سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(224) کیا اس طرح اپنی بیٹی کے بدلے روپیہ لیناجائز ہے

  • 6777
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1369

سوال

(224) کیا اس طرح اپنی بیٹی کے بدلے روپیہ لیناجائز ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید کی لڑکی کوجب کہیں سے شادی کا پیغام آتا ہے۔ توزید اپنے داماد سے کہتا ہے۔ کہ مجھے اس قدر روپیہ علاوہ مہر دو۔ اور تم دونوں جانب خرچ برداشت کرکے شادی کرلو۔ تو کیا اس طرح اپنی بیٹی کے بدلے روپیہ لیناجائز ہے۔ اور اگران روپوں کو لڑکی کا باپ مہر کے نام سے  شادی سے پہلے لے کر اپنے یا اپنی لڑکی کے اخراجات میں لادے تو کیا یہ صورت جائز ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

لڑکی  کوجو بوقت نکاح ملے۔ وہ دراصل لڑکی کا مال ہے۔ لڑکی کی طرف سے اس کا باپ وصول کرے۔ اور اس کی ولایت خود استعمال کرے۔ تو جائز ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے۔ انت ومالک لا بیک (اہلحدیث 5زی الحجہ 1349ہجری)

شرفیہ

(انت ومالك لابيك)’’ تواور تیرا مال سب کچھ تیرے باپ کا ہے۔‘‘ صحیح ہے مگرباوجود وسعت کے طریق مذکور زلیل حرکت اور خست ہے اس لئے کہ طریق مذکور حدیث مرفوع یا خلفائے راشدین وغیرہ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  سے ثابت نہیں۔ ہاں اگر وسعت نہیں افلاس ہے۔ تو ضروری امورکےلئے کچھ لے سکتا ہے۔ وہ امور بھی خلاف شرع نہ ہوں۔  جیسے ضروری لباس متوسط یا ضروری خوردونوش وغیرہ۔ (ابو سعید شرف الدین دیلوی)

جواب تعاقب

جناب ایڈیٹر صاحب السلام و علیکم سطور مندرجہ زیل کو اخبار اہلھدیث کے کسی گوشہ میں جگہ دے کر ممنون فرمایئے۔

اہلحدیث 25 رجب میں ایک مضمون مولوی احسان اللہ صاحب کا نظر سے گزرا جس میں فاضل مضمون نگارنے مولوی ثناء اللہ صاحب مولوی فاضل ایڈیٹر  اہل حدیث پر تعاقب کیا۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ لڑکی کا باپ اگر بوجہ مفلسی کے اخراجات عقد کی غرض سے لڑکے والے سے لے تو جائز ہے۔ یا نہیں؟ مولوی ثناء للہ صاحب نے جواب دیا تھا کہ جائز ہے۔ آپﷺنے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مہر لے لیا تھا۔ اس پر مولوی احسان علی صاحب تحریر فرماتے ہیں۔ کہ آپﷺ نے مہر دلوایا تھا۔ خواص اپنے یا شاد ی کے اخراجات کےلئے کچھ نہیں لیا تھا۔ نہ اس کا کہیں ثبوت ہے لہذا معلوم ہوا کہ اس وقت آپ کا (یعنی مولوی  ثناء اللہ صاحب کا)جواب موافق سوال کے نہیں بالکل غلط ہے۔ بلکہ یہ جواب سوال کے مطابق ہے۔ اس وجہ سے کہ سوال تو صرف یہ ہے۔ کہ صورت مسئولہ میں اخذجائز ہے کہ نہیں۔ جواب بالاخصار یہ ہے کہ جائز ہے۔ اس جواب کا سوال کے مطابق ہونا اجلی بدہیات سے ہے۔ محتاج دلیل تو کجا محتاج تنبیہ بھی نہیں۔  ہاں مولوی ثناء اللہ صاحب نے جو دلیل پیش کی ہے۔ وہ البتہ مثبت مطلوب نہیں۔ کیونکہ سوال اس مال کی نسبت ہے۔ جو مہر کے علاوہ ہے۔ اور حدیث سے اخذ مہر ثابت ہے۔

اب رہی یہ بحث کہ در اصل جواب صحیح ہے یا نہیں۔ میرے نزدیک جواب بہت صحیح ہے۔ معترض کا یہ کہنا کہ شادی کے اخراجات یا خاص اپنے خرچ کےلئے لینے کا کوئی ثبوت نہیں یہ معترض کے تساہل وتسامع کا بین ثبوت ہے۔ وہی ابودائودشریف کا ص 306 جہاں سے معترض نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت نقل کی ہے۔ ملاحظہ ہو۔

عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده قال قال رسول  الله صلي الله عليه وسلم ايما امراة نكحتعلي صداق اوحباء وعدة قبل عصمة النكاح فهولهما وما كان بعد عصمة انكاح فهو لممن اعطيه احق ما اكرم عليه الرجل ابنته اواخته قال الشارح رحمه الله وقال فل السبل الحباء والعطية للغير اوللخروج زائد علي مهرها

اس حدیث سے صاف ظاہر ہوگیا۔ کہ باپ کو عطیہ لینا جائز ہے۔ گو یہ بھی معلوم ہوا کہ باپ اس کا مالک نہیں ہوسکتا۔ بلکہ وہ لڑکی ملک ہے مگر یہ مجیب کے واسطے مضر نہیں کیونکہ سوال لینے کا ہے تملک کا نہیں علاوہ ازیں بحکم

انت ومالك لابيك ونیز بحکم واحق ما اكرم عليه الرجل لبنته اواخته

باپ کو اپنے ضروریات میں بھی صرف کرنا جائز ہے۔  معترض نے لکھا ہے کہ جب شارع ؑ نے لڑکی والے پر کوئی حرج نہیں رکھا۔ تو پھر اخراجات کےلئے نقدی لینا کیونکر جائز ہوسکتاہے۔  ؟ میں کہتا ہوں شارع کا خرچ نہ مقرر کرنے سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ خرچ کےلئے لینا ہی جائز نہیں ہے۔ اخراجات شادی تین قسم کے ہیں۔ مامورہ و ممنوعہ ومباح قسم اول کے اخراجات کے واسطے لینا متحقق نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ لڑکی والے حسب ادائے معترض اس خرچ سے بری ہیں۔ دوسری قسم کے اخراجات کے واسطے لینا ممنوع ہوگا۔ کیونکہ ممنوع کام لےلئے لینا اور دینا ناجائز ہے۔ تیسرے قسم کے اخراجات کےلئے مباح ہو تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ نہ شارع نے کہیں اس کی ممانعت کے معترض لکھتے ہیں۔

ماليس منه فهورد کےمصداق ہے۔ میں کہتا ہو کہ یہ اس وقت میں ماليس منه فهورد کا مصداق ہوگا۔ جب کہ اس امر کو شرعی کہا جاوے۔ اور اس کے فعل میں کسی قسم  کی ثواب کی امید رکھی جاوے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص 178

محدث فتویٰ

 

تبصرے