سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(190) کیا وجہ ہے جو اہل حدیث علماء کرام حدیث شریف مندرجہ زیل پر عمل پیرا نظر نہیں آتے

  • 6743
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1327

سوال

(190) کیا وجہ ہے جو اہل حدیث علماء کرام حدیث شریف مندرجہ زیل پر عمل پیرا نظر نہیں آتے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا وجہ ہے جو اہل حدیث علماء کرام حدیث شریف مندرجہ زیل پر عمل پیرا نظر نہیں آتے۔

عن عمار قال سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول ان طول صلوة الرجل وقصر خطبته مئنة من فقهه فاطيلوا لاصلوة والقصروا الخطبة وان من البيان لسحرا (رواہ مسلم )

ترجمہ۔ رسول اللہ ﷺ نے  فرمایا ہے۔ نماز لمبی اور خطبہ چھوٹا پڑھنا فاعل کی عقل کی دلیل ہے۔  اور بعض بیان مثل جادو کے موثر ہوتے ہیں۔ آہ ایسا غافل ہوگئے کہ ہمیشہ حضور ﷺکے فرمان واجب الاذعان کو ہم لوگ پس پشت ڈال رہے ہیں۔ اور پرواہ تک نہیں کرتے۔ کوئی مولوی صاحب تو گھنٹہ بھر خطبہ اوردس منٹ نماز اور کوئی مولناٰ ڈیڑھ بلکہ دو گھنٹہ خطبہ اور پندرہ منٹ میں نماز غرض کہ جس کودیکھا وہ مذکورہ بالا حدیث کے خلاف کررہا ہے۔  خدا ہم کو توفیق نیک عطا کرے۔ (الراقم العاجز محمد بن ولی جوناگڑھی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اہل حدیث

اس حدیث کی تشریح میں اختلاف ہے۔ بعض علماء طول اور قصران دونوں (نماز اور  خطبہ)میں باہمی نسبت سمجھتے ہیں۔ یعنی خطبہ کی نسبت سے نماز لمبی ہو۔ ان معنی سے تو خطبہ نماز سے چھوٹا ہوناچاہیے۔ نماز اگر پندرہ منٹ میں ختم ہو تو خطبہ دس بارہ منٹ میں ہو۔ غالبا ً اسی تشریح کے مطابق آپ کاسوال ہے۔ دوسری تشریح یہ ہے کہ خطبہ فی نفسہ چھوٹا ہو۔ اور نماز فی نفسہ لمبی ہو۔ ان دونوں میں نسبت مراد نہیں۔  مثلا آجکل اپنے طویل لیکچر کےلئے دو گھنٹے ہوتے ہیں۔  تو خطبہ بھی چونکہ ایک لیکچر ہے۔ وہ اتنا لمبا نہ ہوناچاہیے۔ بلکہ دو گھنٹے سے کم وقت میں ختم کرناعقل مندی ہے۔  تاکہ حاضرین سو نہ جایئں جیسا کہ لمبے خطبوں میں مشاہدہ ہوتا ہے۔ (اہلحدیث 19 زی الحجہ 1341ہجری)

تعاقب برفتویٰ بندقہ

اخبار اہل حدیث جلد نمبر 17 نمبر 30 میں ایک فتویٰ مولانا ابو الوفا صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  کادربارہ حلت شکار بندوق کے چھپا ہے۔ جبکہ بندوق بسم اللہ کہہ کر چلائی جائے۔ اور شکار بندقہ رصاصیہ یا چھرہ یا گولی سے گر کر مرجائے۔ اور ذبح کرنے کا موقع نہ ملے۔ مولانا موصوف نے لکھا ہے۔  کہ بندوق کاوجود پہلے نہ تھا۔ متاخرین علماء نے اسے تیر کے حکم میں داخل کیا ہے ۔ لہذا جوتیر کے شکار کا حکم ہے یعنی حلت وہی اس کا حکم بھی ہے۔  علت جامعہ دونوں میں خرق (پھاڑ) کا پایا جاتا ہے۔ اور صدم کا نہ ہونا (یہ ہے خلاصہ استدلال )

اقول

بندقہ رصاصیہ یاچھرہ یا گولی ۔ ان میں تو نہ دھار ہے نہ نوک پھر ان سے بجز صدم پائےجانے کے خرق اصلی کسی طرح نہیں پایا جاسکتا۔ التبہ وہ خرق جو صدم کی شدت سے حاصل ہوتا ہے۔ وہ البتہ پایا جاتا ہے۔ کہ چھرہ یا گولی شدت صدم سے شکار میں یادیواریں میں یا انسان کے جسم میں گھس جاتی ہے۔ پس یہ خرق بلاشبہ عارضی ہوا جب تک اداھر دار یا نوکدار چیز نہ ہو۔ خرق کا پایا جانا مفقود ہے۔ اور جوخرق شدت صدم سے پایا جاتا ہے۔ وہ عارضی ہے قابل اعتبار نہیں۔ بلکہ وہاں صدم ہی معتبر ہے۔ اور صدم سے مرا ہوا جانور حرام ہے۔ تم تجربہ کرکے دیکھ لو جب شدت صدم ہوگا تو اس کے ساتھ خرق ضرور ہوگا۔ اصل اس مسئلے میں امام شوکانیرحمۃ اللہ علیہ  کی تحریر سے غلط فہمی عارض ہوتی ہے ۔ تفسیر  فتح البیان جلد نمبر 3 ص 10 میں ہے۔ اس کا خلاصہ وہی ہے جو پہلا گزرا ہاں اُس عبارت  یہ معلوم ہوتا ہے کہ جناب نواب معلیٰ القاب مولانا صدیق حسن صاحب بھی اس مسئلے میں اما م شوکانی۔ کے موافق ہیں۔ اور     وہ ریشہ یعنی پر کی مثال دے کر یہ ثابت کرناچاہتے ہیں۔ کہ بہ نسبت تلوار۔ یانیزہ ۔ یا تیر۔ کےگولی چھرہ یا بندقہ میں خرق بہت زیادہ پایاجاتا ہے۔ جوتجربہ پر موقوف ہے۔ غالبا بعد تجربہ کے لکھا ہوگا۔ لیکن ہماری سمجھ میں اب تک یہ نہیں آیا کہ وہ پتھر سے مارے ہوئے شکار کو بھی جائز اور حلال بتاتے ہیں۔ بشرط یہ کہ پتھر مارنے سے شکار میں خرق پایا جاوے۔ واما اذا خرقت حل لیکن پتھر جب خرق پیدا کرے۔ تو شکار حلال ہے۔ میں کہتا ہوں کہ جس طرح پتھر مارنے میں صدم پایا جاتا ہے۔ اور مٹی کے غلہ میں صدم پایاجاتا ہے۔  اور غلہ کے شکار کی حرمت عدی بن حاتم کی روایت میں موجود ہے۔

ولا تاكل من البندق الاما ذكيت

(غلہ کا شکار نہ کھائو۔ جب تک ذبح نہ کرلو۔ اس طرح بندوق ک چھرے یا گولی میں بھی صدم ہی پایاجاتا ہے۔  کیونکہ وہ دھاردار یا نوکدار نہیں۔ محدود ہے پس خرق کا وجود بتبع صدم شدید ہوا نہ بالا صالۃ

نوٹ

اس مسئلہ میں ایک بڑی مبسوط  تحریر ’’القول المحمود‘‘ ہے جو مصر میں طبع ہوئی۔ ایک علامہ ہندوستانی ساکن ریاست ٹونک کی ہے۔ دوسری تحریر علامہ بیرم کی ہے۔  جو وہ بھی مصر ہی میں طبع ہوئی ہے۔ مولانا سید عرفان صاحب مرحوم ٹونکی نے ان دونوں کا مبسوط جواب لکھا تھا۔  مگر وہ طبع نہ ہوسکا(1)۔  خود مولانا عرفان صاحب حلت کےقائل تھے۔ مگر اب تک اس امر کی تشفی نہیں ہوئی۔ جسے اس کمترین نے پیش کیا ہے۔ خرق کے معنی اہل لغت نے قتل سجدہ لکھا ہے۔ (مجمع البحار)اور بندقہ یاچھرہ یاگولی میں حد نہیں نہ نوک ہی ہے۔ (عبد السلام مبارک پوری عفی عنہ)

اڈیٹر

آ پ کےاس تعاقب سے معلوم ہواکہ حلت شکار بندوق کا فتویٰ ہی نہیں۔ بلکہ نواب صاحب بھوپال اور قاضی شوکانی سید عرفان وغیرہ مرحومین بھی قائل تھے۔ آہ۔

نہ من  تنہا دریں میخانہ مستم     جنید وشبلی وعطار شد مست

علاوہ دلائل نقلیہ کے یہ بات بھی قابل غور ہے۔ کہ اگر شکار بندوق حرام قرار دیاجائے تو آجکل شکار کی رسم ہی بند ہوجائے کیونکہ تیروں کا رواج ہی نہیں۔ فافہم (28 شوال 38ہجری)

----------------------------------------------------

1۔ حضرت مولانا سید عرفان کایہ علمی قطعی رسالہ بزرگوار حاجی احمد خاں مرحوم نمبردار موضع رسپوا کے کتب خانہ میں تھا۔ مجھے خود اس کے مطالعہ کاشرف حاصل ہوا۔ افسوس کے حاجی صاحب مرحوم کے بعد یہ قیمتی خزانہ کرم خوردہ ہوکر ضائع ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون (محمد دائودراز)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص 146

محدث فتویٰ

تبصرے