الهها فقالت قد اجزت ما صنع ابي ولكن اردت ان اعلم النساء ان ليس الي الاباء ن الامر شء رواه ابن ماجه والنسائي (نیل الاطار ج2 ص 35)

یعنی ’’ایک نوجوان عورت آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کے اے اللہ کے رسولﷺ میرے باپ نے میری شادی اپنے بھتیجے سے  محض اس غرض سے کردی ہے۔ کہ میری وجہ سے اس کی زلت (خساست) دور ہوجائے۔  آپﷺ نے اس عورت کو فسخ کا اختیار دے دیا۔ مگر عورت نے پھر عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول ﷺ میں اپنے باپ کے فیصلہ نکاح پر راضی ہوگئی۔ میری غرض صرف یہ تھی۔ کہ عورتوں کو اس بات کی خبر کردوں کہ  اولیاء کو اجبار کوئی حق نہیں۔‘‘

قاضی شوکانی حدیث ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ  کو صحیح بتاتے ہیں۔ اور کہتے ہیں۔ رجالہ رجال الصحیح حدیث کا مطلب تو بالکل واضح ہے اور اس سے یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے۔ کہ اگر عورت کسی آدمی کے ساتھ نکاح پر راضی نہ ہو۔ مگر اولیاء بالجبر نکاح پڑھا دیں۔  توعورت کے فسخ نکاح کا  اختیار ہے۔  مضمون ہذا کی پہلی قسط میں عبد للہ بن بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث پر بحث کرتے  ہوئے یہ لکھا گیا تھا کہ اس حدیث سے یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے۔ کہ عورت کی عدم رضا کے وقت قاضی عورت کو فسخ نکاح کا اختیار سے سکتا ہے۔ اس واضح نتیجہ کے بعد حدیث مذ کورہ ہے۔  کفاءت کااثبات محض تنکے کا سہارا ہے۔ رسالت مآبﷺ کے عہد میمون میں صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  کا کوئی کام کرنا اور آپﷺ کا سکوت فرمانا اس امرکے جواز کی دلیل ہے۔ اس لئے مرافعہ گزار خاتون نے محض اپنے قلبی مقصد اجباردلی کی تردید کےلئے مقدمہ دائر کیا تھا۔ اس سے کفاءت کا کوئی تعلق نہیں۔ حدیث کے اس ٹکڑے پر غور کیجئے۔

اردت ان اعلم النساء ان ليس الي الاباء من الامر شي الخ

چھٹی حدیث

عن عائشة قالت خيرت بريره علي زوجها حين عتقت متفق عليه

چونکہ بریرہ کا شوہر مغیث اصح مذہب کے مطابق غلام تھا۔ اس لئے بریرہ کے آذاد ہونے کے بعد کفاءت فی الحریت باقی رنہیں رہی۔ لہذا رسول اللہ ﷺ نے بریرہ کو اختیار دے  دیا۔ یہ ہے طریق استدلال جسے قائلین بالکفاءت پیش کرتے ہیں۔  مگر ہماری تحقیق میں کفاءت کا اثبات اس حدیث سے بھی درست نہیں۔ بلکہ جو شخص بھی حر اور عبد میں تفریق کرسکتا ہے۔ حریت اور عبدیت کے فرق کو مد نظر رکھ  کریہ کہہ سکتا ہے۔ کہ لونڈی کو چونکہ اپنے نکاح کا ذاتی اختیار کوئی نہیں ہوتا۔ بلکہ مالک جس شخص کے ساتھ چاہے اس کا نکاح کرسکتا ہے۔ اگرچہ لونڈی اس آدمی کے ساتھ نکاح پر راضی نہ ہو۔ لیکن حریت کے بعد اپنے تمام امور اور سارے معاملات میں صاحب اختیار ہوجانے کی وجہ سے شریعت نے اسے اختیار دے دیا کہ مالک کی ملکیت  میں ہونے کی وجہ سے  جس غیر اختیاری امر نکاح پر مجبور کی گئی ہے۔ اس پر نظر ثانی کرلے۔ یہ ہے تخیر کی اصل وجہ کفاءت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی حکمت تخیر بیان کرتے ہوئے یہی لکھا ہے۔ تفصیل کےلئے دیکھو سبل السلام یہ ہے ان دلائل کی حقیقت جسے ناظرین کے سامنے میں نے نہایت اختصار کے ساتھ پیش کردیا ہے۔ اسی طرح کے چند رطب دیا بس آثار بھی ہیں۔ جنہیں میں بخوف طوالت ترک کردیتا ہوں۔  اب ہم زیل میں نبی کریمﷺ اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کے عملی نمونے پر روشنی ڈالتے ہیں۔

نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے عملی کارنامے

سالار قافلہ امت سرور عالم  علیہ افضل الصلواۃ والسلام کی سگی پھوپھی زاد بہن زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بنی اسد بنی خزیمہ کی عزت اور رفعت شان کا کون منکر ہوسکتا ہے۔ مگر آپﷺنے زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کا نکاح زید جیسےغلام سے کردیا تھا۔  کہاں ہے۔ ''کفاءت فی الحرتیہ''

2۔ فاطمہ بت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا قرشیہ فہریہ کو دیکھو خاندان قریش سے تعلق رکھنے کے باوجود آپﷺ کے ہی مشہورہ سے اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے غلام زادہ سے نکاح کرتی ہیں۔

3۔ عرب کے مشہور ومعروف قبیلہ بنی بیاضہ کو کون نہیں جانتا مگر آپﷺ نے ابوہند حجام کے لئے انکے یہاں شادی کا پیغام بھیجا۔

4۔ عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی جلالت شان اورخاندانی شہرت سے کون واقف نہیں  مگر آپ کی بہن ہالہ بنت عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کا نکاح بلال  جیسے حبشی النسل سے ہوا تھا۔

5۔ خلیفہ ثانی فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ  قرشی نے اپنی بیٹی حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کوسلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جیسے فارسی النسل پر پیش کیا تھا۔ (سبل)

6۔ خاندان بنی ہاشم کی محترم خاتون ضباعہ بنت الزبیر الہا شمیہ مقداد بن الاسود الکندی کے نکاح میں تھیں۔ کہاں بنی ہاشم اور کہاں بنی کندہ۔

7۔ ابو حزیفہ بن عتبہ ربیعہ جیسی محترم خاتون قرشیہ کا نکاح سالم بن معقل آذاد کردہ غلام سے کردیا تھا۔

باشندگان یثرب کے غرور اور عجب تکبر کو دیکھو کہ جس وقت زمانہ جاہلیت میں سردار مکہ نے ایک انصاریہ خاتون کےلئے نکاح کا پیغام بھیجا۔ تو انصار کا مغرو  ر قبیلہ اس شرط پر راضی ہوا کہ سردار مکہ کو ان کی لڑکی اپنے مکان پررخصت کرالانے کا کوئی اختیار نہ ہوگا۔ یہ تھی ان کی جہالت اور آبائی نخوت وغرور۔ مگر جب آپﷺ نے آبائی غرور وتکبر کا خاتمہ کردیا۔  تو بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی خواہش نکاح کا اظہار کرتے ہی بیسیوں انصاراپنی بیٹیاں دینے  کےلئے تیار ہوگئے۔

یہی نہیں بلکہ عرب کا مشہور شاعر شہزادہ امرواالقیس ملک جلیل جس محترم خاتون کے جد امجد کا بہت بڑا مداح تھا۔  اسی ممدوح اعظم کی پوتی بھی ایک ادنیٰ مسلمان کے نکاح میں رہ کر اس کی کفش برداری پر فخر کرتی تھی۔

نہایت اختصار کے ساتھ یہ چند واقعات لکھ دیئے گئے ہیں۔  جن کے پیش نظر ہر صاحب بصیرت فیصلہ کرسکتا ہے۔ کہ کفاءت فقہی کوئی چیز نہیں۔ اگرشریعت مطہرہ میں کوئی چیز معتبر ہے۔ تو وہ کفاءت  فی الدین ہے۔  یہی مذہب ہے  زید بن علی  رحمۃ اللہ علیہ  امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  عمرو ابن مسعود رحمۃ اللہ علیہ  ابن سیرین عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ  امام بخاریرحمۃ اللہ علیہ  وغیرہم کا۔ (اخباراہلحدیث 12 ربیع الاول 1357ہجری)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص 181

محدث فتویٰ

تبصرے