سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(77) کیا سب سے پہلے نبی ﷺ کا نور پیدا کیا گیا؟

  • 6535
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1105

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک حنفی مولوی صاحب نے دوران وعظ میں بیان کیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کا جسم یعنی پتلا ابھی پانی میں تھا کہ آنحضرتﷺ کانور پہلے پیدا ہوچکا تھا اور اسی وقت آپؐ پیغمبربھی تھے مولوی صاحب مذکورنے کسی حدیث کاحوالہ نہیں دیا پس کیا ان کا یہ ارشاد اور بیان صیح ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مولوی صاحب کا یہ بیا ن درحقیقت ان دو حدیثوں کا مجمعوعہ ہے جو عوام خصوصا بریلوی حنفیوں میں بہت مشہور ہیں : (1) اول ما خلق الله نورى (2) كنت نبياوادم بين الماء والطين ياكنت نبياوادم منجدل بين الماءواطين لیکن یہ دونوں حدیثیں بچند وجوہ مردو ہیں،

پہلی حدیث:۔ مدخل میں ابن الحاج مالکی نے اور بعض دوسرے لوگوں نے بلا سند ذکر کی ہے اور بے سند حدیث بالاتفاق مردود ہوتی ہے ونیز وہ مخالف ہے اس مشہور مرفوع صیح حدیث کے اول ماخلق الله القلم الحدیث (اخرجه احمد والترمذى وصححه عن عبادة  بن الصامت مرفوعا) ونیز وہ معارض ہے ان حدیثوں کے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ سب سے پہلے اللہ نے پانی پیداکیا پھر عرش پھر قلم پھر آسمان وزمین وغیرہ (دروى السدى فى تفسيره باسانيد متعددةان الله لم يخلق شيا مما خلق قبل الماء قاله الحافظ فى الفتح ص ۱۸۶/۱۳ثم ذكروجه الجمع بينه وبين حديث عبادة المتقدم فارجع اليه۔ ونیز وہ معارض ہے اس حقیقت ثابت کے کہ آنحضرتﷺآدم کی اولاد سے ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں، نہ نور سے الناس كلهم بنوادم وادم خلق من التراب  (ترمذی ابوداود ابن حبان) ونیز وہ مخالف ہے اس حدیث کے جس میں وارد ہے کہ آدمؑ کی تخلیق آسمان وزمین کے پیدا کرنے کے بعد ہوئی  (مسلم شریف عن ابی ہریرۃ)

دوسری حدیث :۔ کے متعلق ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :۔ وامامايدورعلى الالسنة  بلفظ كنت نبيا وادم بين الماء والطين فقال السفاوى اقف عليه بهذا اللفظ فضلا عن زيادة كنت نبيا ولاماءولاطين قال وقال الزركشى لااسل له بهذااللفظ انتهى مختصراوقال العلقمى قال ابن تيميتم الزركشى وغيرهما من الحفاظ لااصل له وكذاكنت نبيا ولاادم ولاطين (السراج المنير ص 94/39 وقال الصنعانى موضوع  (تذكرة الموضوعات ص 86 ) البته حديث كنت نبيا ولاادم بيزالروح والجد کئی صحابیوں سے معتبر سندوں سے مروی ہے (فاخرجه ابن سعد وابو  نعيم فى  الحلية واحمد والبخارى فى تاريخه وصححه الحاكم عن ميسرة الفخرمن اعراب البصرة وابن سعد عن ابن ابى الحدعاء والطبرانى فى الكبيرعن ابن عباس واخرجه الترمذى عن ابى هريرةبلفظ قالوايارسول الله متى وحببت لك النبوة قال وادم بين الروح والجد) قال المناوى بمعنى انه تعالى اخبره بمرتبة وهوروح قبل ايجاد الاجسام الا نسانية كما اخذالميثاق على بنى ادم قبل ايجاد اجسامهم وقيل فى معناه انه صلي الله عليه وسلم قداعطى فاضلة التعليم والتربية ومنع فضيلة الارشادوالاصلاح فى عالم الا رواح فكان فى تهذيب الارواح وتكميلها ۔ یعنی قبل اس کے کہ آدم ؑ کی روح کا ان کے جسد عنصری کے ساتھ تعلق قائم ہو عالم ارواح میں آنحضرتؐ کی صورت مثال کو نبی اور رسول بنائے جانے کی اطلاع دیدی گئی تھی یا عالم ارواح میں آنحضرتؐ کو ارشاد وتربیت کے منصب پر فائز کردیا گیا تھا اور آپؐ عالم ارواح میں بھی ارواح کی تہذیب وتکمیل میں مشغول تھے اللہ اعلم۔ وقد بسط محدث الهند الامام ولى الله الدهلوى فى معناه فى فيوض الحرمين وغيره فارجع اليه ان كنت من اصحاب القوة القدسية والنفوس الزكية حتى لاتى نفسك من ظواهره وحتى تقدر على الوصول الى حقيقة مبلحثية ۔  عبیداللہ رحمانی محدث دہلی جلد ۹ ش ۷

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 10 ص 119

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ