السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب آفتاب غروب ہوتا ہے۔ توعرش معلےٰ کے نیچے سجدے میں گرتا ہے۔ اور اللہ جل شانہ سےطلوع ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے۔ جب تک حکم ایزدی نہیں ہوتا ہے۔ تب تک ساجد رہتا ہے۔ اور کہتا ہے یا رب میں کہاں سے طلوع ہوں۔ تب حکم باری طلوع من المشرق ہوتا ہے۔ توطلوع ہوتا ہے۔ اب عقل چاہتی ہے۔ کہ اگر آسمان دنیا سے پورب کی طرف جاتا ہے۔ تو پھر دن ہونا چاہیے اور اگر زمین کے نیچے سے جاتا ہے۔ تو زمین کے نیچے مثل دنیا اور بھی دنیا ہوجاتی ہے۔ اس کی کیا وجہ؟
(سائل ابو عبد الماجد محمد عبد الواحد المحمدی از باتو ٹیل ضلع راجشاہی)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس حدیث کو سمجھنے کےلئے پہلے آسمان اور زمین کی صورت اور ان میں سورج کی رفتار کاسمجھنا ضروری ہے۔ اس سب کی صورت اس طرح ہے۔
اس کے اوپرعرش ہے۔ اور یہ بات صاف روشن ہے کہ سورج ہروقت چلتا ہے اور چلتے وقت عرش کےنیچے ہی رہتا ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ سورج اپنی رفتار میں ایک طرف ڈوبتا ہے تو دوسری طرف چڑھتا ہے۔ اسیلئے اس کے طلوع غروب میں فرق ہے۔ کلکتہ اور امرتسر کا نصف گھنٹہ سے زیادہ فرق ہے۔ پس سورج اپنی رفتار میں ہر وقت عرش کے نیچے ہرقدم پر خدا سے اجازت طلب کرتا ہے۔ اور اجازت ہی سے اگلے مشرق پر طلوع کرتا ہے۔ در حقیقت یہ ایک قدرتی منظر کا اظہار ہے۔ جیسے ارشاد ہوتا ہے۔
ما اصابكم من مصيبة الا باذن الله
(جو مصیبت تم کو پہنچتی ہے۔ وہ اللہ کے اذن سے ہے۔ )قول مشہور ہے۔
لا تحرك ذرة الا باذن الله(دنیا میں جو حرکت یا جو سکون ہے۔ سب اذن الٰہی سے ہے۔ ماهم بضارين به من احد الا باذن الله۔ پس سورج بھی اس قدرتی قانون کے ماتحت کام کررہا ہے۔ یاد رہے کہ سورج ہماری نظر میں ہمارے حصہ زمین سے نیچے جاتا ہے۔ مگر درحقیقت وہ دوسرے حصہ پر پہنچتا ہے۔ پھر بدستور باذن الٰہی چلتا چلتا ہمارے مشرق سے طلوع کرتا ہے۔ سبحانہ ما اعظم شانہ
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب