سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(60) نماز جنازہ میں بلند آواز سے قراءت اور دعا ؟؟

  • 6613
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1681

سوال

(60) نماز جنازہ میں بلند آواز سے قراءت اور دعا ؟؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز جنازہ  میں بلند آواز سے قراءت او ر دعا پڑھنی درست ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جنازے کی نماز میں سورہ فاتحہ اور اس کے بعد کی سورہ بلند آواز پڑھنا جائز بلکہ سنت ہے۔ منتقی الاخبار میں ہے۔

عن ابن عباس انه صلي علي جنازة فقراء بفاتحة الكتاب وقال  لتعلموا انه من السنة (رواہ ابو دائود وبخاری وترمذی۔ وصححة والنسائی )

وقال فيه فقراء بفاتحة الكتاب وسورة وجهر فلما فرع قال سنة وحق

یعنی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ایک جنازہ پر نماز پڑھائی اور سورہ فاتحہ با آواز بلند پڑھی۔ اور فرمایا کہ میں نے سورہ فاتحہ کو با آواز بلند اس لئے پڑھا ہے۔  کہ تم جان لو کہ یہ سنت ہے۔ اور روایت کیا اس کو ابودائود بخاری اور ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ اور اس کو نسائی نے بھی روایت کیا ہے اور نسائی کی روایت میں ہے کہ عبد اللہ بن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فاتحہ الکتاب اور ایک اور سورۃ پڑھی۔  اور باآواز بلند پڑھی۔  اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ یہ سنت اور حق ہے۔ واضح رہے کہ اس روایت میں سنت سے مراد سنت نبوی ﷺ ہے۔ یعنی نماز جنازہ میں فاتحہ اور کوئی دوسری صورت با آواز بلند پڑھنا۔ رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔  فتح الباری میں ہے۔

وقد اجمعوا علي ان قول الصحابي سنة حديث مرفوع الخ

یہ اجماعی مسئلہ ہے کہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا قول سنت ہے۔ اس لفظ سنت سے مراد حدیث مرفوع (قول رسول اللہ ﷺ) ہے۔ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ  نیل الاوطار صفحہ 53 جلد 3 میں فرماتے ہیں۔  (قولہ وجھر) فیہ دلیل علی الجھر فی قراءۃ صلواۃ الجنازہ یعنی لفظ جہر میں دلیل ہے۔  بلند قراءت پڑھنے کی نماز جنازہ پر۔

سراج الوہاج صفحہ 300 جلد نمبر 1  میں ہے۔

بل الحديث فيه دلالة واضحه علي الجهر بالدعاء في صلوة الجنازة ولا ما نع منه شرعا وعقلا ولا داعي اليه فيكون الجخر والا سرار فيها سواء كباقي الصلوات الخ

بلکہ اس حدیث میں واضح دلیل ہے۔ اوپر اونچی دعا پڑھنے کے نماز جنازہ میں اور اس سے کوئی منع کرنے والا نہیں شرعا اور نہ عقلا اور نہ کوئی اس کا دعوے کرنے والا ہے۔

پس جنازہ قراءۃ میں بلند آواز پڑھنی یا آہستہ پڑھنی جنازہ میں دیگر نمازوں کیطرح برابرہے۔ جنازہ میں دعا بلند آواز سے پڑھنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔ مسلم مسلم شریف اور نسائی شریف میں ہے۔

عن عوف بن مالك قال سمعت النبي صلي الله عليه وسلم علي جنازة يقول اللهم اغفرله وارحمه الحديث

یہ عا لمبی زکر کرکے حضرت عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں۔

فتمنيت ان لو كنت انا الميت لدعاء رسول الله صلي الله عليه وسلم لقاك الميت

پس آرزو کی میں نے کاش کہ یہ میت  میں ہوتی۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی دعا کی وجہ سے شوق پیدا ہوا۔ ایک روایت مسلم میں یہ لفظ بھی ہیں۔ فحفظت من دعائه پس میں نے رسول اللہ ﷺ کی یہ دعا اس وقت یاد کرلی یعنی رسول اللہ ﷺ نے جب جنازہ پڑھا۔  بلند آواز سے دعا پڑھی تو میں نے یاد کرلی۔ اب تمام احادیث مذکورہ سے ثابت ہوا کہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ اور دیگر سورہ او ر دعا رسول ا للہ ﷺ نے بھی بلند آواز سے پڑھی۔ اورحضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے بھی بلند آواز سے پڑھی۔ جب ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے پوچھا گیا کہ آپ نے بلند آواز سے جنازہ کیوں پڑھا۔ تو جواب دیا کہ تم جان لو کہ یہ فعل سنت ہے جس طرح جنازہ میں سورہ فاتحہ ودیگر سورہ اوردعا بلند آواز سے سنت ہے اسی طرح قرآن شریف بھی بلند آواز سے پڑھنا سنت ہے۔

تنقیح الرواۃ شرح مشکواۃ میں ہے۔  رجال اسناد مالک رجال الصحیح الخ اس حدیث کے تمام راوی صحیح بخاری کے ہیں۔ اب رسول اللہ ﷺ اور حضرت  عبد للہ بن مسور بن مخرمہ اور ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایات سے قراءۃ بالجہر ثابت ہوتی ہے۔ اور یہ تمام حدیثیں صحیح ہیں۔ عون المعبود شرح ابی داؤد صفحہ 189 جلد 3 میں تمام روایات زکرکرکے لکھتے ہیں۔  

قلت والظاهر ان الحجهر والا سرار بالدعا ء في صلوة الجنارة جائز ان وكل من الامرين مروي عن رسول الله صلي الله عليه وسلم وهذا هوالحق والله اعلم

 میں کہتا ہوں جملہ دلائل سے یہ ظاہر ہوتا ہے۔ کہ جنازہ میں قراءۃ بلند آواز یا آہستہ آواز سے پڑھنا دونوں جائز ہیں۔ اور ہرفعل رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے۔  یہی بات حق اور درست ہے۔  ان تصریحات محققین سے جہری جنازہ کا جواز ثابت ہوگیا ۔ لیکن مجھے تعجب ہوا کہ اہل حدیث ہی کے بعض حلقے اس پر ناگواری ظاہر کرتے ہیں۔ حالانکہ ایک جائز بلکہ بعض کے نزدیک افضل امر پر  کم از کم ناگواری ایک غلط رحجان ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص 58

محدث فتویٰ

تبصرے