سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(160) مرے ہوئے ماکول اللحم جانورکی چربی

  • 660
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 926

سوال

(160) مرے ہوئے ماکول اللحم جانورکی چربی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مرئےہوئے ماکول اللحم جانورکی چربی استعمال کرنی جائزہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

حدیث میں ہے:

         « عن ابن عباس قال تصدق علی مولاة میمونة بشاة فماتت  فمربهارسول الله صلی الله علیه وسلم  فقال هلااخذتم اهابهافدبغتموه فانتفعم به فقالواانهامیتة فقال اناحرم اکلها ۔»متفق علیه

 ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔میمونہ رضی اللہ عنہا کی لونڈی کوکسی نے ایک بکری صدقے میں دی ۔وہ مرگئی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کومردہ پڑا ہوا دیکھاتوفرمایا۔تم نے اس کی کھال کیوں نہ لی؟دباعت کرکے کام میں لاتے ۔لوگوں نے کہا:یارسول اللہ وہ مردارتھی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایا:مردارکاکھاناحرام ہے۔‘‘

اس حدیث میں صاف تصریح ہے کہ مردارکاکھاناحرام ہے اس سے انتفاع حرام نہیں ۔انماکلمہ حصرہے جس کے یہاں یہ معنی ہیں کہ مردارکاصرف کھاناہی حرام ہے اس سے دوسرا ہرقسم کاانتفاع درست ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

«اعطیت جوامع الکلم »

’’یعنی خدانےمجھے جامع کلمات دیئے ہیں ۔‘‘

اس بناء پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لفظ میں کھانے کی حرمت بھی بیان کردی ۔اوردیگرصورتوں میں استعمال کی اجازت بھی دیدی ۔الگ لفظ بولنے کی ضرورت نہ رہی ۔

رہی یہ بات کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چمڑے کی بابت فرمایاہے کہ تم نے اس کاچمڑاکیوں نہ اتارلیا۔اورچربی وغیرہ کی بابت کچھ نہیں فرمایا۔

اس کاجواب یہ ہے کہ اصول کامسئلہ ہے کہ :

«الاعیان لایحتج بهاعلی العموم» (نیل الاوطارجلد3باب انعقادالجمعه باربعین ص 107)

یعنی خاص واقعہ سے عام استدلال صحیح نہیں ۔کیونکہ خاص واقعہ میں کئی طر ح کے احتمال ہوتے ہیں اورجہاں احتمال ہووہاں استدلال صحیح نہیں ہوتا۔اسی لیے مشہورہے ۔

«اذاجاء الاحتمال بطل الاستدلال »

اوریہاں اسی طرح  ہے کیونکہ چربی تو موٹے تازے حیوان پرہوتی ہے ۔خداجانے  وہ بکری بیچاری کس حالت میں مری ہوگی۔ اس لیے احتمال ہے کہ چربی کے نہ ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چربی کا ذکرنہ کیاہویا چربی ہو لیکن چمڑہ چونکہ بڑے فائدے کی شئے ہے اس لیے اسی پراکتفا کی ۔ خاص کرمعمولی چربی کے لیے مردارکی اتنی چیرپھاڑکون کرتاہے ۔چوہڑے چماربھی نہیں کرتے مسلمان کیاکرے گا؟ہاں چمڑا بڑے فائدہ کی شئے ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی طرف توجہ دلائی اوربکری کے مردارہونے کے شبہ پرایسا الفاظ بول دیاجس سے اس بات کی اجازت نکل آئی کہ اگرماکول اللحم مردارکی کسی دوسرے شئے کی بھی کسی وقت ضرورت ہوتوکھانے کے علاوہ کسی اورصورت سےفائدہ اٹھالیاجائے ۔

اوربہت سے علماء اس طرف گئے ہیں کہ مردارکے بال ،ہڈی ،ناخن ،کھریہ سب کچھ پاک ہے ۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کایہی مذہب ہے اور ایک قول امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمدرحمہ اللہ کابھی یہی ہے اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے فتاوی ٰ جلداول ص 39میں فرمایاہے:

وهوالصواب ۔(یعنی یہی قول حق ہے )

پھرجہاں اوردلائل دئیے  ہیں ۔ایک دلیل انماحرم اکلهابھی دی ہے۔بلکہ امام احمدرحمہ اللہ نے نقل کیاہے کہ اس حدیث میں دباغت کا ذکرسفیان بن عینیہ رحمہ اللہ (جوزہری رحمہ اللہ تابعی کے شاگردہیں)کی غلطی ہے کیونکہ زہری رحمہ اللہ وغیرہ اس حدیث کی وجہ سے چمڑے سے انتفاع ،قبل از دباغت بھی جائزقراردیتے تھے۔گویا نجاست کی حالت میں چمڑے کوخواہ پہنو،خواہ نیچے بچھاؤیا کسی اورطرح سے فائدہ اٹھاؤ، یہ سب کچھ ان کے نزدیک درست ہے اوردلیل یہی انماحرم اکلهاہے۔

رہی بات یہ کہ چمڑے کے علاوہ مردارکی دیگراشیاء چربی کی بیع جائز ہے یانہیں ؟سوحدیث میں ہے :

« عن جابربن عبدالله رضی الله عنهماانه سمع رسول الله صلی الله علیه وسلم یقول عام الفتح وهم بمکة ان الله ورسوله حرم بیع الخمروالمیتة والخنزیروالاصنام فقیل یارسول الله ارأیت شحرم المیتة انه تطلیٰ بهاالسفن وتدهن بهاالجلودویستصبح بهاالناس فقال لاهوحرام ثم قال رسول الله صلی الله علیه وسلم عندذالک قاتل الله الیهودان الله لماحرم علیهم شحومهااجملوه ثم باعوه فاکلوه ثمنه ۔»متفق علیه (بلوغ المرام ،کتاب البیوع )

’’حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفتح مکہ کے سال فرماتے سنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تھے کہ اللہ اوراس کے رسول نے شراب اورمرداراورخنزیراوربتوں کے فروخت کرنے کوحرام کیاہے ۔عرض کیاگیااے رسول خدا مردارکی چربی کےمتعلق کیونکہ اس سے کشتیاں اورچمڑے چکنے کئے جاتے ہیں۔ اور لوگ اس کوچراغ میں جلاتے ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہیں بلکہ وہ حرام ہے ۔پھراسی وقت رسول خدانے فرمایاکہ اللہ تعالی یہودکوقتل کرے اور اللہ تعالی نے باوجودیکہ اس کوحرام کیالیکن انہوں نے اس کوبگھلاکرفروخت  کرنا اور قیمت  کھانی اختیارکی ۔‘‘

اس حدیث سے ثابت ہواکہ مردارکی چربی اوردیگراشیاء کی بیع حرام ہے نہ کہ انتفاع ۔یعنی چمڑے کے سوا مردارکی کوئی شئے بیچ کرپیسے برتنے درست نہیں۔  ویسے فائدہ اٹھانادرست ہے ۔حرمت بیع سے حرمت انتفاع ثابت نہیں ہوتی مثلاً قربانی  عقیقہ وغیرہ کا گوشت کھا سکتے ہیں اوراس کی دیگراشیاء برت سکتے ہیں لیکن فروخت وخریدمنع ہے مگران سے فائدہ اٹھانادرست ہے۔

پس ماکول اللحم جانورمرجائے تواس کی چربی کی بیع منع ہے صابن وغیرہ میں استعمال درست ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اہلحدیث

کتاب الطہارت، پانی کا بیان، ج1ص247 

محدث فتویٰ

 

تبصرے