سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(72) شریعت محمدیہ میں پیرومرشدبنانا کیسا ہے؟

  • 6530
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2028

سوال

(72) شریعت محمدیہ میں پیرومرشدبنانا کیسا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

۱:۔ شریعت محمدیہ میں پیرومرشدبنانا کیسا ہے؟

۲:۔ اپنے آپ کو کسی پیر کا مرید کہلوانا کیا حکم رکھتا ہے؟

۳:۔ پیر بیعت کرنی جائز ہے؟

۴:۔ بعض مسجدوں میں کچھ لوگ جمع ہوکر مغرب کے بعد ۱۰۰ مرتبہ لاالہ آلااللہ اور ۱۰۰ صرف الااللہ اور ۱۰۰ دفعہ اللہ اور ۱۰۰ دفعہ ھوکا وردپڑھتے ہیں، پھر دیر مراقبہ میں خاموش ہو کر پیر کا تصور کرتے ہیں، کیا شریعت میں ایسی صورت جائز ہے؟

۵:۔ ایسی مسجد جس جگہ نقشہ مبدرجہ ذیل ہے نماز جائز ہے یا نہیں؟

۶:۔ بعض لوگوں میں دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ اکٹھے ہوکرکسی پیر کے جاکر دروازے پر کھڑے ہوجاتے ہیں، جب وہ نکلتا ہے تو تکبیریں کہنے لگ جاتے ہیں :اور اس کے آباواجداد کی تعریف میں مدحیہ قصیدے پڑھتے ہیں، اور بنیﷺکی تعریف میں شعر پڑھتے ہیں اس کے پیچھے پیچھے مسجد تک چلے جاتے ہیں، کیا یہ صورت شریعت محمدؐیہ میں جائز ہے یا نہیں؟

۷:۔ مذکورہ بالا مسجد کے دائیں طرف حجرہ میں قبروں کے گرد اگرد دیوار بنی ہوئی ہے کہیں سے ۱۰ فٹ اونچی ہے، کہیں سے ۱۵ فٹ اور انکل کیا یہ دیوار قبروں کی حفاظت کے لئے جائز ہے یا نہیں؟

۸:۔ ایک پیر نے کہا کہ میرے آباواجداد نبیﷺکودیکھتے چلے آئے ہیں، یہ کیا ہےمذکورہ بالا مسجد کے حجرہ میں جمعہ کی نماز پڑھنے کے بعد امام ومقتدی  داخل ہوجاتے ہیں، اور قبروں پر ہاتھ اٹھا کردعا کرتے ہیں، کیا یہ جائز ہے؟

۹:۔ پیر صاحب مریدوں سے فرماتے ہیں کہ تمہارے مالوں میں سے میرا بھی حق ہے وہ خدا سے ڈرکر اسے دیتے ہیں، اگر چہ وہ غنی ومالدار ہی کیوں نہ ہو، کیا یہ درست ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

الحمدلله الذى فسوى، والذى قدرفهدى وسلام على عباده الذين اصطفى:۔

۱:۔ پیرو مرشد کی دو غرضیں ہوتی ہیں، ایک یہ کہ سیدھا راستہ دکھاتے گمراہی سے بچائے، دوسری یہ کہ شفاعت کرے، قیامت کے دن بخشوائے سوان دونوں غرضوں کے لئے آج کل کے مروجہ پیرو مرشد کی کو ئی ضرورت نہیں، کیونکہ پہلی غرض کی بابت رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے تركت فيكم امر ين لن تضلواتمسكتم بهما كتاب الله وسنة رسوله (مشکوۃ) یعنی میں نے تم میں دو امر چھوڑے ہیں، جب تک ان دونوں کو تھامے رہوگے، گمراہ نہیں ہوگئے، جو شخص پڑھا ہو اہو وہ دیکھ کر عمل کرے، جو ناواقف ہووہ جس عالم سے موقعہ ملے پوچھ لے ۔ جو سلف کے زمانہ میں دستور تھا، قرآن مجید کا ارشاد ہے، فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ‌ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (قرآن) اگر تمہیں علم نہ ہو تو علم والوں سے پوچھ لو، دوسری غرض کی بابت رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں، اتانى ات من ربى فخيرنى بين ان يدخل امتى الجنة ربين الشفاعة فاخترتالشفاعة وهى عن مات لايشرك بالله شيا ۔   (ترمذی ابن ماجہ، مشکوۃ) میرے پاس خدا کی طرف سے ایک آینوالا آیا ہے۔ مجھے اختیار دیا کہ تیری نصف امت جنت میں داخل کی جائے گی یا شفاعت کرے میں نے شفاعت اختیار کرلی، شفاعت اس شخص کو پہنچے گی، جو اس حال میں مرگیا، کہ اللہ کیساتھ شرک نہ کرتا ہو، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول الله صلي الله عليه وسلم توحید والوں کی شفاعت کریں گے پھر اس غرض سے پیر ومرشد کی کیا ضرورت ہے، ایک اور حدیث ہے يشفع يوم القيمة ثلاثة الانبياءثم العلماءالشهدا۔  (رواہ ابن ماجہ) قیامت کے دن تین قسم کے لوگ شفاعت کرائیں گے، پہلے آنبیاءثم علماءپھر شہداءان کے علاوہ بعض اور کا بھی ذکر ہے، لیکن مروجہ پیرومرشد کا کہیں ذکر نہیں، پھر سفارش کا ذمہ دار ہی وہ شخص ہوسکتا ہے جسے اپنے خاتمہ کا علم ہواور یہ نبی کو ہوسکتا ہے، یا جس کی بابت نبی کی شہادت ہو دوسرے  کوکیا پتہ ہے کہ میرا خاتمہ کیا ہوگابڑے بڑے بزرگ اسی فقر میں رہے، کہ خدا جانے خاتمہ کس حال پر ہوگا، بلکہ جن کو جنت کی خوش خبریاں ملیں، ان کی کمریں بھی اس خوف سے ٹیٹرھی ہوگئیں، حضرت عمر فاروق ؓاپنی دعا میں رورو کے کہا کرتے تھے، اللهم ان كنت كتبت على شقوة اوذنبافامحه فانك تمحواماتشاءوتثبت وعندك علم الكتاب فاجعله سعادة ومحضرة (ابن کثیر جلد۶ ص ۲۷۰ ) اے اللہ اگر تونے مجھ پر بدبختی یا گنا ہ لکھا ہے تو اس کو مٹادے، کیونکہ تو مٹاتا ہے، جو چاہتا ہے اور ثابت رکھتا ہے جو چاہتا ہے، اور تیرے پاس ہے، ماں کتابوں کی، پس اس بدبختی کو دور کرکے نیک بختی کردے، اور گناہ بخش دے، عبداللہ بن مسعود بھی یہی دعا مانگا کرتےتھے، بلکہ خاتمہ تو آئندہ کی چیز ہے صحابہ ؓ تو اپنی موجودہ حالت پر بھی اطمینان نہیں رکھتے تھے، بخاری کتاب الایمان میں ہے، عبداللہ بن ابی ملیکہؓ فرماتے ہیں، میں تیس صحابی کو ملا ہوں، سب اپنی جان پر نفاق سے ڈرتے تھے جب ان بڑے بڑوں کی حالت یہ تھی، تواورکون ایسا مرشد وپیر ہے جو شفاعت کی ذمہ داری لے  سکے، یہ بالکل وہی خیال ہے، بلکہ ایک طرح کی دکان داری ہے، خدااس سے بچائے، اور طریق سلف پر چلنے کی توفیق دے،  (آمین)

 (۲) جب اس طرح کا پیر پکڑنا شریعت سے ثابت نہ ہو تو نسبت لگانی کیسے درست ہوگی مذہبی نسبت تو ایک ہی پیرومرشد کی طرف کرنی چاہیے، جو سب کا پیر ومرشد ہے یعنی امام اعظم نبی اکرم ﷺیا حدیث کی طرف یا سلف کی طرف نسبت کرے جن کی اتباع ہم پر واجب ہے مثلا اہل سنت، یا اہل حدیث یا  سلفی کہلائے تو کوئی حرج نہیں، کیونکہ رسول الله صلي الله عليه وسلم نےناجی فرقہ کی علامت یہی بتائی ہے مااناعليه واصحابى۔ مااناعليه حدیث ہوئی اور اصحاب سے مراد طریق سلف ہوا، سوانہی دوسے اپنا تعلق پیداکرنا مناسب ہے،

۳:۔ پیری مریدی بیعت کا کوئی تسلی بخش مسئلہ نہیں، کیونکہ قرون اولی میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا،

۴:۔ اس قسم کے اٍذکار قرآن حدیث سے ثابت نہیں، نہ خیرالقرون میں کسی نے کئے نہ دین نے بتائے،  رسول خدا صلي الله عليه وسلم فرماتے ہیں، من احدث فى امرنا هذا فهورد یعنی جو ہمارے دین میں نیا کام جاری کرے گا وہ مردود ہے اب جو صورت سوال میں مذکور ہے اس میں بھی کئی باتیں زیادہ کی گئی ہیں، ایک وقت مغرب ہمیشہ کے لئے اپنی طرف سے مقررکرنا پھر سو کی تعداد پھر حکم کی  پہلے لاالہ آلااللہ پھر اللہ ھوپھر چپ رہنا، اور مراقبہ میں شیخ کا تصورکرنا یہ کتنی باتیں اپنی طر ف سے ملائی ہیں، جن کا شریعت میں نام ونشان بھی نہیں تو کیا ان لوگوں کے سو؟ خاتمہ کاڈر نہیں، خاص کر تصور شیخ تو ایک قسم کا شرک ہے، کیونکہ کے مشکوۃ کے شروع میں حدیث ہے، اعبدوالله كانك تراه فان لم تكن تراه فانه يراك، الحدیث اللہ کی عبادت اس طرح کرو، کہ گویا تو اس کو دیکھ رہا ہے، اگر تجھے یہ مرتبہ حاصل نہ ہو تو (کم ازکم تیرے دل میں یہ تو ضرور ہونا چاہیے کہ) وہ تجھے دیکھتا ہے، جو تصور شیخ کرتے ہیں، وہ عبادت میں غیراللہ کی صورت بٹھاتے ہیں، اور اس کی مشق اور ریاضت کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ خدا کی جگہ کسی کو دینی ہی شرک ہے، اگر صفائی مقصود ہے تو  بدعت طریق سے درحقیقت صفائی نہیں، بلکہ ظلمت ہے خدا اس سے بچائے آمین:،

۵:۔ عن ابى مرثد الغنوى قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لاتصلوا، الى القبورولاتجلسواعليهارواه الجماعة الا البخارى  (ابن ماجہ، منتقی)

رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمایا قبروں کی طرف نماز نہ پڑھو نہ ان پر بیٹھو۔

عن ابى سعيد ان النبى صلي الله عليه وسلم قال الارض كلها مسجد الا المقبرة والحمام رواه الخمسة الاالنسائى ۔   (منتقی، رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمایا، تمام زمین مسجد مگر قبرستان اور حمام)

عن ابن عمر قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم اجعلوامن صلوتكم فى بيوتكم ولاتتخذواها قبورا  (رواہ الجماعۃ الاابن ماجہ ومنتقی،  رسول کریم صلي الله عليه وسلم نے فرمایا، کچھ نماز گھروں میں بھی پڑھ لیا کرو، اور ان کو قبریں نہ بناو)

عن عائشة ان رسول الله صلي الله عليه وسلم فال فى مرضه الذى لم يقم منه لعن الله ايهودوالنصرى اتخذواقبورانبياءهم مساجدا  (متفق علیہ، مشکوۃ)

رسول الله صلي الله عليه وسلم نے اپنی آخری بیماری میں فرمایا، اللہ یہودونصاری کو لعنت کرے انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجدیں بنایا۔

عن ابى هريرة قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لاتجعلوابيوتكم مقابرا ان الشيطان يتفرمن البيت الذى يقرأ فيه سورة البقرة رواه مسلم  (مشکوۃ کتاب فضائل القران)  اپنے گھروں کو قبریں نہ بناو بے شک شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے جس میں سورۃ بقرہ پڑھی جائے۔ پہلی حدیث میں قبروں کی طرف نمازیں پڑھنے سے منع فرمایا، سوال میں جس مسجد کا ذکر ہےاگر اس کے سامنے کے سارے دروازے کھلے ہوں تو نماز قطعا حرام ہے کیونکہ قبریں سامنے ہیں اگر دروازے بند ہوں، توبھی ٹھیک نہیں، دروازوں کا قبلہ رخ ہونا شبہ ڈالتا ہے، کہ یہ مسجد قبرستان کے متعلق ہے، کیونکہ دروازے قبروں کی خاطر رکھے ہیں، ایسی مسجدمیں نماز ٹھیک نہیں کیونکہ چھوتھی حدیث میں قبروں کو مسجد بنانے پر لعنت فرمائی ہے، دوسری حدیث میں قبرستان میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے، اور اس کے دائیں بائیں قبروں کا ہونا یہ بھی اس بات کی تائید ہے کہ یہ مسجد  قبرستان کا حصہ ہے، اگر  بافرض مسجد پہلے ہواور چیزیں بنی ہوں ۔ تو بھی کچھ خلل آگیا، کیوں تیسری اور پانچویں حدیث میں گھروں کو قبریں بنانے سے نہی فرمائی ہے، اور گھر میں قبر ہی کی صورت ہوتی ہے کہ گھر کی حدود  اور صحن وغیرہ میں بنادی جائے، دائیں طرف قبر اس قسم کی معلوم ہوتی ہے اور دوسری قبروں کا حال بھی مشتبہ ہے اس لئے ایسی مسجد میں نماز سے احتیاط کرنا چاہیے، اگر قبریں یہاں سے ہٹادی جائیں اورہڈیا ں دوسری جگہ دفن کی جائیں تو پھر نماز میں کوئی کھٹکا نہیں لیکن قبریں اس وقت ہٹائی جاسکتی ہیں، جب مسجد پہلے ہو، کیوں کے اس صورت میں یہ قبریں خلاف شرع ہوں گی، جن کا ہٹانا ضروری ہوگا، ورنہ مسجد کو یہاں سے ہٹا نا چاہیے، ہاں اگر مشرکوں کی قبریں ہوں توہر صورت میں ہٹائی جا سکتی ہیں، مسجد نبوی اسی طرح بنی تھی، ہاں اگر قبریں حدود سے بالکل الگ ہوں، اور مسجد قبرستان کے حصہ میں نہ ہو، توپھر ہٹانے کی ضروت نہیں، مگر قبروں اور مسجد کے درمیان دیوار بنادینی چاہیے، تاکہ کسی وقت اتفاقیہ مسجد کا دروازہ کھلا رہ جائے، تو نظر نہ پڑےاس مسئلہ کی کچھ تفصیل سوال نمبر ۶کے جواب میں دیکھئیے،

 (۶) :۔ منہ پر تعریف کرنا منع ہے، رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمایا، کہ منہ پر تعریف کرنیوالوں کے منہ میں مٹی ڈالو،  (مشکوۃ ص ۴۱۲ ) اگر بہروں کی مجالس میں ان کے سامنے مدحیہ قصائد مبالغہ آمیز پڑھے جاتے ہیں، وہ بجائے منع کرنے کے خوش ہوتے ہیں، بلکہ اکثر کو دیکھا گیا ہے، وہ انعام دیتے ہیں، سویہ سب حرام کے مرتکب ہوتے، ہاں نبی کی تعریف منہ پر درست ہےجس کی دو وجھیں ہیں، ایک یہ کہ نبی کو فخر نہیں آسکتا، اللہ ان کی حفاظت کا ذمہ دار ہوتا ہے دوسری یہ کہ نبی کی نبوت ایمان اورکفر کی کسوٹی ہے اس پر ایمان لا نا فرض ہے، پس جب اس کو اپنے منہ سے نبوت کے دعوی کا حکم ہوا، جو بڑا عالی مقام ہے، تودوسروں کی مداح معمولی بات ہے، کسی اور کا یہ مقام نہیں، اس لئے خلفاءاوربزرگان دین کے سامنے ایسا کام کبھی نہیں ہوا، پھر اس طرح گھر سے نکلنا اور اپنی تعظیم کرانا یہ بھی خلاف شرع ہے، اور تواضع کے منافی ہے رسول الله صلي الله عليه وسلم کی بابت حدیث میں آیا ہے، ولايطاءعقبة رجلان۔  (مشکوۃ ص ۳۵۸ ) آپ کی ایڑی کو دو آدمی نہیں لتاڑ تے تھے ۔ یعنی جیسے دنیا داروں کی عادت ہوتی ہے، کہ انکے پیچھے خادم ہوتے ہیں، رسول الله صلي الله عليه وسلم ایسے نہ تھے، بلکہ آپ کی آمد ورفت گھر میں سادہ تھی عن طارق قال خرج عمرؓ الى الشام ومعنا ابوعبيدة فاتواعلى مخاصة وعمرعلى ناقة له فنزل وخلع خفيه فوضعها على عاتقه فخاض فقال ابوعبيدة يااميرالمومنين انت تفعل هذا۔  مايسرنى ان اهل البلداستشرفوك فقال اده ولوقال ذاك غيرك اباعبيدة جعلناه نكالامة محمداناكنااذل قوم فاعزنا بالاسلام فما نطلب العزبغير مااعزناالله به اذلناالله،  رواه الحاكم وقال صيحح على شرطهما) ترغیب الترھیب منذری ص ۴۴۵ ) حضرت عمرؓ فاروق ملک شام کی طرف نکلے ابوعبیدہ بھی ساتھ تھے، رستہ میں چھوٹاچھوٹا پانی آیا، حضرت عمر ؓ اونٹنی پر تھےاونٹنی سے اتر کر جوتا اتارکر کندھے پر رکھ لیااور اونٹنی کی مہار ہاتھ میں پکڑ لی، ابو عبیدہ ؓ نے کہا ۔ اے امیرالمومنین ؓ آپ ایسے کرتے ہیں، مجھے یہ بات اچھی نہیں، کہ اھل شہر آپ کو اس حالت میں دیکھیں فرمایا، افسوس اے ابوعبیدہ ؓاگر کوئی اور ایسی بات کہتا تو اس کو  (تنبیہ کرکے ) امت محمدیہ صلي الله عليه وسلم کے لئے عبرت بنا دیتا، ہم بہت ذلیل قوم تھے، اللہ تعالی نے اسلام کے ذریعے ہمیں عزت دی پس جب اسلام کے علاوہ کسی اور چیز میں ہم عزت دھونڈیں گے تواللہ تعالی ہمیں ذلیل کردے گا، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آج کل جس طرح اپنی عزت کراتے ہیں، درحقیقت عزت نہیں بلکہ دو جہاں کی ذلت ہے، اور اسلام کے بالکل خلاف، اعاذناالله منه۔

۷:۔ جب گھروں میں قبریں بنانا درست نہ ہوئی، تو ان کی حفاظت کیسے ہوگی، بلکہ یہ منکر کا کام ہے ا س کو بدلنا چاہیے، حدیث میں ہے یعنی جو شخص کو ئی منکر کام دیکھے، اس کو حتی الوسع بدل دے، پس یہ قبریں اگر مسلمانوں کی ہیں، تو ان کی ہڈیا ں نکال کر کسی اور جگہ دفن کردینی چاہیے، اگر مشرکوں کی ہیں تو ویسے صاف کردینی چاہیے، ہاں اگر مسجد اور بنی ہو ، اور قبریں مسلمانوں کی ہو ں، تو مسجد کو یہاں سے ہٹا دینا چاہیے، اور قبروں کے اوپر کی بنا گرادینی چاہیے، تاکہ یہ قبریں عام قبرستان کی طرح قبرستان بن جائیں، بلکہ اگر پختہ ہیں، توسرے سے ہی مسمار کرنی چاہیے، جیسے حضرت علی ؓ کی حدیث الاسويته  (مشکوۃ) سے بظاہر معلوم ہوتاہے، ورنہ کم سے کم سنت کے مطابق کردی جائیں، کیونکہ حدیث میں ہے، نهى رسول الله صلي الله عليه وسلم ان بجصص القبوقبوروان يكتب عليها وان توطا  (رواہ الترمذی، مشکوۃ) رسول الله صلي الله عليه وسلم نے قبر کو پختہ کرنے سے نہی فرمایا، نیز اس پر لکھنے اور لتاڑنے سے نہی کی ہے

۸:۔ ان قبروں کی زیارت کے لئے جانا اس وقت مسنون ہے، جبکہ یہ شریعت کے مطابق ہوں، ورنہ منکر کام کے اسباب پیدا کرنا اور ہمیشہ پر جمعہ کو اجتماعی  حالت میں ان کی زیارت کے لئے جانا، جس سے عوام کے دلوں میں ان کی قبروں کی اچھی حالت پر ہونیکا جزبہ پیدا ہویہ ٹھیک نہیں ہے،

۹:۔ اس قسم کا دیکھنا، بیداری میں کہیں رہا، خواب میں خدا کی طرف سے نہیں ہوتا، خیرالقرون میں اور بعد میں بہتیرے بزرگ گزرے ہیں، مگرکسی کو مقرر طور پر ہمیشہ اس طرح خواب نہیں آیا، یہاں تک کہ موروثی ہوگیا، بلکہ بغیر موروثی ہونے کے بھی اس طرح نہیں آیا، ہاح لوگوں کے حیلے اور عملیات ایسے ہوتے ہیں، تفسیر ابن کثیر جلد ۴ ص ۲۴۹ میں ایک لمبی حدیث ذکر کی گئی ہے، ہشام بن عاصؓ امری کہتے ہیں، کہ میں ایک شخص حضرت ابوبکرؓ کی خلافت میں ہرقل بادشاہ روم کی طرف قاصد ہوکرگئے، تواس دربار میں زبان سے حکم لاالہ الااللہ واللہ اکبر، نکلا، یہ حکم نکلتے ہی وہ محل اس طرح ہلنے لگا جیسے آندھی سے درخت ہلتا ہے، دودفعہ اس طرح ہوا، ہرقل نی کہا اپنے گھروں میں جب تم یہ کلمہ پڑھتے ہو، اس طرح ہوتا ہے؟ کہا نہیں کہنے لگا، اگر تمہارے میں ہمیشہ اس طر ح ہوتا، تو میں اپنا نصف ملک  (خوشی میں ) لٹادیتا ہم نے کہا کیوں کہا اگر ایسا ہوتا تو یہ نبوت کا اثر نہ ہوتا، بلکہ لوگوں کو حیلوں اور عملیات کی قسم کا ہوتا ۔  (جس کا مجھے خطرہ نہیں تھا) دیکھئے اہل کتاب بھی اس بات سے واقف تھے، کہ جوباتیں خدا کی طرف بندے کی بزرگی اور کرامت کے اظہار کے لئے ہوتی ہیں، وہ اتفاقی ہوتی ہیں چنانچہ صحابہ ؓ وغیرہ کے حالات سے ظاہر ہے موروثی طور پر خواب کا چلے آنا، یہ عملیات کی قسم ہے، پھر اعتبار نہیں کے کہنے والا، سچ کہتا ہے یا جھوٹ اگر سچ کہتا ہے تو اس کو کیا پتہ لگا ہے، کہ رسول الله صلي الله عليه وسلم کی شکل ہے یا کسی اور کی بہر حال یہ کوئی بزرگی کی علامت نہیں ہے،

 (10)  قرآن وحدیث میں کہیں نہیں آیا، کہ پیروں کا حق اللہ تعالی نے رکھا ہے بلکہ زکوۃ جو سال بسال غنی مسلمانوں پر اللہ نے فرض کی ہے ۔ وہ اہل بیت (قوم سید ) پر حرام ہے،  (حتی کہ ان کے غلام کے لئے ناجائز ہے ) یہ ان لوگوں کے گزارے کا ڈھنگ بنا رکھا ہے، لوگوں کو جھوٹے مسائل بتا کر حرام کھاتے ہیں خدا ان کو ہدایت کردے  (آمین) (از حضر ت العلام مولا نا حافظ عبداللہ صاحب روپڑی)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 10 ص 108-115

محدث فتویٰ

تبصرے