السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قبر کی زیارت کو کس طرح جانا چاہیے۔ اور پھول چادر باجہ وغیرہ باجہ بجا کرلے جانا جائز ہے یا نہیں؟(عبد لحفیظ بنگلور)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قبر کی زیارت کو اس طرح جانا چاہیے۔ کہ نیت یہ کہ وہاں جا کر موت یاد کر کے عبرت حاصل کریں چادریں چڑھانا باجہ بجانا یہ سب خرافات ہیں اصل غرض کے بالکل مخالف عورتوں کا قبروں میں جانا حدیث شریف میں منع آیا ہے۔(27 شعبان 1939ء)
مردوں کے واسطے زیارت قبور بالاتفاق سنت ہے۔ اور عورتوں کی نسبت اختلاف ہے۔ اکثر علماء کے نزدیک عورتوں کےلئے بھی زیارت قبور جائز ہو۔ رخصت ہے اور بعض علماء کے نزدیک مکروہ ہے۔ اوراس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ عورتوں کی زیارت قبور کی نسبت حدیثیں مختلف آئی ہیں۔ جو اہل علم عورتوں کےلئے بھی زیارت قبور کوجائز بتاتے ہیں۔ ان کی پہلی زلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت کو ایک قبر کے پاس روتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ اللہ سے ڈر اورصبرکر۔ (رواہ البخاری)اور آپ نے اس کو قبر کے پاس بیٹھنے سے منع نہیں فرمایا۔ اوردوسری دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تم لوگوں کو زیارت قبور سے منع کیا تھا۔ سو تم لوگ قبروں کی زیارت کرو۔ (رواہ مسلم)وہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ اجازت مردوں اور عورتوں دونوں کوشامل ہے۔ 3۔ تیسری دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے بھائی عبد الرحمٰن کی قبر کی زیارت کی تو اُن سے کسی نے کہا کہ کیا رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو زیارت قبور سے منع نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہاں منع کیا تھا(مگر)پھر ان کو زیارت قبور کا حکم کیا(رواہ الحاکم) اور 4۔ چوتھی دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ سے کہا کہ جب یا رسول اللہ جب میں قبروں کی زیارت کروں تو کیا کہوں آپ ﷺنے فرمایا کہ جب تو قبروں کی زیارت کرے۔ تو کہہ السلام علی الدیار الحدیث (رواہ مسلم)اور 5 پانچویں دلیل یہ ہے کہ حضر ت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہرجمعے کو اپنے چچا حمزہ کی قبر کی زیارت کرتی تھیں۔ (رواہ الحاکم وھو امرسل) اور 6۔ چھٹی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو اپنے باپ ماں دونوں یا ایک کی قبر کی زیارت ہرجمعہ کو کیاکرے تو اس کی مغفرت کی جاوے گی۔ اور وہ بارلکھا جاوے گا۔ (رواہ البہیقی فی شعب الایمان مرسلا) اور جو لوگ عورتوں کے لئے زیار ت قبور کو مکروہ بتاتے ہیں۔ ان میں بعض مکروہ بکراہت تحریمی کہتے ہیں۔ اور بعض مکروہ بکراست تنزہیی ۔ ان لوگوں کی 1پہلی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پرلعنت کی ہے (اخرجہ الترمذی و صححہ) اور 2۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو سامنے آتے ہوئےدیکھا تو پوچھا کہ کہا ں سے آتی ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس میت کی تعزیت کو گئی تھی۔ آپﷺ نےفرمایا کہ شاید تو جنازے کے ہمراہ کدیُ یعنی قبرستان میں گئی تھی۔ انہوں نے کہا نہیں(اخرجہ احمد والحاکم وغیرہما) ان لوگوں کی یہی دو دلیلیں ہیں۔ علامہ قرطبی نے ان متعارض و مختلف احادیث کی جمع وتوفیق میں جو مضمون لکھا ہے۔ اس کا خلاصہ (1) مجیب
نے جواب میں لکھ دیا ہے۔ اور علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو اعتماد کے قابل ولائق بتایا ہے۔ اور بلاشبہ جمع وتوفیق کی یہ صورت بہت اچھی ہے۔ کتبہ عبد الرحمٰن مبارک پوری۔ (فتاویٰ نزیریہ ج1 ص 405)
-----------------------------------------------
1۔ وھوا ھذا اگر عورت صابر ہے۔ اور اس سے کسی قسم کے فتنے کا خوف نہیں ہے۔ تو اس کےلئے گاہے گاہے زیارۃ قبور مطابق سنت کےجائز ورخصت ہے۔ اوراگر بے صبر ہے تو اس کےلئے جائز نہیں۔ (ملخص)(فتاویٰ نذیریہ ج1 ص 405)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب