السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے اہل حدیث اس امر میں کہ مردے کی طرف سے کھانا کھلانے کے ثبوت میں احناف جب اور ز جندی کی روایت پیش کرتے ہیں۔ کہ آنحضرتﷺ نے اپنے فرزند ابراہیم کی وفات پر لوگوں کو کھانا کھلایا تھا تو آپ لوگ اسے بے سند بے اصل موضوع کہہ دیتے ہیں۔ لیکن آپ نے خود جو مرُدے کے گھر کھانا کھایا جیسا کہ مشکواۃ باب المعجزات میں ہے۔
خر جناح مع رسول الله صلي الله عليه وسلم في جنازة فلما رجع استقبله داعي امراته فاجاب ونحن معه فجيئ بالطعام فوضع يده ثم وضع القوم فاكلوا
اس حدیث سے مرنے والے صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی کی دعوت کو قبول کرکے آپ کا وہاں کھانا کھانا صاف ثابت ہوتا ہے۔ اس کا کیا جواب ہے۔ ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث مذکور صاحب مشکواۃ نے بحوالہ ابی دائود بیہقی نقل کی ہے۔ اورابودائود کے کسی نسخہ میں داعی امراۃ کا لفظ نہیں ہے۔ بلکہ داعی امراۃ ہے۔ دیکھو ابو دائود کتاب البیوع باب اجتناب الشبہات جس سے صاف ظاہر ہے کہ مرنے والے صحابی کی بیوی نے کھانے پر نہیں بلایا تھا۔ بلکہ کسی اور عورت نے دعوت دی تھی۔ چنانچہ بیقی میں ہے۔
صنعت امراة من قريش لرسول الله طعامه فدعته واصحابه الخ
(ج6 ص 97)معلوم ہوا کہ دعوت دینے والی عورت قرشیہ تھی۔ اور جس کے جنازے میں آپ تشریف لے گئے تھے۔ وہ انصاری تھا جیس کہ مسند احمد میں ہے۔
خرجنا مع النبي صلي الله عليه وسلم في جنازة رجل من الانصار الخ
ص 408 ج 5نیز اس کتاب میں ہے۔
فلما رجعنا لقيناداعي امراة من قريش الخ
کہ دعوت دینے والی عورت قریش میں سے تھی۔ ان دونوں روایتوں کے ملانے سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ مرنے والے کی بی بی نے دعوت نہیں دی تھی۔ پس صاحب مشکوا ۃ نے لفظ امراتہ غلط نقل کیا ہے۔ جو انہیں کے بتلائےہوئے حوالوں کے خلاف ہے۔ دارقطنی نے بھی روایت مذکورہ کی سندوں سے نقل کی ہے۔ ان کو بھی دیکھئے۔
1۔ خرجنا مع النبي صلي الله عليه وسلم في جنازة فلما انصرف تلقاء داعي امراة من قريش الخ
2 ...صنعت امراة من المسلمين من قريش لرسول الله صلي الله عليه وسلم طعاما فدعته واصحابه الخ ج 2ص 545
حاصل یہ کہ ایک عورت نے جو مسلمان قریشیہ تھی۔ آپ کےلئے کھانا پکایا جبکہ آپ ایک شخص کے جنازے سے واپس آرہے تھے۔ تو اس کا داعی ملا۔ جو آپﷺ کو معہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کے اس کے گھر لے گئے۔ مرنے والے کی بی بی کے یہاں دعوت نیں تھی(اور یہ عقل میں بھی نہیں آتا کہ جس کے گھر میں میت ہوئی وہ اتنے جلدی دفن کرنے والے صرف واپس ہی ہوئے ہوں کسی دعوت کا انتظام کرسکے۔ بلکہ بحکم شرح ان کے گھر تو کسی دوسرے پڑوسی کے ہاں سے کھانا آیا ہوگا۔ (راز) سائل چونکہ حنفی ہے۔ اس لئے اس کے اطمینان خصوصی کےلئے احناف کی کتب حدیث کے بھی چند حوالے لکھتے دیتا ہوں۔ طحاوی حنفی نے شرح معانی الآثار باب اکل لحوم الحمر میں روایت مذکورہ یوں نقل کی ہے۔
رجل من االانصار كان مع النبي صلي الله عليه وسلم في جنازة فلقيه رسول امراة من قريش يدعوه الي الطعام الخ ج2 ص 320)
’’ایک مرد انصاری آپﷺ کے ہمراہ ایک جنازے میں تھا کہ قریشیہ عورت کا قاصد ملا جو کھانے کےلئے دعوت دے رہا تھا۔‘‘ اسی طرح طحاوی موصوف نے اپنی کتاب مشکل الاثار ص 132 ج2 میں بھی نقل کیاہے۔ اما م محمد رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الاثار میں ہے۔
صنع رجل من اصحاب محمد صلي الله عليه وسلم طعاما الحديث
ص 125 طبع لاہور یہی عبارت جامع المسانید ص 65 ج2 میں بھی ہے۔ جو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب ہے۔ نیز مسند امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ مع شرح علی القاری طبع مجتبائی دہلی ص 243 میں ہے۔
ان رجل من اصحاب محمد صلي الله عليه وسلم صنع طعاما الحديث
ان دونوں روایتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ کھانا تیار کرنے والا مرد تھا۔ بہرحال داعی مرد ہویا عورت وہ مرنے والے شخص سے کوئی تعلق نسب یا جوار کا نہیں رکھتا۔ پس صاحب مشکواۃ کا داعی امراتہ نقل کرنا صریح غلط (بنا برسہود نسیان راز)ہے۔ اور اس سے طعام میت کےلئے دلیل پکڑنی بنائے فاسد علی الفاسد ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب