سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(05) فلموں میں کئے جانے والے نقلی نکاح کا حکم

  • 6558
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2082

سوال

(05) فلموں میں کئے جانے والے نقلی نکاح کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سیدنا ابو ھریرہ رضي اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تین چيزیں ایسی ہیں جن کی حقیقت بھی حقیقت ہی ہے اور مذاق بھی حقیقت ہی ہے ، نکاح ، طلاق ، اوررجوع کرنا ۔

سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2194 ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 11849 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2039 )

ہمارے ہاں ڈراموں اور فلموں میں اکثریت شادی اور نکاح کا اسکرپٹ موجود ہوتا ہے۔ بعض اوقات ان میں شادی کا حقیقی رنگ غالب نظر آتا ہے ، اور نکاح کی شرائط بھی اس کہانی اور اسکرپٹ کا حصہ ہوتی ہیں۔یعنی اس میں مہر مقرر کیا جاتا ہے، گواہان بھی مقرر ہوتے ہیں لڑکا اور لڑکی سےرضا مندی بھی حاصل کی جاتی ہے اور نکاح خواں محفل میں ایجاب وقبول بھی کرواتا ہے۔ یہ ساری چیزیں اس ڈرامے یا فلم کی کہانی کا اسکرپٹ ہوتی ہیں، ظاہر ہے یہ سب ایک مذاق اور غیر سنجیدہ صورتیں ہوتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ صورت مسئولہ میں کیوں کہ نکاح کی شرائط موجود ہے، کیا ایسا نکاح منعقد ہوجاتا ہے، اور وہ لڑکا لڑکی حقیقی طور پر رشتہ ازداوج میں منسلک ہوجاتے ہیں۔؟قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمادیں۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس سلسلے میں اہل علم کے ہاں دو طرح کی رائے پائی جاتی ہے،بعض اس کے منعقد ہونے کے قائل ہیں تو بعض عدم انعقاد کے قائل ہیں۔

لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ڈراموں میں کیا جانے والا نکاح منعقد نہیں ہوتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نکاح نہیں، بلکہ نکاح کی نقل ہوتی ہے ،اور اس میں نکاح کرنے والوں سمیت کسی کی بھی نکاح کی نیت نہیں ہوتی،سب اس کو تمثیل ہی سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ حالانکہ نکاح سمیت ہر عمل میں نیت کا ہونا ضروری ہے۔آپ کی بیان کردہ مذکورہ حدیث کے مطابق ڈرامہ میں نکاح دکھانے والے نہ تو وہ سنجیدگی سے نکاح کر رہے ہوتے ہیں، اور نہ مذاق سے نکاح کر رہے ہوتے ہیں،اور نہ ہی وہاں نکاح کی شرائط وارکان موجود ہوتے ہیں۔بلکہ وہ تو نکاح کی صرف نقل کر رہے ہوتے ہیں،بالکل ایسے ہی جیسے مدارس میں بچوں کو نکاح کا طریقہ سکھانے کے لئے نکاح کی پوری پوری نقل کی جاتی ہے۔

لیکن یاد رہے کہ یہ ایک گناہ والا کام ہے ،جس میں شعائر اسلام کا مذاق اڑایا جاتا ہے،اور جھوٹ کا ارتکاب کیا جاتا ہے ۔لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہئے اور اللہ سے معافی مانگنی چاہئے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص 19

محدث فتویٰ

تبصرے