السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلے میں کہ عورت حمل زنا والی کا عقد اس کے ساتھ جس کا حمل ہے درست ہے یا نہیں۔ اگراس میں اختلاف ہو تو فتویٰ کس پر ہے۔ دلیل سے جواب مرحمت فرمایئں۔ ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شخص مذکورہ کا نکاح عورت مذکورہ کے ساتھ نکاح جائز ہے۔ بشرط یہ کہ زنا عورت مذکورہ سے اتفاقا صادر ہوا ہو اور زنا کی عادی وپیشہ ور نہ ہو۔ کیونکہ زانیہ کے ساتھ نکاح جائز نہیں۔ باقی رہی یہ بات کہ فتویٰ کس پر ہے۔ سو اس بارے میں کوئی صریح قول نظر سے نہیں گزرا لیکن فتویٰ کے قابل ہی قول ہے۔ کیونکہ دلیل کی رو سے بھی قوی ہے۔ (حررہ ابو محمد عبد الحق اعظم گڑھی)
ھوالموفق۔ جواب صحیح ہے۔ اورعندالحنفیہ اس پر فتویٰ ہے۔ رد المختار میں ہے۔
وصح نكاح حيلي من زنا عنه هما وقال ابو يوسف لايصح والفتوي علي قولهما كما في القهستاني انتهي
اوردر مختار میں ہے۔
لونكحا الزاني حل له وطبها اتفاقا انتهي
(کتبہ محمد عبد لرحمان المبارک فوری عفی عنہ سید محمد نزیر حسین دیلوی۔ فتاویٰ نزیریہ ج2 ص 255)
السلام و علیکم ورحمۃاللہ وبرکاۃ۔ معروج آنکہ فقیر کو اخباراہل حدیث مورخہ 8 شعبان 1332ہجری کے سوال نمبر 100 کے جواب میں چندشبہات ہیں براہ نوازش جناب والا ان کو رفع فرمادیں۔ دیگرآنکہ ذانیہ حاملہ کے نکاح میں فقیر کو ہمیشہ تردد رہتا ہے۔ جناب والا کے قلم سے جائز معلوم ہوا۔ لہذا اس کو ضرورحل فرمادیں۔ اوربے فائدہ سمجھ کر نہ چھوڑبیٹھیں۔ میری نیت اس مسئلے میں محض تحقیق حق ہے۔ اللہ کے لئے اس کو حل فرمادیں۔ جزاک اللہ فی الدارین خیرا۔ آ پ کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ زانیہ حاملہ اگراپنے زانی کے ساتھ نکاح کرے۔ تو باوجود حمل کے بعد تو یہ نکاح صحیح ہے۔ اورولی بھی جائز ہے۔ اگر حمل غیر کا ہے تو ملاپ نہ کرے۔ نکاح صحیح ہے۔
فدوی کی ناقص تحقیق میں قبل وضع حمل نکاح صحیح نہیں۔ خواہ حمل اسی ناکح کا ہو یا غیر کا ار دملی تو فرح نکاح ہے۔ ملاحظہ ہوآیت۔
وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ﴿٤﴾سورة الطلاق....
اس کے عموم سے امام جلال الدین سیوطی نے دلیل پکڑی ہے۔ کہ زانیہ حاملہ کی عدت وضع حمل ہے۔ دیکھو تفسیر در منشور اور مسک الختام صفحہ 535 میں نیل الاوطارسے نقل کرکے تحریرفرمایا ہے۔
وقال ابوحنيفة يعتد بوضعه ولوكان من زنا لعموم الاية
کہا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے بلکہ حاملہ زانیہ کی عدت وضع حمل ہے۔ اگرچہ حمل زنا سے ہوواسطے عموم آیت۔ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۔ کے۔
اور مسک الختام میں 553 میں ہے۔ ''وموئد عموم است حدیث سعید بن المسیب از بصرہ کہ مردے از انصاراست نزد ابودائود وگفت برنی گرفتم زن دوشیزہ رادر پردہ اوپس داخل شدم بردے ناگاہ دے۔ آبستن است پس زکر حدیث رائو گفت سفارقت کرو۔ آنحضرت میان ہردد۔
اور عون المعبود شرح ابو داؤد کے صفحہ 207 میں زیر شرح اس حدیث کے لکھا ہے۔
قال الامام المخطابي في امعالم في الحديث حجة ان ثبت لن راي العمل من الغجور يمنع عقد النكاح
اور سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اور احمد رحمۃ اللہ علیہ اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مذہب ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کامذہب جواز کی طرف ہے۔ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی قو ل ہے۔ اورحدیث میں ہے۔
انه فرق بينها ولوكان انكاح وقع صحيا لم يجز التفريق لان حدوث الزنا با لمنكوحة لاينسخ النكاح ولا يوجب المخروج الخيار والحديث سكت عنه المنز ر ي انتهي
(محمد عاشق از ریگیلیا نوالہ ضلع لاہور)
اڈیٹر۔ زانیہ حاملہ کے نکاح کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک تو اسی شخص سے ہو۔ جس کے زنا سے وہ حمل ہے۔ دوسرا اس کے غیرسےہودوسری صو رت میں تو میں بھی وضع حمل کے انتظار کا قائل ہوں۔ اور جن بزرگوں کے اقوال آپ نے نقل کئے ہیں۔ وہ بھی یہی کہتے ہیں۔ آئمہ حنفیہ کا فتویٰ کتب فقہ میں صاف ہے۔ کہ زانی کا اپنے مزنیہ حاملہ کے ساتھ نکاح جائز ہے۔ بہرحال آپ کو جو اشتباہ پیدا ہوا ہے تو و ہ دو صورتوں کے ملا دینے سے ہوا ہے۔ حالانکہ دونوں الگ الگ ہیں۔ (14 رمضان المبارک 32ہجری)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب