سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(07) عذر کی بنیاد پر اسقاط حمل کا حکم

  • 6560
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2457

سوال

(07) عذر کی بنیاد پر اسقاط حمل کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا سوال یہ کہ میری گود میں چار مہینے کی بچی ہے اور اب حمل ٹھرجانے کی وجہ سے میرےدودھ میں کمی آگئ ہے بچی کا پیٹ نہیں بھرتا بہت زیادہ پریشانی ہے تو کیا میں اپنے خاوند کے مشورے سے اسقاط حمل کرواسکتی ہوں کہ بچی کو اس پریشانی سےنجات دلائوں ۔براہ کرم قرآن وسنت کی روشنی میں جواب مطلوب ہے ۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رحم مادر میں جنین میں روح پھونکی جانے کے بعد اس کو ساقط کرنا ممنوع و ناجائز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ‘ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ ﴿٣١ سورۂ بنی اسرائیل‘ 31

اور تم تنگدستی کے اندیشہ سے اپنی اولاد کو قتل مت کرو ۔

روح پیدا ہونے سے پہلے حمل ساقط کرنا بھی انجام کے لحاظ سے قتل کی مانند ہے‘ لہٰذا بلاوجہ یہ بھی ممنوع و ناجائز ہی ہے۔

روح کب پیدا ہوتی ہے اس کے متعلق صحیح بخاری شریف میں حدیث پاک وارد ہے :

«حدثنا عبد اللہ حدثنا رسول اللہ صلی اللہ علیه و سلم وهو الصادق المصدوق إن أحدکم یجمع فی بطن أمه أربعین یوما ثم یکون علقة مثل ذلک ثم یکون مضغة مثل ذلک ثم یبعث اللہ إلیه ملکا بأربع کلمات فیکتب عمله وأجله ورزقه وشقی أم سعید ثم ینفخ فیه الروح» (صحیح بخاری شریف‘ کتاب الانبیاء‘ حدیث نمبر: 3036)

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ انہوں نے فرمایا سچے مصدوق رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :یقینا تم میں سے کوئی اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن نطفہ کی شکل میں رہتا ہے‘ پھر چالیس دن منجمد خون کی شکل میں رہتا ہے‘ پھر چالیس دن لوتھڑے کی شکل میں رہتا ہے‘ پھر اللہ تعالیٰ اس کے پاس چار کلمات کے ساتھ ایک فرشتہ بھیجتا ہے‘ وہ فرشتہ اس کا عمل‘ اس کی عمر‘ اس کا رزق لکھتا ہے اور یہ لکھتا ہے کہ وہ نیک بخت ہے یا بدبخت‘ پھر اس میں روح پھونکتا ہے۔

اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک سو بیس (120) دن میں روح ڈالی جاتی ہے، روح پھونکے جانے سے پہلے جبکہ حمل منجمد خون کی شکل میں ہو یا لوتھڑے کی حالت میں ہو تو حمل ساقط کرنے کی گنجائش چند اعذار کی بناء پر ہوسکتی ہے‘ مثلاً ماں انتہائی جسمانی کمزوری سے دوچار ہے ، حمل کا بوجھ برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتی یا حاملہ یا بچہ کی جان جانے کا خطرہ ہویادودھ کی کمی کی وجہ سے موجودہ بچہ کی جان کو خطرہ ہو اور شوہر معاشی اعتبار سے دودھ کے لئے کوئی اور انتظام نہ کرسکتا ہو۔ ان صورتوں میں ایک سو بیس دن کی مدت سے پہلے اسقاط حمل کی گنجائش اس وقت نکل سکتی ہے جب کہ کوئی ماہر ڈاکٹر یہ تجویز پیش کرے ۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص 19

محدث فتویٰ

تبصرے