السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
گائے کا عقیقہ جائز ہے یا نہیں اگر جائز ہے تو سات حصے شمار کئے جایئں گے یا نہیں۔ ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
گائے کا عقیقہ کسی حدیث میں مجھے یا د نہیں۔ پھر شرکت تو اور بھی قابل ثبوت ہے قربانی میں گائے لگتی ہے۔ مگر عقیقے کا حکم خاص ہے۔ جس کی بابت فرمایا عن الغلام شاتان لڑکے سے دو بکریاں ذبح کی جایئں۔ (29 زی قعدہ 39 ہجری)
بقرہ ماجزائے بقر عقیقہ میں آپ کو تردد ہے لہذا ثبوت پیش خدمت ہے۔
باب العقيدة عون المعبود ص 65 حديث عند الطبراني وابي الشيخ عن انس رقعه يعق عنه من الابل والبقر والغنم ونقله ابن المنزر ص 25 عن حفصة بنت عبد الرحمان بن ابي بكر والجمهور علي اجزاء الابل والبقر
(فتاویٰ نذیریہ ص 448) باب العقیقہ میں ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ سے ہے وسبع البقر ولبدنۃ کشاۃ۔ (از حکیم عبد الرزاق آمنسوال ومولانا ابو القاسم بنارسی مرحوم)
اس اطلاع کےلئے آپ اور مولوی ابوالقاسم بنارسی شکریہ کے مستحق ہیں گائے کاعقیقہ جائز ہے۔ (اہلحدیث سوہدرہ 16 مئی 1952ء)
نوٹ۔ تعاقب کا ملخص بھی چونکہ جواب تعاقب میں آگیا ہے۔ اس لئے اس کی نقل ضروری نہیں سمجھی گئی۔ (راز) (از قلم جناب مولانا محمد ابو القاسم صاحب بنارسی رحمۃ اللہ علیہ )
اخبار اہل حدیث 10 اکتوبر ص13 پر ایک طویل تعاقبی مضمون شائع ہوا ہے۔ جس میں طبرائی صغیر کی حدیث (گائے ۔ اونٹ۔ عقیقہ میں ذبح کرنے کے جواز والی) کے ہر راویوں پرجرح نقل کی گئی ہے۔ یہ ساری بحث ایک اردو رسالہ سے نقل کی گئی ہے۔ جو اس باب میں کچھ عرصہ ہوا ایک مولوی صاحب نے بنگال میں شائع کیا تاھ۔ یہی جرحیں مولوی عبد الحنان صاحب دلالپوری نے بھی 1921ء میں اخبار اہل حدیث میں شائع کرائی تھیں۔ میں نے انہی دنوں اس مسئلے پر ایک لبیط مضمون اخبار اہلحدیث میں شائع کرایا تھا۔ جس میں نہایت تفصیل سے ان تمام اعتراضوں کاجواب دیا تھا۔ جن کو اب مولوی عین الحق صاحب دلال پوری نے دوبارہ اخبار اہلحدیث میں شائع کرایا ہے۔ اور ا س کے مالہ وماعلیہ پر معقول بحث کی جاچکی ہے۔ میں نے لکھا تھا کہ حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ جو اصول حدیث کے بھی مصنف ہیں۔ اوراسماء الرجال کے بھی جن کی شرح نخبہ سے اب بھی متعاقب نے استدلال کیا ہے۔ جنہوں نے زہبی کی میزان الاعتدال پر لسان المیزان لکھی ہے۔ اور اس میں راویوں پر وہ تمام جرحیں مرقوم ہیں۔ جو متعاقب نے لکھی ہیں۔ باوجود اس بات کے علم کے وہ حدیث مذکور کو فتح الباری میں نقل کرتے ہیں۔ اور کسی راوی پر کوئی جرح نہیں کرتے۔ اور مقدمے میں لکھ چکے ہیں۔ کہ شرح بخاری میں جن احادیث کو میں بغیر جرح کے نقل کروں گا وہ صحیح ہوگی یا حسن۔ علاوہ ازیں اسی حدیث کے راوی انس اپنے بچوں کے عقیقہ میں اونٹ ذبح کرتے ہیں۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عقیقہ میں اونٹ ذبح کرتے ہیں۔ دیگر صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کا بھی یہی تعامل رہا ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے تحفۃ الودود باحکام المولود میں بالتفصیل نقل کیا ہے۔ پھر جمہور محدثین کابھی یہی تعامل رہا ہے۔ اور دلیل وہی حدیث آخر میں حضرت میاں صاحب کا بھی فتویٰ (فتاویٰ نزیریہ جلددوم ص 448 راز)بھی یہی ہے۔ اور جرحیں سب کی سب مبہم اور غیر مفسر ہیں۔ تو کیونکر حدیث مذکورہ مردود ہوگی۔ یہ ساری بحثیں اخبار اہلحدیث جلد 19۔ نمبر 8 23 دسمبر 1921ء نمبر 5 نمبر 23 و نمبر 34 ونمبر 35 ۔ 366۔ 37۔ 38۔ 39 از 9جون 1923ء تا 28 جون 23ء میں شائع ہوچکی ہیں۔ جن صاحبوں کے پاس مزکورہ پرچے موجود ہوں۔ وہ ان میں دلال پوری صاحب کے اعتراض کاشافی جواب ملاحظہ کرلیں۔ اور حضرت فاضل مدیر اہل حدیث اگر مناسب سمجھیں تو ا س مضمون کو کسی پرچہ میں شائع کردیں۔ غرض متعاقب کے تعاقب سے کوئی صاحب دھوکہ نہ اٹھایئں۔ ان کی ساری جرحیں مرفوع ہیں۔ (نوٹ)کوئی صاحب متعاقب کا اصل مضمون ملاحظہ کرنا چاہیں تو وہ اہلحدیث 10 اکتوبر 19 30 ء پھر 17 اکتوبر 30 ء ملاحظہ کریں۔ (راز)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب