السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کتاب النکاح
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
از حضرت العلام مولانا ابو المکارم ظر عالم صاحب شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ مالگائوں
امابعد!
اسلام کے ظاہری دو طرح کے ہیں۔ عبادات او ر معاملات کتب حدیث وفقہ انہی دو قسموں پر مشتمل ہیں۔ مسلمان کو ظاہر عبادت سےآراستہ رکھنا رکن عبادت ہے۔ اور اپنی زندگی حرکات وسکنات کو ادب کے ساتھ رکھنا رکن معاملات اول کا تعلق خدا سے ہے جس کو حق اللہ کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا حق بندگی اپنے بندوں سے بلا شرکت غیرے چاہتا ہے۔ نماز۔ روزہ۔ حج ۔ زکواۃ۔ مسلمان کے مال۔ وجان اور زبان سے یہ حق ادا ہوناچاہیے۔ دوسری قسم کا تعلق بنی نوع انسان سے ہے۔ جس کو تمدنی تعلق کہتے ہیں۔ یہ منزل جس قدر دشوار گزار ہے۔ اسی قدر اس کے مفاد میں فائدہ نہ صرف غیروں کا بلکہ خود اپنا بھی ہے۔ اسی سے انسان کا معیار زندگی بلند ہوتا ہے۔
فتاویٰ ثنائیہ کی ترتیب فاضل مرتب نے انہی دو قسموں پررکھی جو ہزار ہامسائل کا زبدہ ہے۔ جلد اول عبادات کے بعد جلد ثانی معاملات ہی پر ہے۔ چونکہ مسائل واحکام ونکاح اس سے متعلق ہیں۔ اس لئے حسب ارشاد عزیزم راز صاحب بطریق اختصار میں ان مسائل کو پیش کررہا ہے۔ لیکن یہ اس قدر تفصیل طلب ہیں۔ کہ خود قرآن مجید سے بیان کرنے میں یہ ناکافی ہوگی۔ کیونکہ بحیثیت فتاویٰ اس کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ پھر احادیث کا سلسلہ تو بہت طویل ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کے صرف کتب صحاح کے مصنفین نے عنوانات کے تحت بہت سی حدیثیں جمع کی ہیں سیدنا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں 238 حدیثیں جمع کیں۔ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح مسلم میں 161 اسی طرح اما م ابو داوئود رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سنن میں 116۔ اور امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے 193 پھر اسی طرح ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ میں 173 ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اور موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ودیگر کتب ان کے سوا ہیں۔ توظاہر کے یہ سب تفصیل اس جگہ نہیں سما سکتی۔ اس لئے محض تعمیل ارشاد کی بناء پر مختصر مسائل اپنے رسالہ دستور النکاح سے منتخب کرکے پیش کرتا ہوں۔ وھو الموفق
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ معلوم کرو کہ فن تدبیر منزل کے اصول تمام عرب وعجم کے نزدیک مسلم ہیں۔ البتہ ان کی صورتوں میں اختلاف ہے۔ اور آپ ﷺ عرب میں پیدا کئے گئے۔ اورحکمت الٰہی کا متقضی ہوا کہ تمام دنیا میں بایں طور حکمۃ اللہ کااعلان ہوکہ عرب کا دین تمام ادیان پر غالب کیا جائے۔ ونیز تمام دنیا کی عادات عرب عادات سے منسوخ کیجایئں۔ اورتمام لوگوں کی ریاست ان کی ریاست سے منسوخ کیجائے۔ لہذا یہ بات ضروری ہوئی کی بجز عرب کی عادات کے تدبیر منزل کسی صورت نہیں ہوسکتی۔ (حجۃ اللہ البالغہ ص 487)
سبحان اللہ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کیسی پیاری بات کہی کیوں نہ ہو کیونکہ یہ دین تمام ادیان سے سہل تر ہے قرآن بھی کہتا ہے۔
يُرِيدُ اللَّـهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّـهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿١٨٥﴾سورة البقرة.....
’’خداتمہارے حق میں آسانی کاارادہ کرتا ہے۔ نہ دشواری کا۔ ‘‘
اور آپ ﷺ کاارشاد ہے۔
فانما بعثتم ميسرين ولم تبعثوا معسرين
’’ تم آسانیاں بڑھانے کو پیدا ہوئے ہو نہ دشواریاں پید کرنے کو‘‘
پیغمبر ﷺ کا پیغام جب یہ ہے تو پھر نکاح کے احکام میں کیوں اچھائی نہ ہوگی۔ بس اسی کو پیش نظر رکھ کر مسائل نکاح پر نظرڈالیے۔
یہ عربی لفظ ہے جس کے معنی عقد مرد وعورت اور مجامعت کرنے کے ہیں۔ اصطلاح شرعی میں نکاح نام ہے اس تقریب کا جو اعلان عام اور تقرری مہر رضائے فریقین سے کسی عورت کا کسی مرد کے ساتھ رشتہ یا عقد کیاجاتا ہے۔ اس میں اولا ً اللہ کی رضامندی دیکھ لی جاتی ہے۔ کہ آیا اللہ کی طرف سے اجازت ہے کہ نہیں۔ پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ آپ ﷺ کے ضابطہ وعمل درآمد کے موافق ہے یا نہیں۔ پھر لڑکیوں کے ولی کی رآضا مندی ضروری ہے۔ اگر دل رضا مند نہ ہو اور نکاح ہوجائے۔ تو اس طرح کے نکاح بدیوں میں مل جاتے ہیں۔ اور نتائج خراب نکلتے ہیں۔ ایسا ہی لڑکوں او ر لڑکیوں کی رضا ضروری ہے۔ پس ان رضا مندیوں کے بعد نکاح ہوتا ہے۔ اور ان میں سے اگر ایک کی بھی رضامندی اور مخالفت ہو تو پھر اس میں مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں۔ مہبط وحی حضرتﷺ کے عملدرآمد کے موافق اور ولیوں پھر طرفین کی رضا مندی کے بعد جب ایک فریق منظور کرتا ہے۔ اوردوسرا اس کو قبول کرتاہے۔ تو بس یہی نکاح ہوتا ہے۔
بڑامقصد تو نکاح سے یہ ہے۔ کہ خدا اور رسولﷺ کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے۔ قرآن میں متعدد جگہ نکاح کا ذکر آیا ہے۔ اور حدیث وفقہ میں اس کی تفصیل وشرح بیان کی گئی ہے۔ بڑی ترغیب دلائی گئی ہے۔ اور اس کے مقاصد وتجرد کے مفاسد خوب واضح بیان کئے گئے ہیں۔ قرآن میں ہے۔
خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ ﴿٢١﴾سورة الروم....
ترجمہ۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے واسطے تم میں سے جوڑے بنائے کہ تم ان سے آرام پکڑو۔ اورتم میں دوستی اور نرمی رکھی‘‘
پھر فرمایا۔
نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ وَقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُم مُّلَاقُوهُ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ ﴿٢٢٣﴾ سورة البقرة....
ترجمہ۔ تمہاری عورتیں تمہاری اولاد پیدا کرنے کےلئے بمنزلہ تمہاری کھیتی کے ہیں۔ ‘‘
ایک اور جگہ فرمایا۔
حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّـهُ ۚ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا ﴿٣٤﴾ سورة النساء.....
’’ تمہاری بیویاں تمہاری ٖغیر حاضری میں تمہارے مال وعزت اوردین کی حفاظت کرنے والیاں ہیں۔ ‘‘
محصنین غیرمسافحین بھی فرمایا کہ تمہارا نکاح ا س نیت سے ہو کہ تم تقویٰ اور پرہیز گاری کے قلعہ میں داخل ہوجائو۔ حصان کا لفظ حصن سے مشتق ہے۔ اور حصن بمعنی قلعہ نکاح کا نام احصان اس واسطے رکھا گیا ہے کہ اس کے زریعے سے انسان عفت کے قلعے میں داخل ہوجاتا ہے۔ اور بدکاری اور بد نگاہ سے بچ جاتا ہے۔ اورجسم سے بھی بچا رہتا ہے۔ پس حاصل یہ نکلا کہ نکاح قلعہ کا حکم رکھتا ہے۔ انسان کو اللہ نے متمدن بنایا ہے۔ اسلئے وہ خلوت میں آرام سے زندگی بسر نہیں کرسکتا۔ وہ مجبور ہے کہ اپنے ہم نشین کا ہمدم ہو۔ جمیعت کا حصول مردو عورت کے بجز نا ممکن ہے۔ اسی وجہ سے اس کےلئے ازدواجی زندگی ضروری ٹھیری یہی وجہ ہے کہ اسلام نے تجرد میں صرف اتناہی فائدہ نظر آئے گا۔ کہ وہ عیالداری کے تفکرات سے بچا رہے مگر جب ذرا زیادہ غور وتامل سے کام لو گے۔ تو مفاسد زیادہ نظر آئیں گے۔ طرح طرح کے آلام و امراض پیدا ہوں گے۔ مجرد آدمی تکثیر میں نوع انسانی سے محروم رہے گا۔ خانہ داری کی برکتوں اور آسانیوں سے بھی محروم رہنا پڑیگا۔ پھر محبت جو در حقیقت دنیا میں ایک نعمت عظمیٰ ہے۔ اس کی لطف اندوزی سے کیا واقف ہوسکے گا۔ بہر حال انسان جو جمعیت وملاپ اور رہن سہن کے لئے مجبور ہے۔ پر نکاح ہرحال میں مفید صحت اطمینان بخش راحت رساں اور سرور افزاء کفایت آمیز وترقی زندگی ارین ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ ﴿١٠٢﴾سورة آل عمران..
معلوم ہو ا منجملہ تقویٰ کے نکاح بھی ہے۔ اور منجملہ شعائراسلام بھی ۔
وَاللَّـهُ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُم مِّنْ أَزْوَاجِكُم بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ ۚ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللَّـهِ هُمْ يَكْفُرُونَ ﴿٧٢﴾ سورة النحل....
اس آیت میں رب کی طرف سے بندوں پر منت عظمیٰ ہے۔ کہ اذواج پیدا کئے۔ اور اولاد واولاد کی الاولاد دی۔
بہرحال تم اخلاقی طور پر یا مذہبی صورت میں جب اس پر غور کرو گے۔ تو نکاحوں کو فائدوں سے بھر پور پائو گے۔ طریق بمعیت کے لئے اس سے بہتر او ر مناسب کوئی او ر صورت نہیں بیماریوں سے بچانے کا عجیب علاج ہے۔ اگر یہ قانون الٰہی بنی نوع انسان میں نافذ نہ ہوتا تو دنیا آج سنسان نظر آتی۔ نہ کوئی مکان ہوتا اور نہ یہ موجودہ سرسبزو شاداب وسرسبز کارخانہ ہوتا۔ پس اللہ اور اس کے رسول ﷺ کافرمان سچ ہے۔ سب سے بڑی خوبی یہ کہ آدمی گناہ سے بچتا ہے۔ دل ٹھکانے لگتا ہے نیت ڈانواڈول ہوتی نہیں ہوتی شہوت کم ہوجاتی ہے۔ اولاد ہونے سے امت اسلام بڑھتی ہے۔ سنت انبیاء علیہ السلام پر عمل ہوتا ہے۔ اولاد صالح اور نیک پیدا ہوتو اس کی موت کے بعد وہ دعائے خیر کرتی ہے۔ نکاح سے شکرنعمت بھی بجالایا جاتا ہے۔ کیونکہ صحبت کرنا بھی ایک نعمت ہے۔ عورت کی بد خلقی اور اولاد کی پرورش پر جو کچھ صبر اور تکلیف جھیلی جاتی ہے۔ وہ بھی گناہ کے کفارے کا سبب ہے۔ نکاح میں فائدہ کا فائدہ۔ اور ثواب کا ثواب کیونکہ میاں بیوی کا پاس بیٹھ کر محبت وپیار کی باتیں کرنا ہنسی دل لگی میں دل بہلانا نفل نمازوں سے بھی بہتر ہے۔ اس لئے خدا نے یہ حکم دیا۔ ۔
وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿٣٢﴾سورة النور..
’’اپنی رانڈوں اور لائق غلاموں وباندیوں کے نکاح کردو‘‘
فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ
جو عورتیں تم کو پسند ہو ں نکاح کرلو۔ حضور علیہ السلام کا ارشاد ہے۔
تناكحوا تناسلوا فاني مكاثر بكم الامور لو بالقسط (غنية)
’’تم نکاح کرو اور اولاد بڑھاؤ۔ کیونکہ میں فخر کرنے والا ہوں تم سے امتوں پر۔ اگرچہ ادھورا بچہ ہی کیوں نہ ہو۔ ‘‘
نکاح کے سبب آدمی حرامکاری اورغیر عورتوں کیطرف نظر کرنے سے آدمی بچ جاتا ہے۔ (بخاری)جو شخص عفت کےلئے نکاح کرتا ہے۔ اللہ پر اس کی مدد کرنا ضروری ہے۔ (ترمذی)نکاح سے انسان کا آدھا ایمان کامل ہوتا ہے۔ جس نے نکاح نہ کیا اس کا آدھا ایمان نہیں۔ (مشکواۃ)مرد عورت میں جیسی نکاح سے محبت پیدا ہوتی ہے۔ کسی اور چیز سے نہیں ہوتی۔ (مشکواۃ)جو شخص نکاح کرسکتا ہو اور نکاح نہ کرے۔ وہ ہم میں سے نہیں۔ (طبرانی)آپ ﷺ نے فرمایا میں نکاح کرتے ہوں۔ جو میری سنت سے بیزار ہو وہ مجھ سے نہیں(بخاری)مسواک۔ ختنہ ۔ خوشبو۔ نکاح۔ ایسے کام ہیں جن کو تمام رسولوں نے کیا۔
اے گروہ جوانوں کے جس کو تم میں جماع یا گھرداری کی طاقت ہ و نکاح کرے۔ کیونکہ اس میں آنکھ کا بچائوستر کی حفاظت ہے۔ ورنہ روزہ ہی سہی کیونکہ یہ خصی ہونا ہے۔ (ابو دائود) مسکینہ ہے وہ عورت جس کا شوہر نہیں ۔ اور مسکین ہے وہ مرد جس کے عورت نہیں خواہ دونوں ہی مال دار کیوں نہ ہو۔ (غنیۃ الطالبین)
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ کہ اس امت میں افضل ترین وہ تھے۔ جن کی بیویاں سب سے زیادہ تھیں یعنی نور عالم ﷺ (تلبیس ابلیس)
نکاح مستحب ہے یا سنت یا واجب غلبہ شہوت کے وقت نکاح کرنا حنفیہ کے نزدیک واجب ہے۔ اور اگر یہ یقین ہو کہ بغیر نکاح کے زنا میں گرفتار ہوگا تو فرض ہے۔ شافعیہرحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مباح ہے۔ شیخ عبدا لقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے واجب کہا ہے۔ اور اما م نووی رحمۃ اللہ علیہ نے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نکاح تمام نوافل سے افضل ہے کیونکہ وجود اولاد کا سبب ہے۔ امام شوکانی ؤرحمۃ اللہ علیہ نے اہل حدیث کا مذہب لکھا ہے۔ کہ نکاح اس آدمی کے لئے مشروع ہے۔ جو جماع پر قادر ہوا اور جس کو حرام میں پڑ جانے کا خوف ہوتو واجب ہے۔ (غنیۃ الطالبین سبل السلام نیل الاوطار)
یہود نکاح کے لئے مال دیکھتے تھے۔ نصاریٰ جمال دیکھتے تھے۔ مگر اسلام دین کا اعتبار ہ ے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا۔ نکاح کی جاتی ہے عورت چار سبب سے 1۔ مال ۔ 2۔ حسب۔ 3۔ جمال۔ 4۔ دین۔ مگر تودین والی سے نکاح کر مٹی پڑے تیرے دونوں ہاتھوں پر اگر تو نے دین دار کوچھوڑا(بخاری ۔ مسلم)
حسب کہتے ہیں بڑے گھرانے کی عورت کوجیسے امیر ر ئیس ۔ بادشاہ۔ اامام عالم کی دختر اور جمال کہتے ہیں۔ خوبصورتی کو مال سے مراد یہ ہے کہ عورت آسو ڈہو۔ دین ظاہر ہے۔ فرمایا جس نے عورت کی عزت دیکھ کرنکاح کیا۔ اللہ ا س کی ذلت بڑھا دے گا۔ اور جس نے مال دیکھا اس کو محتاج کردے گا۔ جس نے حسب دیکھا۔ اس کا کینہ پن زیادہ ہوگا۔ البتہ جس نے اس لئے بیاہ کیا کہ آنکھ کوبچائے بہترکوروکے صلہ رحم کرے۔ تو اللہ تعالیٰ بھی اس مرد عورت میں برکت عطا دے گا۔ (طبرانی)
فرمایا حضورﷺ نے وہ عورت اچھی ہے۔ جب شوہر اس کیطرف دیکھے تو اس کو خوش کردے۔ اور جب اس کو حکم دے تو بجالائے شوہر کی مخالفت اپن جان ومال میں نہ کرے کہ جس سے وہ ناخوش ہو۔ (نسائی)
حدیث میں ہے کہ تم کنواری سے بیاہ کرو۔ کیونکہ ان کے منہ بہت میٹھے ان کے رحم بہت صاف ہیں۔ تھوڑی سی چیز پر راضی ہوجاتی ہیں۔
فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا
ترجمہ۔ نکاح کرو عورتوں سے جو تم کو پسند ہوں۔ اور دو دو تین تین چار چار عورتوں سے پس اگر تم کو اس کا احتمال ہوکہ انصاف کرسکو گے تو ایک ہی بیوی پر قناعت کرو۔ ''
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا غیلان بن سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مسلمان ہوگئے ان کے پاس دس بیویاں تھیں۔ وہ تمام اسلام لے آئیں آپﷺ نے فرمایا غیلان چار کو رکھ لے باقیوں کوچھوڑدے۔ (ابن ماجہ)
حارث کا بیان ہے کہ میں جب مسلمان ہوا تو میرے پاس آٹھ عورتیں تھیں۔ میں نے آپﷺ بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا چار کو رکھ کر باقی کو چھوڑ دے۔ (ابو دائود)
مذکوہ بیان سے معلوم ہوا کہ بیک وقت چار عورتوں سےزیادہ نکاح میں رکھنا جائز نہیں۔ اگر چار میں سے کسی ایک کو طلاق دے دی گئی۔ یا عورت مرگئی تو دوسری سے نکاح کرسکتا ہے۔ لیکن جو کوئی اپنی منکوحات میں برابری نہ کرسکے۔ تو ایک ہی پر بس کرے۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ یہ ہے۔
فان خفتم الاتعدلوانوا حدة الاية
پھر یہ بھی فرمایا۔
لن تستطيعوا ان تعدلوا بين النساء
’’تم سے ہرگز نہ ہوسکے گا۔ کہ بیویوں میں عدل کرو۔‘‘
امام المحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع صحیح میں بتر دیدر وافض امام زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ سے روایت پیش کی ہے۔
لايتزوج اكثر من اربع باب میں آیت مثني وثلث وربع میں ان کا یہ قول ہے۔ کہ صرف چار عورتیں نکاح میں جائز ہیں۔ زیادہ نہیں۔ (بخاری)
کفو کے معنی مساوات و مماثلت کے ہیں۔ یہ مساوات صرف دین میں معتبر ہے نہ ذات پات میں (سبل السلام )
مسلمان عورت کا نکاح کافر مرد کے ساتھ اسی لئے درست نہیں سید کا نکاح شیخانی سے اورشیخ مرد کا سیدانی عورت سے مغل کا پٹھانی سے جائز ہے۔ اگر کوئی سیدانی بالغہ عورت اپنا نکاح کسی غیر کفوء میں خود ہی کرے۔ تو کسی کو اس کے فسخ کا اختیار نہیں۔ اسی طرح اگر کسی نابالغ دختر کا نکاح بدکار فاسق آدمی سے چاہے اس کے ر شتہ دار نے یا غیر متعلق شخص نے کردیا ہوتو ولی کو اس کے فسخ کا مجاز ہے۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ
’’'اے لوگو پیدا کیا ہم نے تم کو ایک مرد عورت سے اور تم میں گروہ گروہ بنادیئے (اسی لئے کہ تم دنیاوی معاملات میں )ایک دوسرے سے تمیز کیے جاسکو۔ بے شک اللہ کے نذدیک زیادہ محبوب اور پیارا ازروئے قربت کے تم میں سے وہ ہے جو متقی ہے۔‘‘
انما المومنون اخوة (الحديث)
مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
خواہ لولا ۔ لنگڑا۔ یا مال دار غریب ہو۔ ہو یا مٖغل پٹھان اور سید جولاہا یا بھٹیا راہو۔
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚان الله لا يضيع عمل عامل منكم من ذكر وانثي بعضكم من بعض
’’مومن اور مومنہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ میں نہیں ضائع کروں گا۔ عامل کے عمل کو تم میں سے مرد ہویاعورت بعض تمہارے بعض سے ہیں۔ ‘‘
فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ
’’ جس دن صور پھونکاجائےگا۔ اس دن نہ تو ذاتیں ہوں گی۔ اور نہ آپس میں پوچھنا رہےگا۔ ‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر سفید کوسیاہ پر اور سیاہ کوسفید پر کسی کوفضیلت وبزرگی نہیں مگر بوجہ تقویٰ اور پرہیز گاری کے کیونکہ تم سب آدم ذاد ہو۔ اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے ہیں ۔ (سبل السلام)
فتح مکہ کے دن حضور ﷺ نے وعظ فرمایا کہ مومن متقی اللہ کے نزدیک بزرگ ہے اورفاسق فاجر اللہ کے نزدیک ذلیل ہے۔ (سبل السلام)
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ باوجود غلام ہونے کے مقبول بارگاہ خدا ہوئے۔ باوجود نجیب القوم ہونے کے ذلیل ہوا۔ بلال کی کم ذات ہونے نے اثر نہ کیا۔ اور ابو جہل کی نجابت وشرافت کچھ کام نہ دے سکی۔ آپﷺ کی سگی پھوپھی ذاد بہن حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا خاندان بنی اسعد خزیمہ سے تھیں جنکی عزت ورفعت شان معلوم ومعروف ہے مگر ان کا نکاح زید غلام سے ہوا تھا۔ ابو بند جن کا نام یسار تھا۔ آپﷺ کے حجام تھے۔ مگر آپ ﷺنے ان کے نکاح کا پیغام بنی بیطفہ کے قبیلہ میں بھیجا تھا۔ حالانکہ یہ غلام تھے۔ اور وہ مشہور خاندان کی خاتون تھیں۔ (ذاد المعاد)
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا قرشیہ فہریہ خاندان قریش سے تھیں۔ مگر آپ ﷺ کے مشورے سے ان کا نکاح اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ غلام زادہ سے ہوا تھا۔ (سبل السلام )ہالہ بنت عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو کہ ہمشیرہ عبد الرحمٰن کی تھیں۔ اور بڑے معروف خاندان کی صاحب زادی تھیں۔ مگر ان کا نکاح بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا تھا۔ (سبل السلام)غرضیکہ کفو کالہاظ محض دین میں ہے۔ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ مالدار حسب ونسب والی عورت کا نکاح غلام دیندارکے ساتھ جائز ہے۔ اور قریشی عورت کا غیر قریشی ونیز غیر ہاشمی کا ہاشمی کے ساتھ بلکہ ایک فقیر دیندار مسلمان کے ساتھ عورت مال دار کا نکاح بلاشبہ جائز ہے۔ (زاد المعاد)ولایت میں طویل طول جھگڑے نکال لئے حالانکہ شریعت کا صاف بیان یہ ہے جس کو علمائے محدثین نے بیان فرمایا۔ کہ نکاح عورت کا بغیر ولی کے باطل ہے۔
عن ابي موسي عن النبي صلي الله عليه وسلم قال لانكاح الابدلي
ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ محمد رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ کہ نہیں ہے نکاح بلادلی کے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے۔
ان النبي صلي الله عليه وسلم قال ايما امراة نكحت بغير اذن وليها فنكاحها باطل فنكاحا باطل فنكاحا باطل فان دخل بها فلها المهتر بما استحل من فرجها فان اشجر وافالسلطان ولي من لاولي له
’’حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو عورت بغیر اجازت ولی کے اپنا نکاح کرے۔ پس اس کا نکاح باطل ہے۔ تین بارفرمایا کہ پھر اگر صحبت کی اس عورت سے تو اس کےلئے مہر ہے۔ اس سبب سے کے فائدہ اٹھایا اس کی شرم گا سےپھر اگر ولی آپس میں جھگڑیں تو بادشاہ اس کا ولی ہے۔ جس کے واسطے کوئی ولی نہیں ہے۔ ‘‘
اس کے علاوہ اور بھی صحیح حدیثیں ہیں۔ جن سے غیر صحیح ہونا عورت کے نکاح کا بدوں ولی کے ثابت ہوتا ہے۔ قریب تیس صحابیوں کے اس بارے میں روایتیں ہیں۔ معلوم ہوا اعتبار ولی کا ضروری ہے۔
عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا احسن شروط کے جس کو تم وفا کرو وہ شرطیں ہیں۔ جس سے تم نے فرج کو حلال کیا ہے۔ مراد اس سے یا تو مہر ہے۔ یا وہ تمام شروط ہیں۔ جن کی ترغیب دے کر نکاح کیا ہے۔ یا وہ باتیں ہیں جن کی عورت مضنضائے زوجیت مستحق ہے۔ ورنہ ایسی شرطیں جو شرع کے خلاف ہیں۔ ان کا پورا کرنالازم نہیں۔ جیسے یہ شرط کرنا کہ دوسرا نکاح نہیں کروں گا۔ میں تعزیوں کی زیارت کو جا یا کروں گی۔ قبروں پر بھی جانے سے نہ رکوں گی۔ میں تم سے اس وقت تک نکاح کرسکوں گی۔ جب پہلی عورت کو طلاق دے۔ ہمیشہ اپنے سسرال میں ہی رہوں گی۔ تمہارے ساتھ پردیس نہ جائوں گی وغیرہ وغیرہ۔
شرائط جو نکاح سے متعلق ہرگز جائز نہیں۔ حدیث میں ہے کہ جو شرط کتاب اللہ میں نہیں ہے۔ وہ باطل ہے۔ نکاح میں ضروری ہے۔ کہ اگر لڑکی بالغ ہو تو خود اس کا راضی ہونا شرعا معتبر ہے۔ اور جو نابالغ ہو تو اس کے ولی کو اختیار ہے۔ بغیر اس کی لڑکی کی مرضی کے نابالغ لڑکی کا نکاح نہیں ہوسکتا۔ مرد عورت دونوں کے لئے ضروری ہے۔ کہ کسی کو نکاح کی وکالت کےلئے مقرر کریں۔ اور وکیل کے ساتھ دو گواہوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر وہ مرد گواہی کےلئے میسر نہ ہوسکے۔ توپھر ایک مرد اور دوعورتیں گواہی کے لئے کافی ہیں۔ مگر گواہ کے بغیر نکاح درست نہیں ہے۔
ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ زنا کرنے والیاں ہیں وہ عورتیں جو بے گواہ کے اپنانکاح کرلیتی ہیں۔ نکاح میں خظبہ مسنونہ پڑھے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مشہورخطبہ ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ جب کسی مجلس نکاح میں شیریک ہوتے اور وہ خطبہ نہ سنتے تو مجلس سے اٹھ کرچلے جاتے۔ (غنیۃ الطالبین)
تقرر مہر بھی ضروری ہے۔ یہ نکاح کاجزو اعظم ہے۔ اس کا تقرر جانبین کی رضا مندی پر موقوف ہے۔ مگر کمی کے ساتھ مہر ہونا بہت اچھا اور باعث خیر ہے۔ بڑی برکت والا ہے ہو نکاح جو سہل ہو تکلیف میں یعنی جس نکاح میں اسباب جمع کرنے کی تکلیف نہ ہو۔ اور عورت تھوڑے مہر پر راضی ہوجائے۔ (مشکواۃ)نکاح بیٹھ کر پڑھانا سلف کا اور مشائخین کا طریقہ رہا ہے۔ (غنیۃ الطالبین)
اگر چہ کھڑا ہوکر خطبہ دینے میں ممانعت نہیں ہے۔ متولی نکاح یا قاضی یا اور کوئی شخص دولہا کو سامنے بیٹھا کر یا برابر بٹھا کر یہ کہے کہ میں نے فلاں لڑکی فلاں کی بیٹی بمقابلہ اتنے مہر کے تیسرے ساتھ نکاح کردی۔ د ولہا جواب میں کہے کہ میں نے قبول کی نکاح ہوگیا۔ حاضرین مجلس اور نکاح خوان نوشہ کو مبارک دیں۔
بارك الله وبارك الله عليك ولجمع بينكما في خير (تحفۃ الاحوذی)
’’ خدا تیرے واسطے برکت دے۔ اورتجھ کو برکت دے اور جمع رکھے تم دونوں خیر بھلائی کے ساتھ۔ ‘‘
عورتیں بھی گھر میں اسی طرح مبارکی دیں (بخاری)
نکاح ایجاب قبول نکاح کے رکن ہیں۔ اگر ایجاب نہ ہوا اور قبول پایا گیا۔ یا ایجاب سوا اور قبول نہ ہوا تو نکاح صحیح نہ ہوگا۔ انعقاد نکاح کے وقت جو لفظ پہلے بولا جائے وہی ایجاب ہے خواہ عورت کیطرف سے ہویامرد کی اور اس کے جواب کو قبول کہتے ہیں۔ نکاح بلا خطبہ بھی درست ہے ۔ مگر خلاف سنت ہے (ابو دائود)
نکاح کے لئے اگرچہ خاص دن یا وقت مقرر نہیں۔ مگرپیران پیر نے جمعہ جمعرات کے دن کو اچھا سمجھا ہے وقت کا بھی شام کے وقت کو اچھا سمجھاہے۔ (غنیۃ الطالبین)
نکاح کے لئے مساجد اللہ مناسب ہیں۔ ورنہ جواز ہر جگہ ہے۔ حدیث میں ہے آپﷺ نے فرمایا مسجدوں میں نکاح کیاکرو۔ اور اس کا اعلان بھی کردیا کرو۔ (ترمذی)مسجدوں میں نکاح کےلئے زینت فرش فروش اور روشنی وغیرہ کو ابن الحاج حنبلی رحمۃ اللہ علیہ نے مناسب نہیں سمجھا ہے۔ (المدخل لابن الحاج)
کے معنی عورت کو آراستہ کرکے خاوند کے پاس بھیجنے کے ہیں۔ نکاح کے بعد مستحب ہے۔ کہ عورتیں جمع ہوکر دلہن کو نہلادیں۔ اور آراستہ کرکے خاوند کے پاس بھیجیں زفاف وخلوت دن اور رات دونوں وقتوں میں درست ہے۔ کوئی خصوصیت رات ہی کی نہیں۔ (نووی)منکوحہ اگرجماع کی قوت رکھتی ہو تو خلوت چاہیے ورنہ نہیں۔ (نووی)
شوہر کو چاہیے کہ صحبت سے پہلے مہر کاکچھ نہ کچھ حصہ عورت کو دے دے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جب نکاح کیا۔ تو صحبت کا وقت آنے سے پہلے آپﷺ نے فرمایا کہ جب تک علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کچھ دے نہ دیں صحبت نہ کریں۔ چنانچہ انھوں نے زرہ دے کر خلوت کی(ابودائود)
نکاح شرعی یہ ہے ۔ کہ دولہا سے ہوسکے تو کپڑا زیور مہر کا کچھ حصہ دلہن کےولی کے پاس بھیج دے۔ پھر دن کو پاپیادہ یا سوار ہوکر دلہن کے گھر چلا جائے نہ روشنی کی ضرورت ہے نہ سواری کی نہ جلوس کی اور نہ باجے گاجے کی عقد کے دو پھول پڑھا کر دلہن کو اپنے گھر لے جائےدلہن پائوں پیدل یا سواری دونوں طرح جو ممکن ہو دن کو یا رات کوچلی جائے۔ چلو چھٹی ہوئی نکاح ہوگیا۔ اگر کسی کے سو لڑکیاں ہیں۔ تو ولی کو اس کے اس طرح نکاح کردینے میں تکلیف نہ ہوگی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب