السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا محرم الحرام کے اول عشرہ میں شادی بیاہ یا کسی قسم کی خوشی کرنی یا اس ماہ کی دسویں تاریخ کو فاقہ کرنا ازوئے شرع جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
محرم کے پہلے عشرہ میں یا پورے مہینے میں بغیر قصداتباع خوراج ونواصب کے شادی بیاہ یا کوئی اور تقریب خوشی کرنی بلاشبہ جائز اور مباح ہے قرآن کریم اور حدیث (صیح یا ضعیف) تو درکنار کسی صحابی یا امام سے بھی ان دنوں میں شادی بیاہ یا کوئی اور خوشی کرنے کی ممانعت ثابت نہیں ہے اسی طرح دسویں تاریخ کو فاقہ کرنا بھی ثابت نہیں، البتہ صرف دسویں کو یا نویں دسویں کو نویں دسویں گیارہویں کو روزہ رکھنا ازروئے احادیث معتبرہ ثابت اور باعث اجروثواب ہے آخری چہار شنبہ اور محرم کے متعلق (محدث) میں متعدددفعہ مضامین شائع ہوچکے ہیں ملاحظہ کرلیجئے:۔
حضرت حسینؓ کی شہادت کے سبب سے دو بدعتیں پیدا ہوگئیں (۱) علیؓ اور آل علیؓ سے بغض وعداوت رکھنے والوں نے عاشورہ کے دن خوشی اور شادمانی کرنے کی بدعت ایجاد کی یہاں تک کہ اس دن خوشی کرنے کی فضیلت میں حدثیں گھڑڈالیں عاشورہ کے دن سرمہ لگانے غسل کرنے اہل وعیال پر توسعہ اور خلاف معمول بہترین اور عمدہ کھانے پکانے کو مستحب سمجھنے لگے واضح ہوکہ میرے نزدیک توسعہ علی الیال حدیث کی صحت اور اسے قابل اعتبار والتفات ہونے میں قامل وترود ہے (۲) شیعیان علیؓ نے رنج وغم جزوفزع ماتم ونوحہ گریہ زاری مرثیہ خوانی سینہ کوبی فاقہ کشی تعزیہ وغیرہ کی بدعت نکالی اور اس کے متعلق بے شمار حدثیں گھڑ کرامت کو گمراہی میں مبتلاکردیا یہ دونوں گروہ اہل ہوا اوراہل بدع سے ہیں پس ہمیں نہ شیعیان علی ؓ کا طریق اختیار کرنا چاہیے اور نہ دشمنان علیؓ کی اتباع واقتداءاور شیعوں کی مخالفت کے ارادہ اور قصدسے خاص عاشورہ کے دن خوشی منانی چاہیے یہ ارادہ اور نیت نہ ہو تو شادی بیاہ اور خوشی کرنی بلاشبہ جائز ہے، (محدث وھلے جلد۹ نمبر۴ )
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب